طویل ترین دوری پر موجود کہکشاں کی دریافت
کیپ کناورل، فلوریڈا: ماہرینِ فلکیات نے ایک کہکشاں دریافت کی ہے جو اب تک ہماری معلومات کے مطابق طویل ترین فاصلے پر موجود ہے۔ اس کے ذریعے ماہرین کو یہ موقع ملا ہے کہ کائنات وجود میں آنے کے تقریباً 70 کروڑ سال قبل کا منظر دیکھ سکیں۔
فی الحال اس کہکشاں کا تکنیکی نام z8_GND_5296 ہے ۔ اس کی دوری کا یہ اندازہ ہے کہ اس کہکشاں سے جو روشنی ہم تک آرہی ہے اسے زمین تک پہنچنے میں 13.1 ارب سال لگتے ہیں۔ زمین کے گرد مدار میں حرکت کرتی ہوئی مشہور دوربین ہبل اور ہوائی میں مشہور کیک آبزرویٹری نے انفراریڈ روشنی میں اس کہکشاں کی تصاویر لی ہیں۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس ، آسٹن کے عالمِ فلکیات اسٹیون فنکلسٹائن کہتے ہیں کہ اتنی دوری تک کی کسی کہکشاں کو دیکھنا ایک ناقابلِ یقین تجربہ ہوتا ہے کیونکہ ہمارا سورج آٹھ ارب سال قبل پیدا ہوا تھا اور اس کے بہت بہت بعد میں زمین بنی جہاں اولین زندگی کے آثار پیدا ہوئے ۔
ماہرین کے مطابق اسے دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے کائنات کی اولین روشنی کو دیکھنا۔ اس پر غور کرنے سے کائنات کے کئی رازوں سے بھی پردہ اُٹھایا جاسکے گا۔
ماہرین کے مطابق اس کہکشاں میں ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے سے کم از کم ایک سو گنا زائد ستارے موجود ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں ہیلیئم اور ہائیڈروجن سے بھی بھاری عناصر ( ایلیمنٹ) ذیادہ مقدار میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کہکشاں میں بہت تیزی سے ستارے بن رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جب کائناتی فاصلوں کی بات ہو تو لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں کلومیٹر کے پیمانے بھی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اس کیلئے عموماً نوری سال ( لائٹ ایئر) کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے وہ فاصلہ جو روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ایک سال کے اندر طے کیا جائے۔
روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل یا تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے اور کائنات میں کوئی بھی شے یا فورس اس سے ذیادہ تیزی سے سفر نہیں کرتی ۔
جہاں تک کہکشاں کے نظر آنے کا سوال ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ کہکشاں اب ختم ہوچکی ہو، بڑھ چکی ہو یا اس کی شکل بدل چکی ہو کیونکہ ہم اس کی اربوں سال پرانی تصویر دیکھ رہے ہیں یعنی اس کا ماضی دیکھ رہے ہیں۔
اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر بھری دوپہر میں پاکستانی وقت کے مطابق بارہ بجے سورج اچانک بجھ جاتا ہے تو ہمیں فوری طور پر اس کی اطلاع نہیں ہوگی بلکہ ہمیں اس کا علم آٹھ منٹ بیس سیکنڈ بعد ہوگا یعنی بارہ بج کر آٹھ منٹ اور بیس سیکنڈ پر اس واقعے کا پتا چلے گا۔ کیونکہ سورج کی روشنی زمین تک آنے میں آٹھ منٹ بیس سیکنڈ لگتے ہیں۔