• KHI: Fajr 4:56am Sunrise 6:14am
  • LHR: Fajr 4:15am Sunrise 5:39am
  • ISB: Fajr 4:16am Sunrise 5:42am
  • KHI: Fajr 4:56am Sunrise 6:14am
  • LHR: Fajr 4:15am Sunrise 5:39am
  • ISB: Fajr 4:16am Sunrise 5:42am

مظلومیت فیشن بن چکا

شائع August 8, 2012

وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔—فائل فوٹو

واقعات پر گہری نظر رکھنے والے سنجیدہ اور معتبرمبصر ین کی اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایک پیچیدہ اور منقسم معاشرہ ہے۔ لیکن  بدقسمتی سے یہاں ایسےمبصرین کی تعداد کہیں زیادہ ہے جو اخباروں ،ٹی وی، ریڈیو اورعوام کے سامنے اظہار خیال کرتے وقت کم فہمی اور مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں دوسری چیزوں کے علاوہ جو ایک انتہائی ناخوشگوار پہلو نظر آتا ہے وہ یہ کہ یہاں کئی سماجی اور سیاسی اکائیاں"مظلوم" ہونےکی دعویدار ہیں۔

پاکستان کے محنت کش طبقه کا جبر و استحصال، نسلی- لسانی قومیتوں ، اقلیتوں اور عورتوں کی ان کے تناسب کے لحاظ  سے محدود نمائندگی یہاں کے سماجی حالات کی ایک واضح ترین خصوصیت ہے۔

تاہم، ہمارے سماج میں اب یہ تقریبا فیشن بن چکا ہے کہ ہر کوئی "مظلوم " کی اصطلاح کو اپنے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ نتیجتا اس لفظ کے اصلی معنی کہیں کھو گئے ہیں ۔

ان دنوں پنجاب کے وزیراعلٰی انتہائی مضحکہ خیز دعوے کررہے ہیں۔ وہ صوبے میں  لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بڑھ چڑھ کرشرکت  کرنے میں مصروف ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ پنجاب بظاہر مطلق العنان آصف علی زرداری کے ہاتھوں نشانہ بن رہا ہے ۔

شکر ہے گزشتہ چند برسوں میں پنجاب کے حوالے سے واحد نسلی اکائی کا جو خیالی نظریہ پیش کیا جاتا رہا ہے وہ اب بڑی حد تک دم توڑچکا ہے اور یقین ہے کہ اس کے ساتھ ہی چھوٹے شریف کی ریشہ دوانیاں بھی دم توڑ دینگی۔

تاہم ، آج کل چند اور نسبتا کم اہم دعوے بھی زیرگردش ہیں اورانہیں سنجیدگی سے لیے جانے کے ساتھ ساتھ ان کا مناسب اور معروضی تجزیہ بھی ہونا چاہیے۔

یہاں میں خاص طورپر آپکی توجہ نسلی و لسانی شناخت کے مسئلےکی جانب مبزول کروانا چاہتا ہوں۔ میں اسے پاکستان کا اہم ترین اور حساس معاملہ سمجھتا ہوں ۔

اہم ترین اس لیے کہ شناخت کے اس مسئلے کو طبقه یا جنس کے مسئلے سے کہیں زیادہ سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے، حالانکہ موخرالذکرعناصرسماجی رتبہ اور قوت کا تعین کرنے میں زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں موجود نسلی و لسانی سطح پر خطرناک تصادم اورمسابقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ موجودہ وقت کا سب سے بڑا نہیں تو کم از کم ایک بڑا مسئلہ ضرور ہے۔

شہباز شریف کے حالیہ مضحکہ خیز بیانات کے باوجود پنجاب کو چھوڑ کر پاکستان کی دیگر تمام نسلی و لسانی قومیتوں کا دعوی ہے کہ اسٹبلشمنٹ ان کا استحصال کرتی ہے۔

بعض صورتوں میں اس دعوی سے منہ موڑنا ممکن نہیں، اس کی ایک مثال بلوچ قوم ہے جو ریاست کے وجود میں آنے سے ہی راولپنڈی یا ان لا تعداد سیاست دانوں کا شکار رہی ہے جنہوں نے جی ایچ کیو کی سخت گیریوں کو یا تو خاموشی سے یا برضا و رغبت تسلیم کر لیا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بلوچ ریاستی دہشت گردی کا شکار نہیں ہے۔ فی الحقیقت ہزاروں بلوچ ریاستی ملازم ہیں اور ان سے بھی بہت زیادہ ملک گیر معاشی اور سماجی نظام کا حصہ ہیں۔

مختصریہ کہ ان بلوچوں کےخاندانوں اور قبیلوں کا براہ راست یا بالواسطہ ان دیگر پاکستانیوں سے  پیچیدہ اور گہرا تعلق ہے جنھیں بلوچ قوم پرست اپنا "دشمن" سمجھتے ہیں۔

اہم بات یہ ہےکہ غالباَ بلوچ پاکستان کے دستوری ڈھانچے میں سب سے کم مدغم نظر آتے ہیں ۔ عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی نسلی و لسانی قومیتوں میں شامل سب سے زیادہ متحرک پنجابی ہیں اور ان کے بعد پشتو اور اردو بولنے والے ہیں۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سرائیکی، سندھی، خیبر پختون خواہ کے ہزاروال اور کشمیریوں کو سیاسی اور معاشی وسائل میں ان کے حصّے سے مکمل طور پر محروم کر دیا گیا ہے۔

کو ئٹہ کے ہزارہ یا گلگت بلتستان کی مختلف قومیتوں جیسی چند دوسری چھوٹی قومیتوں کے درمیان مظلومیت کے جذبات (خواہ حقیقی ہوں یا فرضی) موجودہ سیاسی اور معاشی ڈھانچوں میں جڑ پکڑتے نظر آ رہے ہیں۔

اختصار کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے اور ایسے شواہد موجود ہیں کہ ہمارے نظامِ سیاست میں نظر آنے والی تقسیم کے با وجود یک جہتی کی خاصی مضبوط قوتیں ، جن میں سے چند یقینا استبدادی نوعیت کی بھی ہیں سر گرم عمل نظر آتی ہیں۔

نسلی و لسانی قومیتوں میں جنس اور طبقاتی تقسیم پرحقیقی یکجہتی قائم کرنے کیلئے دونوں ہی سطح پرضروری ہے کہ پاکستانی ریاست کی جانب سے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں اور قومی وحدت کے نفاذ کیلئے بنیادی راہ ہموار کی جائے۔

گو یہی پاکستانی ریاست، جو اپنے معاشرے کی کثیر القومی حقیقت کو تسلیم کرتی نظر نہیں آتی، تنگ نظری کا شکار ہے۔ لیکن آج پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع تر حصّے کو ریاستی اقتدار تک اور نتیجتا معاشی اقتدار تک  براہ راست رسائی حاصل ہے۔

بعض دانشوروں نے اس عمل کو مقامیت سازی کے عمل سے تعبیر کیا ہے۔ سادہ الفاظ  میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نسبتا چھوٹی، مغرب زدہ اشرا فیہ کو بتدریج ہٹا دیا جائے جو نسلی و لسانی قومیتوں کا ایک بے ڈول امتزاج ہے اور جو نظامِ ریاست اورمعیشت کے تمام پہلوؤں پر قابض رہا ہے.

سیاسی معاشیات کی مقامیت سازی کی اس تبدیلی کوکسی طور پر بھی اقتدار کے طویل المد ت ڈھانچےسےعلیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔  لیکن تبد یلی کے واقع ہونے میں وقت لگتا ہے اور یہ عمل مستقبل میں بھی جاری رہیگا۔

اس امر کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ بعض نسبتاَ مقتدر قومیتوں، مثلا اردو بولنے والوں میں، مظلومیت اور بے دلی کے جذبات کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟

کبھی سندھ کے شہری علاقوں خاص طور پر کراچی کے سیاسی اور معاشی وسائل پر اردو بولنے والوں کا غلبہ تھا اوراب دیگر متعلقه نسلی  ولسانی قومیتوں کی اقتدار میں شرکت اور" دخل اندازی" کے نتیجے میں اردو بولنے والوں کو چیلنج  کا سامنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں اجارہ داری کی ہولناک جنگ لڑی جاری ہے۔

نسلی بنیادوں پر تقسیم کی اس خلیج کو پاٹنے کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے کہ موجودہ پاکستان کی نسلی تقسیم کی بنیادی خصوصیت کیا ہے۔

اس کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے-جس طرح شہباز شریف کے مضحکہ خیز دعوؤں کو چیلنج نہ کرنا غلط ہوگا اسی طرح ضروری ہے کہ ظالم اور مظلوم کے اُس کلی دعوے کے مفروضی نظریہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے جسے نسلی و قومیتی تحریکوں کے اندر موجود نفرت پیدا کرنے والے عناصر مسلسل ہوا دے رہے ہیں۔

اس بات سے انکار کرنا سادہ لوحی ہوگی کہ حقیقی تفرقات کی موجودگی ہی ان تنازعات کی بنیاد ہے - مثلا یہ کہا گیا کہ ملتان میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخا ب میں "مقامی" سرا ئیکی اور پنجابی"آبادگار" ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔

اسی لئے تمام ذی العقل لوگوں کو چاہیے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں اس تقسیم سے بالاتر ہو کر سچائی کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا ئیں۔

ہم اب بھی پرامید ہیں کہ اس ملک کے عوام متحد ہو کر ایک ایسا معاشرہ تعمیر کر سکتے ہیں جہاں ہم آہنگی ہو اور تنوع کو سنجیدگی اور وقار کے ساتھ برتا جاتے۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ہم دنیا کی ہر برائی کے لیے پنجاب کو مورد الزام ٹھہرانے کا وطیرہ چھوڑدیں۔ اسی طرح پنجابیوں کو یہ تسلیم کرنے کے علاوہ اس تاثر کو ختم کرنا ہو گا کہ اسٹبلشمنٹ پرپنجابی کرادر کا غلبہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔

مرغی پہلے آئی یا انڈہ یہ ایک لاحاصل بحث ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ ہم اس کے نتائج پرغورکریں۔

اس مضمون کے مصنف قائد آعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں

عاصم سجاد اختر

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

کرامت خان Aug 09, 2012 09:58am
تھوڑی سی آسان زبان استعمال کریں تو ہمیں بہتر طور پر سمجھ میں آئے گا۔

کارٹون

کارٹون : 10 اپریل 2025
کارٹون : 9 اپریل 2025