• KHI: Maghrib 6:40pm Isha 7:56pm
  • LHR: Maghrib 6:09pm Isha 7:30pm
  • ISB: Maghrib 6:14pm Isha 7:37pm
  • KHI: Maghrib 6:40pm Isha 7:56pm
  • LHR: Maghrib 6:09pm Isha 7:30pm
  • ISB: Maghrib 6:14pm Isha 7:37pm

موت کا سامنا: جعفر ایکسپریس واقعے میں بچ جانے والوں کی کہانیاں

زندہ بچ جانے والے مسافروں نے یاد کیا کہ دہشت گرد بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے جبکہ انہوں نے مسافروں کی علاقے اور ذات کی بنیاد پر گروہ بندی کی تھی۔
شائع March 13, 2025 اپ ڈیٹ 3 گھنٹے پہلے

رات کے آخری پہر محمد نعمان کو ایک موقع ملا۔ ان کی بوگی کی نگرانی کرنے والے 3 مسلح افراد گہری نیند میں تھے۔ انہوں نے بھاگنے کا منصوبہ بنایا۔ ’یہ زندگی اور موت کا جوا ہے۔۔۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘، انہوں نے اپنے ساتھی مسافروں کو قائل کیا۔

30 سالہ محمد نعمان اور جعفر ایکسپریس میں سوار درجن سے زائد مسافر ٹرین سے باہر آئے اور قریبی پہاڑوں کی جانب بھاگنے لگے۔ انہیں اپنے عقب سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ہر طرف سے ان پر گولیاں برسائی جارہی تھیں لیکن ان لوگوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نعمان نے بتایا، ’ہم نے پیدل 4 گھنٹوں تک سفر کیا اور پھر ہم فرنٹیئر کور (ایف سی) کی چوکی پر پہنچے جہاں ہمیں روکا گیا‘۔

11 مارچ کو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں نے کوئٹہ سے تقریباً 157 کلومیٹر دور مشکاف ٹنل کے قریب جعفر ایکسپریس پر حملہ کیا اور 440 کے قریب مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ ہائی جیکنگ کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس سے قبل دہشت گرد ٹرین کی پٹڑیوں پر بم دھماکے کرچکے ہیں اور ٹرینوں کو پٹڑی سے اتارنے کی کوششیں بھی کرچکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی پوری ٹرین اور اس میں سوار افراد کو یرغمال بنانے کی کوشش نہیں کی۔

ردعمل میں فوج نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے آپریشن کا آغاز کیا جو گزشتہ رات اختتام کو پہنچا۔ فوج کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کردہ میڈیا ریلیز میں کہا گیا ہے کہ تمام یرغمالیوں کو رہا کروالیا گیا ہے جبکہ حملے میں ملوث 33 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ احمد شریف چوہدری کے مطابق آرمی، فضائیہ، ایف سی اور اسپیشل سروس گروپ کے کمانڈرز نے آپریشن میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کلیئرنس آپریشن میں 21 مسافر اور 4 ایف سی اہلکار شہید ہوئے۔

’موت سے سامنا‘

محمد نعمان ان خوش قسمت مسافروں میں شامل ہیں جنہیں اس ہائی جیکنگ میں کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن ان کے بہت سے دوست ان کی طرح خوش قسمت نہیں تھے۔ انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا، ’ہم تقریباً 20 ساتھی گزشتہ چند ماہ سے افغانستان میں کام کررہے تھے اور ہم نے چند ہفتوں کے لیے اپنے گھر (گوجرانوالہ اور لاہور) جانے کا فیصلہ کیا تھا‘۔

بدقسمتی سے صرف 3 دوست زندہ بچ پائے ہیں۔ دیگر یا تو مارے گئے یا وہ ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان میں سے کچھ کو نعمان کی آنکھوں کے سامنے ماردیا گیا۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’ایک جھٹکے سے ٹرین کے رکنے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ دہشت گرد بوگیوں میں داخل ہوئے اور انہوں نے تمام مسافروں کے شناختی کارڈز چیک کرنا شروع کیے۔

’انہوں نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پورے نہ کیے تو وہ ہم سب کو مار دیں گے۔ وہ (دہشت گرد) بڑی تعداد میں تھے جو پہاڑوں پر تعینات تھے‘۔

  سادہ لباس سیکیورٹی فورس کے اہلکار جنہیں دہشت گردوں کے حملے کے بعد ٹرین سے بچایا گیا تھا، مچھ ریلوے اسٹیشن سے نکل رہے ہیں—تصویر: رائٹرز
سادہ لباس سیکیورٹی فورس کے اہلکار جنہیں دہشت گردوں کے حملے کے بعد ٹرین سے بچایا گیا تھا، مچھ ریلوے اسٹیشن سے نکل رہے ہیں—تصویر: رائٹرز

فرار ہونے والے ایک اور مسافر محمد نوید نے بتایا کہ دہشت گردوں نے مسافروں سے کہا کہ وہ ایک ایک کرکے ٹرین سے باہر آئیں۔ ’انہوں نے خواتین کو الگ کیا اور ان سے کہا کہ وہ جاسکتی ہیں۔ انہوں نے معمر اور ضعیف افراد کو بھی جانے دیا۔

’انہوں نے ہم سے یہ کہتے ہوئے باہر آنے کے لیے کہا کہ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ جب 185 افرد ٹرین سے باہر آگئے تو انہوں نے لوگوں کو الگ الگ کرکے انہیں فائرنگ کرکے قتل کردیا‘۔

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بازیاب کروائے گئے ایک اور مسافر ارسلان یوسف یاد کرکے بتاتے ہیں کہ دہشت گرد راکٹ لانچرز، بندوقیں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس تھے۔ انہوں نے یرغمالیوں کی ذات اور علاقوں کی بنیاد پر گروہ بندی کی تھی۔

ارسلان بتاتے ہیں، ’کبھی کبھی وہ فوجیوں کو الگ کرتے اور انہیں مار دیتے‘۔ وہ ان فوجیوں اور دیگرسیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کا حوالہ دے رہے ہیں جو اس ٹرین میں سوار تھے۔ ’پھر کبھی کبھی وہ مخصوص لوگوں کو نشانہ بناتے۔ اگر انہیں کسی سے کوئی بغض ہوتا تو وہ موقع پر ہی اسے قتل کررہے تھے‘۔

’اللہ نے ہمیں بچایا‘

75 سالہ محمد اشرف جو جعفر ایکسپریس کے ذریعے لاہور جارہے تھے، نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ تمام مسافر تکلیف میں تھے۔ ’ہم میں سے کچھ منہ کے بل زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔

’انہوں نے کم از کم ایک گھنٹے میں 10 لوگوں کو قتل کیا جن میں ریلوے پولیس کے تین اہلکار اور تین پولیس کمانڈوز شامل تھے۔ ان کے ہتھیار دہشت گردوں نے چھین لیے تھے‘۔ محمد اشرف نے بتایا کہ انہیں ان کی عمر کی وجہ سے جانے دیا گیا۔

وہ بتاتے ہیں، ’میں پیدل سفر کرکے تین گھنٹے بعد پنیر اسٹیشن پہنچا جہاں ایف سی اہلکاروں نے مجھے اور دیگر مسافروں کو ریلیف ٹرین کے ذریعے مچھ پہنچایا‘۔ تمام مسافروں کو گزشتہ رات کوئٹہ پہنچا دیا گیا ہے۔

75 سالہ محمد اشرف بتاتے ہیں کہ ’میں نے قیامت اور موت کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے لیکن اللہ نے مجھے اور دیگر مسافروں کو بچایا حالانکہ وہ سب کو مار دینا چاہتے تھے‘۔

  13 مارچ 2025ء کو بلوچستان کے علاقے مچھ میں ٹرین پر گھات لگا کر حملہ کرنے والے مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں آزاد ہونے کے بعد ٹرین کے مسافر بس میں سوار ہو رہے ہیں — تصویر: اے ایف پی
13 مارچ 2025ء کو بلوچستان کے علاقے مچھ میں ٹرین پر گھات لگا کر حملہ کرنے والے مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں آزاد ہونے کے بعد ٹرین کے مسافر بس میں سوار ہو رہے ہیں — تصویر: اے ایف پی

38 سالہ مسیحی مزدور بابر مسیح بھی اسی طرح کے تجربے سے گزرے۔ وہ اور ان کی فیملی نے اونچے نیچے پہاڑوں پر گھنٹوں پیدل سفر طے کیا جس کے بعد وہ اس ٹرین تک پہنچے جو انہیں ریلوے پلیٹ فارم پر قائم عارضی ہسپتال تک لے کر آئی۔

بابر مسیح نے بتایا، ’ہماری خواتین نے دہشت گردوں سے التجا کی تو انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ چلے جاؤ اور پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔ جب ہم بھاگ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ بھاگ رہے تھے‘۔

پیاروں کے منتظر لواحقین

گزشتہ رات کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پلیٹ فارم پر لواحقین کا ہجوم تھا جو اپنے پیاروں کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے جہاں بازیاب کروائے گئے تمام یرغمالیوں کو واپس لایا جا رہا تھا۔

انتظار کرنے والوں میں 30 سالہ عبدالرؤف بھی شامل تھے۔ ان کی نظریں پٹڑیوں پر چلتی مال بردار ٹرین پر جمی تھیں جس میں وہ ایک شناسا چہرے کو تلاش کررہے تھے۔ انہوں نے 2 روز اسٹیشن میں انتظار کرتے گزارے۔ عبدالرؤف بتاتے ہیں، ’میں نے منگل کو اپنے والد کو اسٹیشن پر الوداع کہا تھا۔۔۔ وہ اپنے بھتیجے کے جنازے میں شرکت کے لیے ملتان جارہے تھے‘۔

  لوگ ریلوے اسٹیشن پر اپنے پیاروں کے منتظر—تصویر: رائٹرز
لوگ ریلوے اسٹیشن پر اپنے پیاروں کے منتظر—تصویر: رائٹرز

وہ بتاتے ہیں، ’گزشتہ چند گھنٹوں میں، میں سب سے اپنے والد کے حوالے سے دریافت کرچکا ہوں لیکن 36 گھنٹے گزر جانے کے باوجود مجھے کوئی خبر نہیں مل سکی ہے‘۔ عبدالرؤف نے بتایا کہ ان کے والد کا نام ان مسافروں کی فہرست میں شامل نہیں تھا جو اس رات واپس آئے تھے۔

عبدالرؤف افسوس ناک لہجے میں کہتے ہیں، ’حکام کہاں ہیں؟ ان پریشان حال لواحقین کی شنوائی کون کرے گا جو اپنے پیاروں کے حوالے سے خبر کے منتظر ہیں؟ ہم نے اپنی تمام زندگی اس ملک کی خدمت کی ہے، یہ سب ہمارے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟‘


اس رپورٹ میں اے ایف پی اور رائٹرز سے بھی مواد شامل کیا گیا ہے۔

ہیڈر: 13 مارچ 2025ء کوبلوچستان کے پہاڑی علاقے مچھ میں ٹرین پر گھات لگا کر حملہ کرنے والے مسلح دہشت گردوں سے آزاد ہونے کے بعد ٹرین کے مسافر بس میں بیٹھے ہوئے ہیں — تصویر: اے ایف پی


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

سلیم شاہد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔