ڈھائی کروڑ ڈالرز روزانہ ملک سے باہر جارہے ہیں: گورنر اسٹیٹ بینک
اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے کل بروز منگل یکم ستمبر کو ایک چونکا دینے والا یہ انکشاف کیا کہ روزانہ ایئرپورٹ سے ڈھائی کروڑ ڈالرز کی مالیت کی غیر ملکی کرنسی ملک سے غیرقانونی طور پر باہر لے جائی جارہی ہے، اور شاید حالیہ دنوں میں روپے کی قیمت کے تیزی سے نیچے گرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ڈاکٹر یاسین انور نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ، مالیات اور اقتصادی امور کو بتایا کہ ”تقریباً ڈھائی کروڑ ڈالر ز کی مالیت کی غیر ملکی کرنسی کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ایئرپورٹس سے روزانہ باہر جارہی ہے، اور ہم وفاقی تفتیشی ادارے ایف آئی اے کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے جارہے ہیں ، جس کے تحت وہ بیرون ملک جانے والے ہرمسافر کے سوٹ کیس کو چیک کرے گی اور تمام ممکنہ کمزور راستوں کو تلاش کرے گی۔“
ڈاکٹر یاسین انور نے یہ بیان اس وقت دیا جب سینیٹرز نے اس حکومتی پالیسی پر یہ سوال اُٹھایا، جو روپے پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی، لیکن چند ہفتوں سے اس کی قدر مسلسل گرتی چلی جارہی ہے اور لوگ روپے کے بدلے ڈالر پر زیادہ اعتماد کررہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل نے کہا کہ ”یہاں تک کہ پراپرٹی ڈیلرز اور بڑے اسٹورز اب ڈالروں میں کاروبار کررہے ہیں۔“
قائمہ کمیٹی کے اس اجلاس کی صدارت متحدہ قومی موومنٹ کی سینیٹر نسرین جلیل نے کی، پیپلزپارٹی کے عثمان سیف اللہ خان اور صغریٰ امام نے وزیراعظم نواز شریف کی ہنگری کے امریکی ارب پتی جارج سوروس سے ملاقات کا پس پردہ سبب جاننا چاہا۔ جارج سوروس پر الزام ہے کہ وہ عالمی کرنسی کے بڑے سٹہ بازوں میں سے ایک ہیں، اور انہوں نے 1990ء کے دوران جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی معیشت کی بربادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔سینیٹر سیف اللہ نے کہا کہ ہم اس کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اس ملاقات میں وزیراعظم کو کیا مشورہ دیا۔
اس سوال کے جواب میں سرکاری ردّعمل یہ تھا کہ جارج سوروس کا پاکستانی کرنسی کی مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں، لیکن وہ انسانیت کی کچھ خدمت کرچکے ہیں، اور ان کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات چوٹی کے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے ساتھ رابطوں کا ایک حصہ تھی۔
سینیٹروں نے حکومتی ترجیحات خاص طور پر آئی پی پیز کو پانچ ارب روپے فراہم کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے بھاشا ڈیم، داسو ڈیم اور نیلم جہلم پروجیکٹ جیسے ہائیڈرو پاور کے منصوبوں کی ترقی پر یہ رقم خرچ کی جانی چاہئیے تھی، جہاں صرف برائے نام رقم مختص کی گئی ہے۔
سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان نے ڈالرپر لوگوں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کے تصور کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ لوگ اپنی ادائیگیاں غیر ملکی کرنسی میں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت انسدادِ دہشت گردی پر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کے خلاف کے خلاف بھی بین الاقوامی معیار کی قانون سازی کررہی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے سربراہ نے کہا کہ اقتصادی پالیسیاں ہمیشہ طویل مدتی مقاصد کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں، اور مختصر مدت کے مسائل کے ساتھ ان کی قدروقیمت کا اندازہ نہیں لگانا چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹرل بینک قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں ہے، جو اس طرح کے اقدامات براہِ راست اُٹھا سکے۔ لیکن انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وہ اس مارکیٹ میں ہونے والے ایسے تمام اتار چڑھاؤ کی نگرانی بھی کررہے ہیں، جس طرح ماضی میں خانانی اینڈ کالیا اور زرکو ایکسچینج کے خلاف ایف آئی اے نے کارروائی کی تھی۔
سرمائے کی جنگ ہمیشہ سے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور شرح تبادلہ پر شدید دباؤ ڈالتی رہی ہے، لیکن اس طرز کی غیرملکی کرنسی بیرون ملک اسمگلنگ کے رجحان کا تخمینہ اس سے پہلے پچاس لاکھ ڈالرز سے ایک کروڑ ڈالرز روزانہ ہوا کرتا تھا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر کا اس انکشاف کا مطلب یہ ہوا کہ غیرملکی کرنسی کی غیرقانونی منتقلی کا تخمینہ حیرت انگیز طور پر ایک ماہ کے دوران پچھتر کرور ڈالرز یا سالانہ نو ارب ڈالرز سالانہ بنتا ہے۔یہ لگ بھگ غیرملکی زرمبادلہ کے ملکی ذخائر کے برابر ہے۔
ڈاکٹر یاسین انور نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ سے رقم نکالنا روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمت کی وجہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ایک ڈالر کی قیمت ایک سو دس روپے کے برابر ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی انتہائی نیچے گرنے کی صرف یہی ہے کہ دو منٹ کے دوران ایک کروڑ تیرہ لاکھ روپے کا غبن کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بینکوں کے ساتھ اس سلسلے میں پہلے بھی ایک میٹنگ کرچکے ہیں اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو بینک بھی اس طرح کی نامناسب سرگرمیوں میں ملؤث پایا گیا اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت اور مرکزی بینک دونوں ہی پر روپے کی قیمت گرنے کے حوالے سے تنقید کی جارہی ہے، لیکن تنقید کرنے والے اس حقیقت کو نہیں سراہتے کہ اسٹیٹ بینک نے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی مقدار کو مارچ سے جون تک برقرار رکھا ہوا تھا، جب اقتدار ایک منتخب حکومت سے نگران حکومت کو منتقل ہوا تھا اور پھر نگران حکومت سے نئی منتخب حکومت کو، اور اس دوران اہم مبصرین کسی بڑے بحران اور ڈیفالٹس کی پیش گوئیاں کررہے تھے تو لوگوں نے غیرملکی کرنسی کی بڑی مقدار بیرون ملک بھیج دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ امدادی قرضوں کے معاہدے کا حکومتی فیصلہ بروقت تھا، اس لیے کہ چھ اعشاریہ چھ ارب ڈالرز کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگیاں کرنی تھیں، جبکہ کثیر جہتی قرض دینے والے ادارے جیسے کہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولیپمنٹ بینک نے ترقیاتی کاموں کے لیے مزید قرض فراہم کرنا بند کردیے تھے۔ اس فیصلے سے مارکیٹ میں ہمارے متعلق رویوں میں بہتری آئی اور بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے مثبت تبصرے کیے۔
انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کو زرمبادلہ کی شرح کے اتار چڑھاؤ کا موازنہ انڈیا کے ساتھ نہیں کرنا چاہئیے، جہاں پچھتر فیصد بینک ریاست چلارہی ہے۔ جبکہ پاکستان میں 80 فیصد بینکنگ پرائیویٹ سیکٹر میں ہورہی ہے۔
سینیٹروں نے اقتصادی ٹیم پر شدید تنقید کی کہ انہوں نے آئی ایم ایف کو نچلی سطح کے معاملات کے فیصلوں میں مداخلت کی اجازت دے دی ہے۔ تو سیکریٹری مالیات اور مرکزی بینک کے گورنر دونوں ہی نے کہا کہ آئی ایم ایف کی تمام ممالک کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کو روزانہ، ہفت روزہ اور ماہانہ بنیادوں پر اقتصادی اعداد وشمار پر مشتمل رپورٹس فراہم کی جائیں۔اور اس کی تعمیل پاکستان کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر اس ملک کے لیے یکساں ہے جو آئی ایم ایف کے قرض کے پروگرام کو اپناتا ہے۔
سینیٹر صغریٰ امام نے تشویش کا اظہار کیا کہ پالیسی ساز لوگوں کو روپے کی صورت میں اپنی بچت بینکوں میں جمع کرانے پر حوصلہ افزائی نہیں کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں لوگ اپنی بچت غیرملکی کرنسی میں محفوظ کررہے ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے اس طرح روپے کی قدر گرنے سے منافع بھی بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ غیرملکی زرمبادلہ کے ڈپازٹس پر اس طرح کے ٹیکس بھی نہیں لگائے گئے ہیں، جس طرح کے روپے کے اکاؤنٹس پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ڈالر میں اکاؤنٹس کھول کر خوب منافع کما رہے ہیں۔