• KHI: Zuhr 12:38pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 4:32pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 4:37pm
  • KHI: Zuhr 12:38pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 4:32pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 4:37pm

امریکا نے فلسطین کے حامی بھارتی اسکالر کو حراست میں لے لیا، ملک بدر کرنے کا فیصلہ

شائع March 20, 2025
بدر سوری خود بھی اس سمسٹر میں ’جنوبی ایشیا میں اکثریت پسندی اور اقلیتی حقوق‘ کے موضوع پر کلاس پڑھا رہے ہیں
—فائل فوٹو: لنکڈ ان
بدر سوری خود بھی اس سمسٹر میں ’جنوبی ایشیا میں اکثریت پسندی اور اقلیتی حقوق‘ کے موضوع پر کلاس پڑھا رہے ہیں —فائل فوٹو: لنکڈ ان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے منسلک بھارتی اسکالر کو حراست میں لے لیا، اور اسے امریکی خارجہ پالیسی کے لیے نقصان دہ سمجھنے کے بعد ملک بدر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے بدر خان سوری پر حماس کے ساتھ تعلقات کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر تنظیم کا پروپیگنڈا اور یہود دشمنی پھیلائی تھی۔

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر کی جانب سے فاکس نیوز کو دیے گئے ڈی ایچ ایس کے بیان میں کسی ثبوت کا حوالہ نہیں دیا گیا، بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فیصلہ کیا ہے کہ بدر سوری کی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں ملک بدر کرنا ہوگا۔

بدر خان سوری کے وکیل نے بتایا کہ سوری اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکا میں مقیم ہیں، اور انہوں نے ایک امریکی شہری سے شادی کی ہے، انہیں لوزیانا کے شہر الیگزینڈریا سے حراست میں لیا گیا ہے اور وہ امیگریشن کورٹ میں عدالت کی تاریخ کا انتظار کر رہے ہیں۔

وفاقی ایجنٹوں نے انہیں پیر کی رات ورجینیا کے شہر روسلین میں گھر کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔

یہ مقدمہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ٹرمپ ان غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد غزہ میں اسرائیل کے حملے کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔

ٹرمپ کے اقدامات پر شہری حقوق اور تارکین وطن کی وکالت کرنے والے گروپوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ہے، جو ان کی انتظامیہ پر سیاسی ناقدین کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

سوری جارج ٹاؤن کے الولید بن طلال سینٹر فار مسلم کرسچن انڈراسٹینڈنگ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ہیں، جو یونیورسٹی کے اسکول آف فارن سروس کا حصہ ہے، ان کی گرفتاری کی اطلاع سب سے پہلے پولیٹیکو نے دی تھی۔

بدر خان سوری کے وکیل نے ایک ای میل میں کہا کہ اگر تنازعات کے حل پر توجہ مرکوز کرنے والے ماہر اسکالر کو حکومت خارجہ پالیسی کے لیے ’نقصان دہ‘ سمجھتی ہے، تو شاید مسئلہ حکومت کا ہے، اسکالر کا نہیں۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ یونیورسٹی کو سوری کی حراست کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، اور نا ہی اسے سوری کے کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا علم ہے۔

سوری کے وکیل نے بتایا کہ سوری کی اہلیہ مافیز صالح امریکی شہری ہیں۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق مافیز صالح کا تعلق غزہ سے ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ الجزیرہ اور فلسطینی میڈیا اداروں کے لیے لکھ چکی ہیں، اور غزہ میں وزارت خارجہ کے ساتھ کام کر چکی ہیں، وکیل نے مزید کہا کہ مافیز صالح کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق سوری خود بھی اس سمسٹر میں ’جنوبی ایشیا میں اکثریت پسندی اور اقلیتی حقوق‘ کے موضوع پر کلاس پڑھا رہے ہیں، اور انہوں نے بھارت کی ایک یونیورسٹی سے امن اور تنازعات کے مطالعے میں پی ایچ ڈی کی ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کرکے ملک بدر کرنے کی کوشش کی تھی، خلیل اپنی نظر بندی کو عدالت میں چیلنج کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے خلیل پر حماس کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے، خلیل کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کا حماس سے کوئی تعلق نہیں، جسے امریکا ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیتا ہے۔

ٹرمپ نے الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینیوں کے حامی مظاہرین یہودی مخالف ہیں، کچھ یہودی گروہوں سمیت فلسطین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے اور فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت پر ان کی تنقید کو ان کے ناقدین کی جانب سے ’یہود دشمنی‘ کے ساتھ غلط طور پر جوڑ دیا گیا ہے۔

جج کا محمود خلیل کے حوالے سے حکم امتناع

امریکی جج نے بدھ کے روز کہا تھا کہ خلیل کو فی الحال امریکا میں ہی رہنا چاہیے، لیکن انہوں نے فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت پر اپنی گرفتاری کو قانونی حیثیت دینے کو نیو جرسی کی ایک عدالت میں چیلنج کیا ہے۔

مین ہیٹن میں مقیم امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی فرمان نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا، لیکن محکمہ انصاف سے اتفاق کیا کہ خلیل کو اس وقت نیو جرسی میں رکھا گیا تھا جب ان کے وکلا نے پہلی بار نیویارک میں ان کی گرفتاری کو چیلنج کیا تھا۔

اب یہ نیو جرسی کی عدالت پر منحصر ہے کہ وہ خلیل کی گرفتاری کو غیر آئینی قرار دینے اور اسے ضمانت پر رہا کرنے یا منتقل کرنے کی کوششوں پر فیصلہ کرے۔

خلیل کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ نور عبداللہ لوزیانا میں ان سے ملنے نہیں جا سکتیں، جہاں وہ اس وقت قید ہیں، کیوں کہ وہ 8 ماہ کی حاملہ ہیں اور پہلے بچے کی پیدائش متوقع ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 مارچ 2025
کارٹون : 23 مارچ 2025