جان ایف کینیڈی قتل: کلاسیفائیڈ فائلوں کے اجرا سے خفیہ حکمت عملی سے پردہ اٹھ سکتا ہے
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق دستاویزات کے دو نئے سیٹ جاری کردیے گئے ہیں جس نے مورخین اور سازشی نظریہ رکھنے والوں کو اس قتل سے متعلق مزید انکشافات کرنے کا موقع مل گیا۔
ڈان اخبار میں شائع نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیشنل آرکائیوز کے مطابق منگل کے روز منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے 2 سیٹ تقریبا 63 ہزار 400 صفحات پر مشتمل ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہوسکتا کہ ان میں سے کتنی فائلیں نئی تھیں یا پھر ماضی میں جزوی یا مکمل طور پر جاری کی جاچکی تھیں، یا پھر اس ہفتے کے آخر میں مزید جاری کی جاسکتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق تقریبا تمام سرکاری ریکارڈ پہلے ہی منظر عام پر آچکا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ کینیڈی کے قتل سے متعلق آخری اشاعت میں سے ایک ہوسکتی ہے کیوں کہ حکومت کے پاس موجود 60 لاکھ صفحات میں سے صرف ایک فیصد منظر عام پر نہیں لائی گئی ہیں۔
جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق تازہ ترین ریکارڈ جنوری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط شدہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے جاری کیے گئے۔
ٹرمپ نے اپنے حکم نامے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو 1968 میں سینیٹر رابرٹ ایف کینیڈی اور ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل سے متعلق باقی دستاویزات بھی شائع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
نیو یارک ٹائمز کی تالیا مینسبرگ نے لکھا ’نئی دستاویزات کسی منظم انداز میں شائع نہیں کی گئیں اور نیشنل آرکائیو کی ویب سائٹ پر ہر فائل پر کلک کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے غیر متعلقہ کاغذات کا ایک باکس کھل گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ فائلیں ایک ایک صفحے پر مشتمل ہیں جب کہ دیگر تقریبا 700 صفحات پر مشتمل ہیں جو ہاتھ سے لکھے گئے نوٹس، سفارتی کیبلز اور تصاویر سے بھرے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کچھ دستاویزات مکمل طور پر ناقابل فہم ہیں۔
کچھ دستاویزات جو پہلے سے دستیاب تھے، معمولی سی تبدیلی کے بعد مکمل ورژن بن سکتے ہیں، صرف اس ریکارڈ میں ایک دو نام مزید شامل کرنے کی ضرورت ہے جب کہ محققین کا کہنا ہے کہ دیگر ممکنہ طور پر میمو اور رپورٹس کی نقل ہوسکتی ہیں جو طویل عرصے سے دوسرے ذرائع سے دستیاب ہیں۔
اگرچہ ماہرین کو کسی غیر متوقع اور حیرت انگیز تفصیلات کی توقع نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس میں بالکل بھی دلچسپ تفصیلات نہیں ہوں گی، خاص طور پر ان اساتذہ کے لیے جو انٹیلی جنس ایجنسیوں پر کام کرتے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کی ایزابیل ٹافٹ نے نوٹ کیا ’یہ کوئی راز نہیں ہے کہ سی آئی اے نے طویل عرصے سے ایجنٹوں کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیداروں کے طور پر خفیہ بھرتی کیا ہوا ہے۔
لیکن 1961 میں صدر کینیڈی کو لکھے گئے ایک میمو میں بتایا گیا کہ کس طرح ایجنسی نے تقریبا 1500 ایجنٹوں کو دفتر خارجہ کے ملازمین کے طور پر بیرون ملک تعینات کیا تھا۔
میمو لکھنے والے معاون آرتھر شلیسنگر جونیئر نے لکھا کہ یہ عمل، جو اصل میں عارضی اور محدود تھا، خارجہ پالیسی پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے کنٹرول کو خطرے میں ڈال رہا تھا۔
اب تک جاری کی جانے والی دستاویز میں سابق امریکی صدر کے قتل کے بارے میں بہت کم نئی معلومات ہیں اور اس میں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے بارے میں بھی کوئی خاص نئی معلومات شامل نہیں ہیں۔
ابتدائی طور پر جاری کردہ 1123 میں سے صرف چند درجن پی ڈی ایف میں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کا حوالہ شامل ہے جب کہ کچھ لوگوں کی جانب سے اس قتل کی تحقیقات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
دستاویز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میکسیکو سٹی اور نائجیریا کے ذرائع کا خیال ہے کہ انہوں نے کنگ کے قاتل جیمز ارلرے سے مشابہت رکھنے والے کسی شخص کو دیکھا ہے جب کہ دستاویزات میں دو امریکی شہریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہیں قتل کے سلسلے میں پاناما سٹی میں حراست میں لیا گیا تھا لیکن ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔
ایک میمو کے مطابق برکلے کا ایک ڈاکٹر بھی شک کی زد میں آیا تھا اور وہ سی آئی اے کو خط لکھ کر ان پر اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا۔