کراچی: رہائشی عمارتوں کا کاروباری استعمال، آباد کا رولز میں ترمیم واپس لینے کا مطالبہ
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز آف پاکستان (آباد) کے سینئر وائس چیئرمین سید افضل حمید نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے قانون میں ترمیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سید افضل حمید نے کہا کہ ایس بی سی اے کی جانب سے کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز (کے بی ٹی پی آر) 2002 میں میں ترمیم کی ہے جس کا مقصد رہائشی مکانات اور بنگلوں کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم شہر کے انفرااسٹرکچر پر اثر انداز ہوگی جبکہ رہائشی علاقوں میں کاروباری سرگرمیوں سے مسائل پیدا ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو فیصلے سے قبل تمام متعلقہ شراکت داروں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔
سید افضل حمید نے مطالبہ کیا کہ اس ترمیم کو واپس لیا جائے کیوں کہ رہائشی علاقوں میں اسکولوں اور ہسپتالوں کے قیام اور کاروباری سرگرمیوں سے ماحول میں خرابی پیدا ہوگی، اس ترمیم کو واپس لے کر متعلقہ شراکت داروں سے مشاورت کی جائے۔
یاد رہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے گزشتہ ماہ کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز (کے بی ٹی پی آر) 2002 میں ترمیم کرتے ہوئے رہائشی پلاٹوں کو کاروباری اور تفریحی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس متنازع اقدام سے شاید کچھ کاروباروں کو بچایا جا سکتا ہے، لیکن یہ عمل پہلے سے خراب شہر کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر سکتا ہے کیونکہ ہر رہائشی علاقہ جلد ہی دکانوں، اسکولوں اور کلینکس سمیت تجارتی سرگرمیوں سے بھر جائے گا۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے مختلف بینچز نے بلڈنگ اور ٹاؤن پلاننگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے متعلقہ رہائشی علاقوں میں اسکولوں، ریستوران اور دیگر تجارتی اداروں کو چلانے کے خلاف شہریوں کی جانب سے دائر متعدد درخواستوں پر احکامات جاری کیے تھے۔
فروری میں سندھ ہائی کورٹ کے بینچ نے پرانے کلفٹن گھر میں تجارتی سرگرمیاں روکنے سے متعلق عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، گیری گروپ کے مالک اور دیگر کی گرفتاری کے لیے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔
بعد ازاں بینچ نے ایک سماعت میں وارنٹ اور توہین عدالت کے نوٹس اس وقت جاری کیے جب مبینہ استغاثہ نے ججوں کو یقین دلایا کہ مذکورہ رہائشی جائیداد کو کسی غیر قانونی یا غیر منظور شدہ مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ایس بی سی اے حکام نے صوبائی حکومت کو عدالتی ہدایات پر عمل درآمد میں درپیش مسائل سے آگاہ کیا کیونکہ رہائشی پلاٹوں پر چلنے والے زیادہ تر کاروباری اداروں کا تعلق بااثر افراد سے ہے۔
ذرائع کے مطابق بلڈنگ ریگولیشنز کو تبدیل کرنا آسان طریقہ تھا، کیونکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایکٹ کے برعکس، کے بی ٹی پی آر میں صرف ڈائریکٹر جنرل / اتھارٹی کے دستخط کے ساتھ ترمیم کی جاسکتی ہے۔