!خوراک کا بھی سوچیں
روٹی اور کتاب میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے --- پاکستان میں خوراک کی خاطر اکثر بچوں کی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا جاتا ہے تاکہ انہیں روٹی اور کپڑا دیا جا سکے- اسی لئے غریب بچوں کو پاکستان میں تعلیم دینے کے ساتھ مفت خوراک دینا بھی ضروری ہے، وہ بھی ایسے وقتوں میں جب غذائی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں-
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ، پاکستان کے خوراک سے محروم گھرانوں میں تعلیمی صورتحال کی بڑی خستہ حال تصویر پیش کرتی ہے- اسکولوں میں پانچ سے چودہ سال تک کے بچوں کے شرح اندراج کا تعلق براہ راست ان گھرانوں کی معاشی حالت سے ہے، جو انتہائی غریب گھرانوں میں نہ ہونے کے برابر ہے-
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس میں سے لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کو کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد ہے-
ماضی قریب میں پاکستان نے خواندگی کی شرح کو بہتر بنایا ہے، تاہم، یہ فوائد نہ تو کافی ہیں اور نا ہی آفاقی- غریبوں کو ایک مشکل فیصلے سے گزرنا پڑتا ہے کہ آیا اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں یا انہیں پیسا کمانے کے لئے کہیں کام پر لگا دیں- ایک بچی کے لئے تعلیمی مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں-
انتہائی غریب گھرانوں خصوصاً دیہاتی علاقوں کے لئے تشکیل دی جانے والی تعلیمی پالیسی میں محض کتابوں اور اساتذہ پر غور کرنے سے کام نہیں چلے گا- تعلیمی پالیسی میں مفت خوراک بھی شامل کرنا ہوگی، اور ایسی نوجوان لڑکیوں کے لئے گھر میں خصوصی تعلیمی سہولیات مہیا کرنی ہونگی جن کے والدین انہیں اسکول بھیجنے سے انکار کریں-
ورلڈ بینک سٹڈی کے مصنفین زائو ہوئہو اور سیویونھونگ نے پاکستان میں سنہ دو ہزار سات اور دو ہزار آٹھ کے دوران بچوں کی تعلیم پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگایا-
سنہ دو ہزار سات-دو ہزار آٹھ کے دوران، پاکستان میں گندم کی قیمت ایک سو اکیس فیصد بڑھی، جبکہ چاول کی قیمت میں چھیتر فیصد اضافہ ہوا- گندم اور چاول اہم غذائی جنس ہیں انکی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے نا صرف کم آمدنی والے گھرانوں کو بلکہ متوسط طبقہ کو بھی متاثر کیا ہے-
پاکستانی سماجی اور معیار زندگی کے پیمائشی سروے نے سنہ دو ہزار آٹھ میں پندرہ ہزار گھرانوں سے معلومات اکھٹا کی تھیں، اور پھر سنہ دو ہزار دس میں ان ہی میں سے چھ ہزار دو سو باون گھرانوں سے دوبارہ معلومات اکھٹا کیں، اس اسٹڈی سے یہ پتا چلا کہ پاکستان میں کم ز کم ستتر فیصد گھرانے غذائی اشیاء کی قیمتوں کے بحران سے متاثر ہوۓ ہیں- ان گھرانوں نے یا تو اپنی خوراک میں کمی کر دی یا پھر کم معیاری اور سستی غذائی اشیاء کا استعمال کرنے لگے-
ورلڈ بینک اسٹڈی اس نتیجے پر پنہچی ہے کہ پاکستان میں سنہ دو ہزار آٹھ - دو ہزار دس کے دوران اشیاۓ خوردنی کی قیمتوں میں بحران کی وجہ سے بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوۓ ہیں-
اسٹڈی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ تین فیصد گھرانوں نے اپنے بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر کام پر لگا دیا، جب کہ دیگر ایک فیصد نے اپنے بچوں کو اسکولوں سے اٹھا لیا، اس رپورٹ کی سب سے اہم دریافت پاکستان بھر میں مختلف علاقوں میں ہونے والے اسکول انرولمنٹ ہیں، جہاں دیہاتی یا کم آمدنی والے گھرانوں میں بچوں کی تعلیم پرائمری لیول سے بھی کم ہے-
اگر کم آمدنی والے گھرانوں میں پرائمری تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ موجود رہے گی تو انکی آنے والی نسلیں غربت کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جائیں گی-
غربت اور چائلڈ لیبر کے درمیان تعلق سے سب بخوبی واقف ہیں- اس موضوع پر سب سے زیادہ حوالہ دی جانے والی اسٹڈی کے مصنفین، کوشک باسو اور فام ہوانگ وان نے لگژری اگزیوم (luxury axiom) کی اصطلاح ایجاد کی تھی، جس کے مطابق "ایک فیملی اپنے بچے کو اسی صورت میں مزدوری پر بھیجے گی اگر فیملی کے پاس بالغ ذارئع سے آمدنی کا حصول انتہائی کم ہو جاۓ -"
جیسا کہ پاکستان جیسی جگہوں کی لیبر مارکیٹ بچوں کو بالغ مزدوروں کا نعم البدل سمجھتی ہیں، اس عمل کو باسو اور وان نے، سبسٹیچیوشن اگزیوم (substitution axiom) کا نام دیا، انتہائی غریب گھرانوں کے بچوں کو اسکول چھوڑ کر زبردستی محنت مزدوری کرنا پڑ جاتی ہے جب گھر کا خرچ چلانے کے لئے آمدنی پوری نہیں پڑتی-
ورلڈ بینک کی حالیہ اسٹڈی لگژری اگزیوم کی تصدیق کرتی ہے- تاہم، اسٹڈی کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی صورت حال باسو اور وان کے پیش کردہ اگزیوم سے کتنی مماثل ہے-
امیر گھرانوں کے بانوے فیصد لڑکوں کے مقابلے میں غریب ترین گھرانوں کے ساٹھ فیصد لڑکے اسکول جاتے ہیں- کم آمدنی والے گھرانوں میں بچیوں کے خلاف تعصب کہیں زیادہ نمایاں ہے جہاں انتیس فیصد بچیاں اسکول جاتی ہیں جبکہ ساٹھ فیصد گھر میں بیکار بیٹھی رہتی ہیں-
حیرت انگیز طور پر، امیر گھرانوں میں اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے برابر رہی (بانوے فیصد)- مزید آگے جا کر، سنہ دو ہزار آٹھ میں دس سے چودہ سال کی عمر کے اٹہتر فیصد لڑکے اسکول گۓ، جبکہ اسی عمر کی صرف باسٹھ فیصد لڑکیاں اسکول گئیں- حقیقت تو یہ ہے کہ تین میں سے ایک لڑکی کو گھر میں فارغ بٹھا دیا گیا- دو سال بعد، گھر بیٹھنے والی لڑکیوں کی تعداد اڑتالیس فیصد بڑھ گئی-
ہو اور ھونگ اسٹڈی کی ایک اور اہم دریافت، اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں بحران سے نمٹنے کے لئے شہری اور دیہاتی آبادی کے درمیان نمایاں فرق ہے-
دیہاتی علاقوں میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ انتہائی غریب طبقے کے بچوں کے اسکول داخلوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی، جبکہ شہری علاقوں کے انتہائی غریب طبقے میں ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا-
پاکستان کی آئندہ نسل کی تعلیم ریاست اور سماج دونوں کا بنیادی فرض ہے- تاہم، انتہائی غریب طبقے کی غربت انہیں کتاب یا خوراک میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور کر دیتی ہے- چناچہ، بنیادی تعلیم کی ایک ایسی عملی پالیسی تشکیل دی جاۓ جو ان بچوں کے پیٹ اور ذہن دونوں کے لئے غذا فراہم کرے-
ترجمہ: ناہید اسرار