• KHI: Maghrib 6:59pm Isha 8:19pm
  • LHR: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm
  • ISB: Maghrib 6:46pm Isha 8:15pm
  • KHI: Maghrib 6:59pm Isha 8:19pm
  • LHR: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm
  • ISB: Maghrib 6:46pm Isha 8:15pm

امریکا پاکستان میں ڈرون حملوں کی تحقیقات کرے، ایمنسٹی

شائع October 22, 2013

۔ —فائل فوٹو رائٹرز
۔ —فائل فوٹو رائٹرز

اسلام آباد: ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں ڈرون حملوں کے دوران شہری ہلاکتوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکا سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

منگل کو ایک جاری رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سی آئی اے کے ڈرون حملوں میں مبینہ شہری ہلاکتوں کے واقعات بیان کیے ہیں۔

رپورٹ میں 68 سالہ ایک معمر خاتون کا بھی ذکر ہے جو ڈرون حملے کے وقت اپنے پوتوں کے ساتھ کھیتی باڑی کر رہی تھی۔

مامانا بی بی کے پوتوں نے لندن سے کام کرنے والے انسانی حقوق کے اس گروپ کو بتایا کہ چوبیس اکتوبر 2012 میں ان کی دادی کو شمالی وزیرستان میں اس وقت میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے کھیت سے سبزیاں چن رہی تھیں۔

متاثرین کے مطابق، اس حملے میں بی بی کے تین پوتوں سمیت آس پاس موجود لوگ بھی زخمی ہوئے۔

امریکا ڈرون حملوں کو شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں اہم ہتھیار تصور کرتا ہے جبکہ پاکستان میں عام خیال ہے کہ ان حملوں کا نشانہ زیادہ تر شہری ہوتے ہیں۔

اس متنازعہ معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی مشترکہ کوششوں کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔

'کیا اگلا ہدف میں ہوں گا؟ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے' کے نام سے جاری اس رپورٹ میں ایک اور ہولناک واقعہ کا بھی ذکر ہے جو چھ جولائی، 2012 کو شمالی وزیرستان میں پیش آیا۔

عینی شاہدین کے مطابق، بہت سے میزائل شام کے وقت ایک خیمے پر اس وقت برسے جب مزدور اپنا کام ختم کر کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

اس حملے کے بعد زخمیوں کی مدد کے لیے پہنچنے والوں پر بھی میزائل داغے گئے۔

ایمنسٹی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ اُس شام اٹھارہ مزدور مارے گئے، جن کا کسی شدت پسند گروپ سے دور دور تک تعلق نہیں تھا۔

پاکستان کے انٹیلیجنس حکام نے اس حملے میں مارے جانے والوں کو مبینہ طور پر عسکریت پسند قرار دے دیا تھا۔

امریکی صدر بارک اوباما نے مئی میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ امریکا اس وقت تک ڈرون حملہ نہیں کرتا جب تک اسے یقین نہ ہو جائے کہ حملے میں کوئی عام شہری ہلاک یا زخمی ہوگا۔

تاہم ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنے ڈرون پروگرام کو اس قدر خفیہ رکھا ہوا ہے کہ یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ اس نے شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھا رکھے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، کئی دوسری عالمی تنظیمیں جیسا کہ ویب سائٹ لانگ وار جرنل، نیو امریکن فاؤنڈیشن تھینک ٹینک اور بیورو آف انوسٹیگیٹیو جرنلزم نے بھی پاکستان میں تقریباً پچھلے دس سالوں سے جاری ڈرون حملوں میں عام ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔

ان تنظیموں کے مطابق، ڈرون حملوں سے پاکستان میں 2065 اور 3613 کے درمیان لوگ مارے گئے، جن میں سے 153 سے 926 تک عام شہری تھے۔

ایمنسٹی نے تشویش ظاہر کی ہے کہ رپورٹ میں درج واقعات غیر قانونی ہلاکتوں یا پھر ماوارئے عدالت قتل اور جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتے ہیں، حالانکہ امریکا ان حملوں کو قانونی قرار دے چکا ہے۔

پاکستان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ریسرچر مصطفٰی قادری کہتے ہیں: ہمیں ان ہلاکتوں کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

'امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس خطے میں لاحق خطرات حقیقی نوعیت کے ہیں، اور بعض حالات میں یہ ڈرون حملے قانونی بھی ہوں گے لیکن یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ مزدور اور اپنے پوتوں میں گھری ایک معمر خاتون، امریکا کے خلاف تو کیا کسی کے لیے بھی خطرے کا باعث تھے'۔

ایمنسٹی نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عالمی قوانین کے تحت رپورٹ میں درج واقعات کی تحقیقات کرتے ہوئے متاثرین کو ہرجانہ ادا کرے۔

امریکا نے پاکستان میں پہلی بار 2004 میں ڈرون حملہ کیا تھا جس کے بعد اب تک ایسے 350 حملے ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر شمالی وزیرستان میں کیے گئے۔

اوباما کے 2009 میں صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد ان حملوں میں تیزی آ گئی تھی اور 2010 میں سو سے زائد حملے کیے گئے۔

اس کے بعد پاک – امریکا تعلقات میں کشیدگی کے سبب ڈرون حملوں کی تعداد میں کمی آتی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے: ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستانی حکام کی جانب سے ڈرون حملوں کےمتاثرین کے حقوق کے تحفظ میں ناکامی پر بھی شدید تشویش کا شکار ہے۔

'پاکستان کا فرض ہے کہ وہ آزادانہ اور غیر جانبدرانہ طور پر ملک میں ہونے والے ڈرون حملوں کی نا صرف تحقیقات کرے بلکہ متاثرین کو انصاف اور ہرجانہ کی ادائیگی یقینی بنائے۔

ایمنسٹی نے بتایا کہ رپورٹ مرتب کرنے کے دوران جن متاثرین سے انٹرویو کیے گئے وہ بظاہر کسی شدت پسند گروپ سے تعلق نہیں رکھتے۔

رپورٹ کے مطابق ان متاثرین کو پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی کسی قسم کی معاونت یا ہرجانہ ادا نہیں کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 24 اپریل 2025
کارٹون : 23 اپریل 2025