• KHI: Fajr 4:38am Sunrise 5:59am
  • LHR: Fajr 3:52am Sunrise 5:20am
  • ISB: Fajr 3:52am Sunrise 5:22am
  • KHI: Fajr 4:38am Sunrise 5:59am
  • LHR: Fajr 3:52am Sunrise 5:20am
  • ISB: Fajr 3:52am Sunrise 5:22am

امریکا کا پناہ گزین افغان باشندوں کا قانونی تحفظ ختم کرنے کا اعلان

شائع April 13, 2025
— فائل فوٹو: اے ایف پی
— فائل فوٹو: اے ایف پی

ٹرمپ انتظامیہ امریکا میں قانونی طور پر مقیم ہزاروں افغانوں کی محفوظ حیثیت کی تجدید نہیں کرے گی جس کے باعث انہیں اگلے ماہ ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکا کے ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ (ڈی ایچ ایس) نے جمعے کو تصدیق کی ہے کہ وہ افغانوں کے لیے عارضی تحفظ کی حیثیت (ٹی پی ایس) کو ختم کر دے گا، اس فیصلے سے تقریباً 14 ہزار 600 افغان متاثر ہوں گے۔

ٹی پی ایس ایک قانونی تحفظ ہے جو مسلح تنازعات ، قدرتی آفات ، یا دیگر غیر معمولی حالات کا سامنا کرنے والے ممالک کے شہریوں کو دیا جاتا ہے، یہ انہیں جلاوطنی سے بچاتا ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں قانونی ملازمت کی اجازت دیتا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے افغانوں کے لیے پہلی بار 2022 میں ٹی پی ایس کو نامزد کیا تھا، اس حیثیت کو 2023 میں توسیع دی گئی تھی۔

تاہم ڈی ایچ ایس کی ترجمان ٹریسیا میک لاگلن نے جمعے کو کہا تھا کہ وزیر خارجہ کرسٹی نوئم نے امیگریشن حکام کی جانب سے تازہ ترین جائزوں کا جائزہ لینے اور محکمہ خارجہ کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان اب ٹی پی ایس کے لیے قانونی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔

اس فیصلے پر امریکی فوج کے افغان اتحادیوں کی حمایت کرنے والے ایڈوکیسی گروپوں اور سابق فوجیوں کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔

اگلی منزل

یہ واضح نہیں ہے کہ ملک بدری کی صورت میں ان افغانوں کو کہاں بھیجا جائے گا، کیونکہ امریکہ کابل میں طالبان کی زیر قیادت حکومت کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور افغانستان کے لیے اس کی کوئی براہ راست پروازیں نہیں ہیں۔

ایسی صورتحال میں جلاوطن افراد کو اکثر اسی ملک واپس بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ آخری بار امریکا آئے تھے، بہت سے افغانوں کی اگلی منزل پاکستان ہو گی، جو خود اس وقت غیر دستاویزی افغانوں کو ملک بدر کر رہا ہے۔

جنگ کے دوران ہزاروں افغانوں نے امریکی افواج کی مدد کی تھی جن میں مترجم اور ٹھیکیدار بھی شامل تھے، بہت سے لوگوں کو اسپیشل امیگرنٹ ویزا (ایس آئی وی) پروگرام کے تحت یا امریکی پناہ گزینوں کے داخلے کے پروگرام کے ذریعے دوبارہ آباد کیا گیا تھا ، لیکن ایک قابل ذکر تعداد اب بھی اپنے امیگریشن کیسز پر کارروائی کا انتظار کر رہی ہے، ان کے لیے ، ٹی پی ایس نے عارضی قانونی تحفظ کے طور پر کام کیا۔

عالمی ادارہ خوراک کی امداد میں کٹوتی

افغانوں کو اب افغانستان واپس بھیجے جانے کا خطرہ ہے، جو پہلے ہی انسانی اور معاشی بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔

انسانی تباہی کو کم کرنے کے لیے کام کرنے والی امدادی تنظیمیں فنڈز میں کٹوتی کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ وہ ضرورت مندوں میں سے صرف آدھے لوگوں کی مدد کر سکتا ہے کیونکہ امریکا کی جانب سے خوراک کی امداد میں تازہ کٹوتی سے افغانستان میں پہلے سے ہی بڑے پیمانے پر پھیلی بھوک میں مزید اضافے کا خطرہ ہے۔

اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عالمی ادارہ خوراک کی قائم مقام کنٹری ڈائریکٹر متینتا چیموکا نے عطیہ دہندگان پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں جو دنیا کے دوسرے سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 4 کروڑ 50 لاکھ افراد کی ایک تہائی آبادی کو غذائی امداد کی ضرورت ہے جبکہ 31 لاکھ افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔

متینتا چیموکا نے کہا کہ ہمارے پاس اب جو وسائل ہیں اس سے بمشکل 80 لاکھ افراد کو سال بھر میں امداد ملے گی اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمیں وہ سب کچھ ملے جس کی ہم دوسرے عطیہ دہندگان سے توقع کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ادارہ پہلے ہی ہمارے پاس موجود وسائل کو بڑھانے کے لئے آدھا راشن دے رہا ہے۔

دیگر امدادی اداروں کی طرح عالمی ادارہ خوراک بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتی کے شکنجے میں پھنس گیا ہے، جنہوں نے جنوری میں اپنی حلف برداری کے فوراً بعد 3 ماہ کے لیے تمام غیر ملکی امداد منجمد کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔

ہنگامی غذائی امداد سے استثنیٰ دیا جانا تھا لیکن رواں ہفتے عالمی ادارہ خوراک نے کہا تھا کہ امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان سمیت 14 ممالک کے لیے ہنگامی غذائی امداد میں کٹوتی کر رہا ہے۔

واشنگٹن فوری طور پر 6 ممالک کے لیے کٹوتی سے پیچھے ہٹ گیا، لیکن افغانستان، جسے طالبان حکام چلا رہے ہیں، جو دہائیوں تک امریکا کی زیرقیادت اتحادی افواج کے خلاف لڑتے رہے ہیں، ان ممالک میں شامل نہیں تھا۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یو این اے ایم اے نے رواں ہفتے بین الاقوامی عطیہ دہندگان پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کی حمایت جاری رکھیں اور کہا کہ اس سال 2 کروڑ 29 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کی ریزیڈنٹ اور ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر اندریکا رتوٹے نے کہا ہے کہ ’اگر ہم افغان عوام کو غربت اور مصائب کے شیطانی چکر سے نکلنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں فوری ضروریات کو پورا کرنے کے وسائل جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ طویل مدتی لچک اور استحکام کی بنیاد رکھنی ہوگی‘۔

کارٹون

کارٹون : 28 اپریل 2025
کارٹون : 27 اپریل 2025