...چنگچی کے بعد
ہم تو کراچی والوں کو پہلے ہی مشورہ دے رہے تھے کہ اپنے لئے سائیکل خرید لیں، سائیکل چلانے سے صحت بھی اچھی رہتی ہے اور بندہ پیٹرول اور گیس کے حملوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
پچھلے دنوں کراچی میں کئی دھماکے ہوئے، ایک طرف تو پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا اور پھر غریب آدمی کے جینے کا ایک اور سہارا چنگچی بھی چھین لیا گیا۔
ہماری فرض شناس اور رحم دل پولیس نے چالیس ہزار چنگچی رکشوں کی آمد کے بعد ان پر پابندی لگا دی۔ پولیس فرض شناس اس لئے ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے پر چلنے والے اس دھندے کو بند کردیا اور رحم دل اس لئے کہ چالیس ہزار چنگچی آنے تک ہمارے پولیس والے ان پر رحم کھاتے رہے اور چنگچی نے ٹڈی دل کی طرح کراچی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چنگچی رکشوں پر ہم نے پہلے بھی بلاگ لکھے ہیں۔ اپنے پہلے بلاگ کے اختتام پر ہم نے عوام سے یہ سوال پوچھا تھا کہ کراچی کی روایتی ہڑتال کے دوران بس جل جاتی ہے، ٹیکسی، رکشہ اور ٹرک جل جاتا ہے لیکن چنگچی نہیں جلتی، بلکہ بڑی شان سے روڈ پر چلتی رہتی ہے۔ شہر میں پچھلی ہڑتال کے دوران دوست لوگوں نے ہماری بات کا جواب دیتے ہوئے تبرکاً دو چنگچی بھی جلا دئے۔
کراچی کے گھر گھر کام کرنے والی عورتیں جنہیں عام طور پر ماسیاں کہا جاتا ہے، ان کے شوہروں پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور عورت سے کام کرواتے ہیں، چنگ چی نے ان حضرات کو گھر سے نکال کر سڑک پر لا کھڑا کیا اور وہ ناکارہ اور نامراد بیویوں کے طعنے سننے والا شوہر ایک دم سے شیر بن گیا کیونکہ وہ اب روزانہ پانچ سو سے ہزار روپے کماتا ہے۔
پر حکومت نے ان حضرات کے لکھ پتی بننے کے تمام خوابوں پر پانی پھیر دیا اور چنگچی رکشوں پر پابندی لگا دی۔ کہتے ہیں کہ ان رکشوں نے ٹریفک قوانین کو مذاق بنا دیا تھا۔ ہمیں حیرت ہے کہ ٹریفک پولیس ٹریفک قوانین کے بارے میں خود کو سپیریئر سمجھتی ہے اور پھر یہ مذاق اتنے سالوں کے بعد کیوں برا لگنے لگا۔۔۔۔۔
دو چار چنگچی چلانے والوں سے بات ہوئی تو پتہ چلا ہر چنگچی والا روزانہ دو سو روپے کا بھتہ دیتا ہے۔ چنگچی کراچی کی سڑکوں پر لانے اور ہزاروں کی تعداد تک پہنچانے میں ایک سیاسی جماعت اور پولیس کا گٹھ جوڑ بتایا جاتا ہے۔
پچھلی حکومت اس جماعت کے بغیر چل نہیں سکتی تھی لہذا چنگچی رکشوں کی جانب چشم پوشی کر لی گئی تھی لیکن نئی حکومت کے آتے ہی سیاسی جماعتوں اور ان کے مسلّح افراد کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا اور ساتھ ہی چنگچی پر پابندی بھی لگا دی گئی۔
ہم چنگچی رکشوں کو کتنا ہی برا بھلا کہیں لیکن یہ بات ماننے والی ہے کہ دو کروڑ آبادی والے اس شہر کا ٹرانسپورٹ نظام تباہ ہوکر رہ گیا ہے اور عوام ان چنگچی پر سفر کرنے پر مجبور ہیں اب اگر چنگچی بھی نہ رہا تو وہ پیدل سفر کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ عقل سے پیدل تو ہم پہلے ہی تھے اب عملاً پیدل ہوجایئں گے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شہر میں مزدا بسیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور زیادہ تر روٹ تو اب ختم ہی ہوچلے ہیں۔ اکا دکا کوچز نطر آتی ہیں لیکن حال یہ ہوتا ہے کہ چھت تک بھری ہوتی ہیں اور پائیدان پر انگوٹھا ٹکانے کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔ پرانے علاقوں میں چلنے والی بڑی بسیں مثلا "فور ایل" اور "فائیو سی" وغیرہ بھی اتنی قدیم ہو چکی ہیں کہ کچھ دنوں میں ان کا شمار تاریخی نوادرات میں ہونے لگے گا۔
گرین بسیں سڑکوں کے بجائے شہری انتظامیہ کے پیٹوں میں چلی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے جب لاہور کی میٹرو بس کا افتتاح کیا تو ہمارے شاہ صاحب نے بھی جذبات میں آکر بڑی ڈینگیں ماریں لیکن ایک بھی عملی قدم نہ اٹھایا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی کراچی میں عملداری نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں کراچی کے ووٹوں کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ ان کے بغیر بھی حکومت بنا لیتے ہیں۔
یہی حال وفاقی حکومت کا ہے تو کون اس شہر کا پرسان حال ہوگا۔۔۔۔ لیکن ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ اگر کراچی کی ٹرانسپورٹ کا پہیہ بیٹھا تو پورے ملک کی معیشت کا پہیہ بیٹھہ جائے گا۔۔۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے