بیرونی خطرات جاری رہے تو اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرسکتے ہیں، ایران
ایران نے کہا ہے کہ اگر بیرونی خطرات جاری رہے تو ایران اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ( آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کر سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو ایران کے سپریم لیڈر کے مشیر نے کہا کہ ’اگر بیرونی خطرات جاری رہے تو ایران، اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون معطل کر سکتا ہے۔‘
یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایک بار پھر اس انتباہ کے بعد سامنے آیا ہے کہ اگر تہران جوہری معاہدے پر راضی نہیں ہوتا تو امریکا فوجی طاقت استعمال کرے گا۔
ایرانی اور امریکی سفارت کار تہران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے ہفتے کے روز عمان کا دورہ کریں گے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ان کا ہوگا کہ آیا مذاکرات کس سمت میں جارہے ہیں، اور مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کی صورت میں ایران ’سخت خطرے‘ میں پڑ جائے گا۔
آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’ مسلسل بیرونی خطرات اور ایران کو فوجی حملے کی صورتحال سے دوچار کرنے سے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو نکالنے اور اس کے ساتھ تعاون ختم کرنے جیسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔’ انہوں نے آئی اے ای اے سے مراد انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو لیا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’ایران میں افزودہ مواد کو محفوظ اور غیر اعلانیہ مقامات پر منتقل کرنا بھی ایجنڈے میں شامل ہو سکتا ہے۔‘
دوسری جانب امریکا کا اصرار ہے کہ تہران کے ساتھ بات چیت براہ راست ہوگی، جبکہ ایران نے زور دیا ہے کہ مذاکرات عمان کے وزیر خارجہ کی ثالثی میں بالواسطہ ہوں گے۔
اپنے پہلے 2021-2017 کے دور صدارت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو 2015 کے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے سے دستبردار کر لیا تھا جس کا مقصد پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایران کے حساس جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا، ٹرمپ نے وسیع امریکی پابندیاں بھی دوبارہ عائد کر دی تھیں۔
اس کے بعد سے ’آئی اے ای اے‘ کے مطابق ایران نے یورینیم کی افزودگی پر اس معاہدے کی حدود کو بہت حد تک عبور کر لیا ہے۔
مغربی طاقتیں ایران پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ اعلیٰ سطح کی فِشن ایبل پیوریٹی تک یورینیم کی افزودگی کر کے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت تیار کرنے کا خفیہ ایجنڈا رکھتا ہے، جو ان کے بقول ایک سویلین جوہری توانائی پروگرام کے لیے جائز حد سے زیادہ ہے۔
تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر سویلین توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔