• KHI: Fajr 4:52am Sunrise 6:11am
  • LHR: Fajr 4:11am Sunrise 5:35am
  • ISB: Fajr 4:12am Sunrise 5:39am
  • KHI: Fajr 4:52am Sunrise 6:11am
  • LHR: Fajr 4:11am Sunrise 5:35am
  • ISB: Fajr 4:12am Sunrise 5:39am

’گھر، خاندان اور زندگی بنائی— اب انجان سرزمین جانا ہے‘

وہ افغان جو سرحد عبور کر گئے، نہ صرف اپنے گھروں اور جائیداد کو چھوڑ آئے بلکہ اپنے خاندان کے افراد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسری طرف جو لوگ اس طرف ہیں وہ مسلسل خوف اور اضطراب کی حالت میں ہیں۔
شائع April 7, 2025 اپ ڈیٹ April 10, 2025

کراچی کی چلچلاتی دھوپ میں قاری زین الدین اور ان کی بیٹی امین ہاؤس کے باہر صبر سے کھڑے ہیں جو ایک ہوسٹل سے حراستی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے، سلطان آباد کی گلیوں میں یہ دونوں باپ بیٹی تقریباً ایک درجن پولیس اہلکاروں کے درمیان موجود ہیں جو عمارت کی حفاظت کر رہے ہیں، جہاں حالیہ دنوں میں شہر کے مختلف علاقوں سے سیکڑوں افغان لائے گئے ہیں۔

باپ، جو ایک چھوٹے قد کا آدمی ہے، شلوار قمیض اور سفید ٹوپی میں ملبوس ہے، اپنے ہاتھ میں ایک فائل مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ لڑکی، جس کا چہرہ نقاب میں چھپا ہے، ایک بھاری بیگ اٹھائے ہوئے ہے، جس کا وزن اس کی 18 سالہ نازک کمر کو بوجھل کررہا ہے ۔ دونوں پسینے میں شرابور ہیں لیکن خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب علاقے کا اسٹیشن ہاؤس آفیسر نمودار ہوتا ہے، تو وہ فوراً اس کے پاس دوڑتے ہیں، پھر انہیں مزید انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے۔

زین الدین، جو ایک افغان پناہ گزین ہیں، 1996 میں پاکستان آ گئے تھے جب وہ کمسن تھے۔ ابتدا میں خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں مقیم تھے پھر کراچی منتقل ہو گئے، جہاں ان کی شادی ہو گئی۔ بی بی رضیہ، جو ان کے ساتھ ہیں، کراچی میں پیدا ہوئیں اور حال ہی میں ان کی یہاں شادی ہوئی لیکن عید کے تیسرے دن ان کے شوہر کو بنارس، اورنگی ٹاؤن کی ایک نان کی دکان سے گرفتار کر لیا گیا۔

زین الدین نے بتایا کہ ان کے داماد پی او آر (پروف آف ریذیڈینسی) کارڈ گم کر بیٹھے تھے، اس لیے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اس دن زین الدین نے علاقے کے پولیس اسٹیشن کا کئی بار دورہ کیا، پھر انہیں بتایا گیا کہ کمال الدین کو امین ہاؤس بھیج دیا گیا ہے۔ وہ فائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں یہاں تمام دستاویزات کے ساتھ آیا ہوں، اس میں رضیہ بی بی کا پی او آر کارڈ، نکاح نامہ، پیدائش کا سرٹیفکیٹ اور ویکسینیشن کارڈز موجود ہیں‘۔

’میری ایک درخواست ہے، یا تو میرے داماد کو رہا کریں یا میری بیٹی کو بھی لے جائیں تاکہ دونوں افغانستان ساتھ جاسکیں، یہاں وہ اکیلی کیا کرے گی؟‘ زین الدین رو پڑتے ہیں۔ ’میں پورا دن انتظار کروں گا، لیکن جب تک مجھے کوئی حتمی جواب نہیں ملتا، میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔‘ اور اس طرح زین الدین امین ہاؤس کے باہر کھڑے رہتے ہیں جب تک کہ ایک پولیس والا انہیں بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں دیتا۔

  قاری زین الدین اور ان کی بیٹی امین ہاؤس کے باہر انتظار کررہے ہیں۔
قاری زین الدین اور ان کی بیٹی امین ہاؤس کے باہر انتظار کررہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں سیکڑوں افغان طورخم اور چمن سرحد سے افغانستان واپس گئے ہیں کیونکہ حکومت نے 31 مارچ کو اپنے دوسرے جلاوطن پروگرام کا آغاز کیا، جس میں افغان سٹیزن کارڈز رکھنے والوں کو نشانہ بنایا گیا جو ایک شناختی دستاویز ہے جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومت نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی۔

یہ مہم ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کا آغاز حکومت نے 2023 میں تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کے لیے کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں، تمام غیر دستاویزی افغانوں کو جلاوطن کیا گیا تھا، جو شناختی ثبوت نہیں رکھتے تھے۔

کراچی میں، پچھلے پانچ دنوں میں کم از کم 307 افغان پناہ گزینوں کو، خاص طور پر وہ جو افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھتے ہیں، واپس بھیج دیا گیا ہے، جو کہ ایک عارضی پولیس بیان کے مطابق ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے۔ اس کے علاوہ طور خم سرحد کے ذریعے یکم اپریل سے11 ہزار 272 افغانوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔


2017 میں، پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ مل کر افغان سٹیزن کارڈز متعارف کرائے تھے، جو ان افراد کو جاری کیے جاتے تھے جو کسی وجہ سے پی او آر کارڈز حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اے سی سی رکھنے والوں کی تعداد تقریباً 8 لاکھ 40 ہزار ہے۔


وہ افغان جو سرحد عبور کر گئے، نہ صرف اپنے گھروں اور جائیداد کو چھوڑ آئے بلکہ اپنے خاندان کے افراد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسری طرف، جو لوگ اس طرف ہیں، وہ مسلسل خوف اور اضطراب کی حالت میں ہیں۔

ایک کشمکش

امین ہاؤس سے ایک گھنٹہ کی دوری پر، افغان بستی کی گلیوں میں خوف واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔ جو کراچی کے نواح میں واقع ایک 40 سالہ پرانی آبادکاری ہے۔ کیمپ کی طرف جانے والی سڑک تقریباً سنسان ہے، سوائے ان ٹرکوں کے جو بھرے ہوئے ہیں۔

لیکن اندر، تنگ اور ناہموار گلیوں میں زندگی کی پہلی علامت نظر آتی ہے، نوجوان لڑکے فوس بال ٹیبل کے گرد جمع ہیں، بچے ننگے پاؤں دوڑ رہے ہیں، ایک نئی تعمیر شدہ مسجد، تازہ بکے ہوئے کلچے اور سیخ کباب کی خوشبو۔

  کراچی کی افغان بستی میں ہوٹل کے باہر کلچے رکھے ہوئے ہیں۔
کراچی کی افغان بستی میں ہوٹل کے باہر کلچے رکھے ہوئے ہیں۔

’یہاں ہم محفوظ ہیں،‘ افغان بستی کے رہائشی اور درزی عباد اللہ کہتے ہیں۔ ’ہم میں سے بیشتر نے گرفتاری کے خوف سے پچھلے ایک ہفتے سے یہاں سے باہر قدم نہیں رکھا‘۔ کچھ دن پہلے بستی پر ایک کریک ڈاؤن نے انہیں اور ان کے پڑوسیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہمارے گھروں میں داخل ہوئے اور بغیر شناختی کارڈ چیک کیے لوگوں کو گرفتار کر لیا‘۔

اسی طرح کا ایک واقعہ جمعرات کو بھی اسی علاقے کے قریب ال آصف اسکوائر اور سہرب گوٹھ میں ہوا، جو بستی سے 23 منٹ کی دوری پر ہے، جہاں زیادہ تر افغان مرد کام کے لیے آتے ہیں۔ پولیس نے چھاپے مارے اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

’وہ کہتے ہیں ہم یہاں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، ہم یہاں پیدا ہوئے اور پلے ہیں، پھر ہم غیر قانونی کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ پی او آر کارڈز ہمیں حکومت نے دیے تھے‘۔ عباد اللہ کہتے ہیں اور اپنا کارڈ نکال کر دکھاتے ہیں۔ ’اگر ہم غیر قانونی تھے تو انہوں نے ہمیں یہ کارڈ کیوں دیے؟‘


پی او آر کارڈز اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (UNHCR) کے تعاون سے متعارف کرائے گئے تھے اور 2006 اور 2007 کے درمیان 21 لاکھ 50 ہزارافغان پناہ گزینوں کو جاری کیے گئے تھے۔ یہ کارڈز دو سال کے لیے درست تھے، جس کے بعد ان کی ہر دو سال بعد تجدید کروانا پرٹی۔ اس پروگرام کے تحت پناہ گزینوں کو بینک اکاؤنٹ کھولنے، نوکری حاصل کرنے اور تعلیم حاصل کرنے جیسے فوائد حاصل تھے۔

ایڈووکیٹ منیزہ کاکڑ کے مطابق، حکومت کی طرف سے پی او آر کارڈ رکھنے والوں کے لیے جلاوطن کرنے کی آخری تاریخ 30 جون ہے۔ منیزہ کاکڑ ایک وکیل اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار رفیوجی کی بانی رکن ہیں۔


وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گرفتاریاں پیسہ کمانے کی چال ہیں۔ ’اگر آپ انہیں پیسے دیں تو وہ آپ کو چھوڑ دیں گے، اگر نہیں تو وہ آپ کو پکڑ کر حراستی مرکز بھیج دیں گے،‘ غصے میں بھرے ہوئے عباد اللہ نے بتایا۔ ’ہمارے پاس اور کیا آپشن ہے؟ یہ چھپنے اور جلاوطنی کے درمیان ایک کشمکش ہے۔‘

کچھ کے لیے، یہ زندگی اور موت کے درمیان جنگ ہے۔ گل عالم، عباد اللہ کا پڑوسی،جو خاموش کھڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسے چلنے یا زیادہ دیر تک کھڑا ہونے میں مشکل ہو رہی ہے۔ ایک گردے کے مریض ہونے کی وجہ سے اسے ہر ہفتے ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال جانا پڑتا ہے لیکن دو ہفتوں سے وہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا۔

  عباد اللہ اور افغان بستی کے دیگر رہائشی جمع ہیں۔
عباد اللہ اور افغان بستی کے دیگر رہائشی جمع ہیں۔

’میرے نو بچے ہیں، جن میں زیادہ تر بیٹیاں ہیں، اگر مجھے جلاوطن کر دیا گیا تو وہ کیا کریں گی؟‘ وہ خفگی سے کہتے ہیں۔ نزدیک ہی ایک نوجوان لڑکی آہستہ سے پردے سے جھانکتی ہے اور اپنے والد کے لیے پانی کے ساتھ ایک گولی لے آتی ہے۔ ’اسے تو یہ بھی نہیں پتا کہ افغانستان کیا ہے یا کہاں ہے،‘ 55 سالہ گل عالم اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

افغان بستی کے بیشتر رہائشیوں کے پاس پی او آر کارڈ ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ ابھی جلاوطن نہیں ہو رہے۔ لیکن یہ ان کے خوف یا اضطراب کو کم نہیں کرتا۔ گل عالم نے بتایا کہ ’جب وہ آتے ہیں، تو وہ کارڈز نہیں مانگتے، وہ بس لاٹھیوں اور جبر کے ساتھ آتے ہیں،انہوں نے اتنے زیادہ خاندانوں کو بستی چھوڑ کر چھپنے پر مجبور کر دیا ہے‘۔

بد سے ’بدتر‘

افغان پناہ گزین جو چھاپوں اور کریک ڈاؤن کا ذکر کرتے ہیں، وہ 2023 کی مہم کی مثال دیتے ہیں جب پہلی بار جلاوطنی کی مہم کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن سعید حسین، جو کراچی میں پشتونوں کی نقل مکانی پر کام کرنے والے ایک ماہر بشریات (anthropologist) ہیں، یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اب یہ اقدامات پہلے سے کئی زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’وہ رات بارہ بجے کے بعد گھروں اور پلازوں پر چھاپے مار رہے ہیں، اور صرف اس شبہ پر لوگوں کو اٹھا رہے ہیں کہ وہ حلیے سے افغان لگتے ہیں اور ایک بار گرفتار ہونے کے بعد، ان لوگوں کو مجسٹریٹ کے پاس نہیں بھیجا جاتا جیسے کہ قانونی عمل ہونا چاہیے بلکہ انہیں براہ راست امین ہاؤس اور وہاں سے سرحد بھیج دیا جاتا ہے۔‘

  سلطان آباد میں امین ہاؤس کا داخلہ راستہ جہاں افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے سے قبل رکھا جاتا ہے
سلطان آباد میں امین ہاؤس کا داخلہ راستہ جہاں افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے سے قبل رکھا جاتا ہے

امین ہاؤس کو 2023 میں باضابطہ طور پر ایک افغان حراستی مرکز کے طور پر قائم کیا گیا تھا لیکن سعید اسے ”سیاہ سوراخ“ کہہ کر پکارتے ہیں کیونکہ یہاں نہ تو وکلا اور نہ ہی کسی اور کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ’ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں کتنے افغان ہیں، ان کی حالت کیا ہے یا ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے۔’

انہوں نے مزید بتایا کہ’ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جو لوگ گرفتار ہو کر ہوسٹل میں لائے جا رہے ہیں، ان کے پاس اے سی سی پرمٹ ہیں یا پی او آر کارڈز’ ۔ افغان پناہ گزین جن کے اہل خانہ کو ہوسٹل میں بھیجا گیا، ان کے جذبات بھی اسی طرح کے تھے۔

افغان بستی کے ایک بزرگ رہائشی، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’میرا بھتیجا حراستی مرکز میں ہے اور ہمیں ویڈیوز بھیج رہا ہے، وہاں تقریباً 50 سے 70 لوگ ایک کمرے میں ٹھنسے ہوئے ہیں، انتہائی گرمی ہے، اور انہیں دن میں صرف ایک بار کھانا دیا جا رہا ہے۔ سیکڑوں افراد ایک ہی باتھ روم کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔‘

ڈان ڈاٹ کام نے بھی امین ہاؤس کا دورہ کیا لیکن اندر جانے کی اجازت نہیں ملی۔ ہوسٹل رینجرز کے ہیڈکوارٹرز کے قریب حاجی کیمپ کے پاس واقع ہے۔ وہاں حراستی مرکز ہونے کی کوئی واضح نشانات نہیں ہیں، جو کہ سعید کے مطابق پہلے موجود تھے لیکن حال ہی میں ہٹا دیے گئے ہیں۔ صرف رات کے وقت ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندر کچھ ہو رہا ہے۔

ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق، ہوسٹل ایک پناہ گاہ ہے جہاں رہائش اور کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ نادرا اور ایف آئی اے کی ٹیمیں تصدیق کے لیے مرکز میں موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’اگر کوئی افغان جس کے پاس پی او آر کارڈ ہے، یہاں لایا جاتا ہے، تو نادرا کے ڈیٹا بیس کی تصدیق کے بعد اسے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘

ڈی آئی جی رضا مزید بتاتے ہیں کہ پولیس کو پناہ گزینوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کے بارے میں کوئی ہدایات نہیں ملی ہیں۔ بلکہ انہیں ’ان لوگوں کو گرفتار کرنے اور جلاوطن کرنے کا کام دیا گیا ہے جو رضاکارانہ طور پر نہیں جا رہے۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ گرفتاری کی صورت میں، ’اگر کوئی غیر قانونی افغان گرفتار ہو جائے تو اسے غیر قانونی غیر ملکی ایکٹ کے تحت عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے اور پھر جیل سے جلاوطن کرنے کے لیے چمن سرحد بھیجا جا سکتا ہے۔‘

تاہم، ڈی آئی جی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کچھ ’ہینڈلنگ کے مسائل‘ ہوئے ہیں جہاں پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کو بھی حراست میں لیا گیا، جس کے نتیجے میں جھگڑے ہوئے۔ ’لیکن ہمارے کام کا مقصد انہیں احترام اور عزت کے ساتھ واپس بھیجنا ہے۔‘

چمن اور اس کے بعد

دریں اثنا، امین ہاؤس میں پناہ گزینوں کی تصدیق اور بایو میٹرک اسکین کیے جا رہے ہیں جو نادرا اور ایف آئی اے کی ٹیموں کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ یہ اسکین ایک فہرست یا ”مینفیسٹ دستاویز“ تیار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جیسا کہ رضا بتاتے ہیں۔ اس میں پناہ گزینوں کے نام، شناختی کارڈ، تصویر، عمر، جنس اور وہ سرحد شامل ہوتی ہے جس کے ذریعے انہیں افغانستان بھیجا جانا ہے۔

ایک بار دستاویز تیار ہو جانے کے بعد، پناہ گزینوں کو بسوں میں بھر کر جیکب آباد کے ذریعے چمن سرحد لے جایا جاتا ہے۔ اتوار کی صبح، چھ بسوں کا ایک قافلہ جس میں ہر بس پر ایک سیکیورٹی انچارج موجود ہوتا ہے، امین ہاؤس سے روانہ ہوا اور ملیر ایکسپریس وے سے کراچی-حیدرآباد موٹر وے کی طرف روانہ ہو گیا۔

  افغان بستی میں قائم ایک دکان کے باہر بزرگ اور بچے
افغان بستی میں قائم ایک دکان کے باہر بزرگ اور بچے

8 پولیس موبائلز کی حفاظت میں، یہ بسیں جیکب آباد میں ایک ہی قسم کے حراستی مرکز میں رک کر، پھر چمن کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں، جو 6 گھنٹے کی دوری پر ہے۔

سرحد پر، ”مینفیسٹ دستاویز“ یو این ایچ سی آر اور افغان حکومت کے حکام کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے یہ لمحات ان کے پاکستان میں آخری ہوتے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ ایک ایسے ملک میں داخل ہوں جس سے وہ یا ان کے والدین بھاگ کر یہاں آئے تھے۔

سعید کے مطابق، جو جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار رفیوجی کے رکن بھی ہیں، ایک بار سرحد پار کرنے کے بعد، اپنے گھر والوں سے رابطہ رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ’کیونکہ اب ان لوگوں کو دونوں سرحدوں کے حکام کی جانب سے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ طالبان حکومت نے بھی کہا ہے کہ وہ تمام پناہ گزینوں کو نہیں لے سکتے۔ ’تو پھر ان لوگوں کا کیا ہو گا؟ آپ نے انہیں ایک ملک سے نکال کر ایک ایسی جگہ بھیج دیا ہے جو انہیں نہیں چاہتی۔‘

  افغان بستی میں لڑکے فوس بال کھیل رہے ہیں
افغان بستی میں لڑکے فوس بال کھیل رہے ہیں

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قاسم خان نے بھی ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے اسی طرح کی تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ اور باعزت ہو تاکہ ان کی افغانستان میں دوبارہ آبادکاری پائیدار ہو سکے‘۔ انہوں نے درخواست کی کہ پاکستان ان کی حالت کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھے، انہوں نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان بات چیت کی ضرورت پر زور بھی دیا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ایجنسی حکومت سے افغان پناہ گزینوں کی گرفتاریوں کے بارے میں بات کر رہی ہے، اور وکلا ان لوگوں کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں جو پناہ لینے اور پی او آر کارڈ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لڑائی آخر تک

چمن سرحد سے سیکڑوں میل دور، افغان بستی کے رہائشی اپنے خوف، تشویش، غصے اور نفرت کو ایک اُمید تلے چھپاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ضیا الحق ہیں، جو علاقے میں ایک جنرل اسٹور چلانے والے ہیں، جس کی چھت پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ ان کی دکان کی دیواروں پر اُردو میں ’خوش آمدید‘ لکھا ہوا ہے۔

  افغان بستی میں قائم جنرل اسٹور کی عمارت پر پاکستانی پرچم
افغان بستی میں قائم جنرل اسٹور کی عمارت پر پاکستانی پرچم

انہوں نے بتایا کہ’ میرے والد 1980 کی دہائی میں کراچی آئے تھے اور انہوں نے میرا نام اس وقت کے فوجی آمر کے نام پر رکھا تھا،’ وہ فخر سے کہتے ہیں۔ ’میں نے اپنے بیٹے کا نام اعجازالحق رکھا تاکہ یہ روایت جاری رکھوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے والد نے یہاں افغان بستی میں کاروبار شروع کیا اور طویل عمر گزار کر وفات پا گئے۔ ’میں یہاں پیدا ہوا اور پلا بڑھا… میرے بچے یہاں پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے… میرے والدین اور دادا دادی یہاں دفن ہیں… میرا ملک پاکستان ہے اور بس پاکستان۔‘

وہ نعرہ لگاتے ہیں“جان جان پاکستان، دل دل پاکستان،“۔ ’ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ حکومت ہماری اس ملک سے محبت کو دیکھے اور ہمیں یہاں پہچان دے۔‘ اس کے بعد وہ قریب کھڑے ایک کارکن سے پوچھتے ہیں: ’سب ٹھیک ہو جائے گا نا؟

ضیا الحق عید کے بعد سے مارکیٹ جا کر اپنی دکان کا سامان دوبارہ نہیں خرید سکے۔ وجہ؟ پھر سے خوف۔ ’اگر وہ مجھے گرفتار کر لیں یا رشوت مانگیں؟‘

اسی طرح علاقے کے کئی دوسرے دکاندار بھی افغان بستی سے باہر جانے کو اپنے فہرست میں آخری ترجیح بنا رہے ہیں، حالانکہ ان کے سامان کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے۔

لیکن جہاں مرد خوفزدہ ہیں، وہیں 65 سالہ زیبا یہ سب کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ صرف 25 سال کی تھیں جب اپنے شوہر اور دودھ پیتے بیٹے کے ساتھ کراچی آئیں۔ انہوں بتایا کہ ’میں نے یہاں 40 سال گزارے ہیں، اب کیسے چھوڑ سکتی ہوں؟ اور کہاں جاؤں گی؟‘

ان کے سامنے ایک جھولا ہے جس میں ان کا پوتا کھلکھلا رہا ہے، اس پر ایک کڑھی ہوئی کمبل رکھی ہوئی ہے۔ ’مجھے اپنے گاؤں کا نام یا وہاں رہنے والے لوگ یاد نہیں … وہاں کون میرا انتظار کر رہا ہے؟“ زیبا ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’میری تو زبان بھی اب مختلف ہو چکی ہے۔“

  65 سالہ زیبا افغان بستی میں قائم اپنے ایک کمرے کے مکان میں موجود ہیں
65 سالہ زیبا افغان بستی میں قائم اپنے ایک کمرے کے مکان میں موجود ہیں

جلد ہی ان کا بیٹا محمد رسول آ جاتا ہے، جو ڈرائیور ہے۔ ’حال ہی میں افغانستان گیا تھا،‘ وہ ڈان ڈاٹ کام کو بتاتے ہیں۔ ؛کیا آپ جانتے ہیں کہ وہاں بائیں ہاتھ سے چلانے والی گاڑیاں ہیں؟ میں وہاں کیسے کام کروں گا؟ یہاں اگر میرا کام بھی ختم ہو جائے تو مجھے کوئی اور مل جائے گا، لیکن وہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔’

وہ اپنا پی او آر کارڈ نکالتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’یہ میرا شناختی کارڈ ہے، چاہے جو کوئی بھی کہے۔ زیبا بھی اٹل ہیں۔ وہ کہتی ہیں‘میں نہیں جاؤں گی جب تک وہ مجھے طاقت کے ساتھ بس میں نہیں ڈالیں گے۔’

ان کے گھر کے باہر بچے کھیل رہے ہیں، گویا ارد گرد کے ماحول سے بے پروا۔ ان میں سے ایک سبز و سفید ٹوپی پہنے ہوئے ہے، جس پر ایک ستارہ جڑاہوا ہے۔


تمام تصاویر لکھاری نے بنائی ہیں۔

یہ تحریر انگریزی میں پڑھیں۔

مظہرہ امین

لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔