کے ڈی اے کے 500 جعلی پنشنرز کو 66 کروڑ 70 لاکھ کی ادائیگی پر ڈائریکٹر فنانس معطل
سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے آڈٹ میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے، اور 500 جعلی پنشنرز کو 66 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ادائیگی پر ڈائریکٹر فنانس کو معطل کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی زیر صدارت پی اے سی اجلاس میں کے ڈی اے کے آڈٹ پیراگراف کی جانچ پڑتال کے دوران ترقیاتی اتھارٹی کے ریٹائرڈ ملازمین اور جاں بحق ہونے والوں کی بیواؤں کو جاری کیے گئے 2 ارب 21 کروڑ روپے کے فنڈز میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں اور غبن کا انکشاف ہوا۔
سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کے رکن طحہٰ احمد، سیکریٹری کے ڈی اے ارشد خان، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) اور حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایچ ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرلز سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
چیئرمین پی اے سی کی جانب سے ریٹائرڈ ملازمین کو ماہانہ پنشن کی ادائیگی کے طریقہ کار کے بارے میں پوچھے جانے پر سیکریٹری کے ڈی اے نے کہا کہ متعلقہ بینک پنشن کی رقم ادا کرتا ہے، اور ہر 6 ماہ بعد بائیو میٹرک تصدیق کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کے ڈی اے میں 500 کے قریب جعلی پنشنرز پائے گئے ہیں، اور ان کی پنشن روک دی گئی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے حیرت کا اظہار کیا کہ بینک نے اتنے طویل عرصے تک جعلی پنشنرز کو ادائیگیاں کیسے جاری رکھیں؟ جب کہ ہر 6 ماہ بعد ان کی بائیومیٹرک تصدیق کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنشن فنڈز میں فراڈ کا یہ عمل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور معاملہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیج دیا گیا۔
اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پارکنگ پلازہ کا ٹھیکہ نیلام کرنے کے بجائے کے ڈی اے نے اسے اپنے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو صرف 15 لاکھ روپے ماہانہ میں دیا۔
پی اے سی نے پارکنگ پلازہ کا ٹھیکہ نیلام نہ کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔
پی اے سی نے ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کو کے ڈی اے کی دکانوں، دفاتر، ہاؤسنگ اسکیموں اور فلیٹس کے مالکان سے کرایہ اور بجلی کے بلوں کی مد میں 20 کروڑ روپے وصول کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔
ایل ڈی اے کا ہاؤسنگ منصوبہ تعطل کا شکار
اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے شہید بینظیر بھٹو ٹاؤن شپ اسکیم میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا، جو 2008 کے بعد 9 ارب 42 کروڑ روپے کی فنڈنگ سے غریبوں کو رہائش کے لیے پلاٹ فراہم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔
ایل ڈی اے کے تحت 2016 میں مکمل کیا جانے والا یہ منصوبہ تاحال ادھورا پڑا ہے، 2008 سے ایل ڈی اے نے اس اسکیم میں نکاسی آب اور سڑکوں سمیت کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا اور اسی وجہ سے ہاؤسنگ اسکیم میں ایک بھی گھر تعمیر نہیں کیا گیا۔
ڈی جی ایل ڈی اے صفدر علی نے پی اے سی کو بتایا کہ ٹاؤن شپ اسکیم کے 42 ہزار پلاٹس میں سے 27 ہزار 500 کی بیلٹنگ مکمل کرلی گئی ہے اور ترقیاتی کام ابھی باقی ہیں۔
پی اے سی نے وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کو ہاؤسنگ پروجیکٹ میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
اجلاس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ایل ڈی اے نے 85 مختلف سوسائٹیوں کو این او سی اور لے آؤٹ پلان جاری کرنے کی فیس کی مد میں 2 ارب 27 کروڑ روپے وصول نہ کرکے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا۔
چیئرمین پی اے سی نے حکام سے استفسار کیا کہ جن سوسائٹیوں نے این او سی ز اور لے آؤٹ پلانز کی مکمل فیس ادا نہیں کی انہیں دستاویزات کیسے جاری کی گئیں۔
ڈی جی ایل ڈی اے نے پی اے سی کو بتایا کہ 2 ارب 27 کروڑ روپے میں سے 66 کروڑ 30 لاکھ روپے این او سی فیس کی مد میں وصول کیے جا چکے ہیں اور فیس ادا نہ کرنے والی 26 سوسائٹیوں کے این او سی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
پی اے سی نے ڈی جی سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
واسا کے واجبات
پی اے سی نے سائٹ لمیٹڈ حیدرآباد اور ہاؤسنگ سوسائٹیز سمیت متعدد اداروں کے خلاف واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) کے 6.14 ارب روپے کے بقایاجات کا معاملہ بھی اٹھایا۔
واسا کے منیجنگ ڈائریکٹر نے پی اے سی کو بتایا کہ سائٹ لمیٹڈ اور دیگر اداروں کو واجبات کی وصولی کے لیے خط لکھ دیا گیا ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ اگر سائٹ لمیٹڈ نے واسا کو پانی کے واجبات ادا نہیں کیے تو اسے پانی کیوں فراہم کیا جارہا ہے؟
اجلاس میں واسا سے پانی کے واجبات ادا نہ کرنے والے تمام اداروں کی تفصیلات طلب کی گئیں، ایجنسی، سائٹ لمیٹڈ حیدرآباد اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام کو آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا گیا۔