"امریکا کے ساتھ معاملات جلد طے ہوجائیں گے"
لندن: پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات چوبیس اکتوبر کو اس امید کا اظہار کیا کہ امریکی صدر بارک اوبامہ کے ساتھ ملاقات کے بعد ڈرون حملوں کا معاملہ جلد حل ہوجائے گا، جو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا باعث بن رہا ہے۔
واشنگٹن کے چار روزہ سرکاری دورہ کے اختتام کے بعد لندن پہنچنے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ڈرون حملوں کا معاملہ پاکستانی عوام کی خواہش کے مطابق جلد حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر یقیناً پیش رفت ہوگی کیونکہ اس سے علاقائی سلامتی اور پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اب یہ معاملہ کسی نہ کسی طرح حل ہو جائے گا۔
امریکا کے دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں ان تمام معاملات پر بات چیت ہونی چاہئے تھی اور اگر ان معاملات پر بات نہیں ہوئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب بھی ان امور پر بات نہ کی جائے۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا جو کچھ ہم نے کہا ہے اس پر عمل کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کو منافقت سے پاک ہونا چاہئے۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ڈرون حملے کر کے جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، وزیراعظم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ رپورٹ میں کہا گیا ہے یہ ان کا موقف ہے لیکن ہم نے یہ معاملہ وہاں اٹھایا ہے جہاں اٹھایا جانا چاہئے تھا۔
کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لیے امریکی رہنماؤں کے ساتھ اپنی بات چیت سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کو اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہندوستان اس معاملے میں امریکہ کا کردار نہیں چاہتا تاہم پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ اپنا کردار ادا کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی وزیر خارجہ کا ان کے بیان پر ردعمل پڑھا اور سنا ہے ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنی چاہئے کیونکہ یہ اچھی چیز ہوگی لیکن اگر دوطرفہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو کوئی تیسرا فریق مسئلے کے حل میں مدد دے سکتا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ امریکا اور پاکستان دونوں نے اپنے اپنے خدشات اٹھائے ہیں اور یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خدشات کو سمجھیں اور پھر انہیں حل کریں، اب ہم نے مذاکرات کا عمل شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر اوباما نے جو کچھ کہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے خیالات مثبت ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ اپنے دورے کے دوران انہوں نے امریکی انتظامیہ کی انتہائی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں، جنہوں نے معیشت، توانائی اور تعلیم کے مسائل کے حل میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے متعلق ایک سوال پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ہم نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر بات کی اور اب ہم پاکستان واپس جا رہے ہیں، صورتحال کا جائزہ لیں گے جس کے بعد ان معاملات پر صحافیوں سے بات ہوگی۔
پاکستان میں توانائی کے بحران پر بات چیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ داروں سے کہیں کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پن بجلی، گڈانی کول پراجیکٹ اور ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں امریکی سرمایہ دار سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بھاشا ڈیم پر کام شروع کر دیا ہے، چونکہ حکومت خود توانائی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے اس لیے انہیں یقین ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آ کر اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں گے اور ہم توانائی کا مسئلہ جلد حل کرنا چاہتے ہیں۔