مژگاں تو کھول
سیلاب کے موسم میں بند پہ پانی اونچا ہونے کی خبر پا کے گاؤں والے گھروں کا قیمتی سامان چھتوں پر چڑھانا شروع کر دیتے ہیں تاکہ اس کام سے نمٹ کے عورتوں بچوں اور مال مویشی کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر سکیں۔
بند ٹوٹنے کی خبر آتی ہے تو منتقلی کا کام شروع ہو جاتا ہے اور وہ ختم ہوتا ہے تو سیلاب کا انتظار۔ کہیں گھر کی محبت کہیں جمع پونجی کی حفاظت کے خیال سے لوگ گاؤں چھوڑنے پر آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ پیچھے رہ جانے والے روز خبروں یا افواہوں کے تبادلے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔ ایک دن خبر آتی ہے کہ ٹاہلیاں والا ڈوب گیا، دوسرے دن پتا چلتا ہے کہ نہیں خبر غلط تھی پانی ابھی وہاں نہیں پہنچا۔ خبروں کے غلط ہونے اور اپنے خبر بننے سے بچنے کی دعا کرتے سیلاب کے انتظار کا عذاب اعصاب شکن ہوتا ہے۔
پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے
مجھے لگ رہا ہے کہ اب ہم اپنے اعصاب دہشت گردی کے سیلاب کے انتظار میں توڑ چکے۔ جو کاروبار سمیٹ سکتے تھے چلے گئے، جو نہیں جا سکے وہ پیسا باہر بھیج رہے ہیں کہ وہاں محفوظ رہے۔ کچھ نے بچوں کا باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ کروا دیا ہے کہ ہماری نہیں تو کم سے کم ان کی جان سے بلا ٹلی رہے۔
شہر در شہر کچے کوٹھے ڈھاتا پکے گھروں کی دیواریں کھوکھلی کرتا یہ سیلاب آگے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ فاٹا ڈوب گیا، پشاور والے اسلام آباد اٹھ آئے، کوئٹہ غایب ہوا، لاہور سے کبھی کچھ خبر آتی ہے تو کبھی کچھ۔ مگر شاید اس سے زیادہ المناک کچھ نہ ہو کہ ہم یہ بند بھی خود ہی توڑیں، توڑننے والے بھی نظروں کے سامنے ہوں اور ہم ابھی یہی طے ہونا باقی ہو کہ بند توڑا کس نے؟
مدرسوں یا افغان جنگ نے کھوکھلا کر دیا، کچی آبادیاں لے بیٹھیں یا بیروزگاری کا دباؤ بہت تھا؛ یہ سب بحثیں روز سننے کو بھی ملتی ہیں اور پڑھنے کو بھی۔ غربت، جہالت، مذہبی تنگ نظری یہ سب چیزیں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑی جاتی رہی ہیں اور بہت حد تک درست طور پر لیکن اب انتہا پسندی اس حد تک پھیل گئی ہے کہ اسے کسی طبقے یا گروہ سے منسوب کرنا ممکن نہیں رہا۔ پانی سر سے اونچا ہونے کو ہے اور بقول میر ہم سوتے ہیں۔
پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ فاٹا کے مذہبی مدرسوں پہ دہشت گردوں کی تربیت تو عرصے سے زیرِ بحث تھی، اب ان کی پناہ گاہیں لاہور کی یونیورسٹیوں میں بھی ہیں۔ کچی آبادیوں میں وہ ہجوم میں گم ہیں تو پوش علاقوں میں پرائیویسی کی اونچی دیواروں کے پیچھے گمنام۔
کیا اب یونیورسٹیوں میں بھی؟
پچھلے دنوں لاہور میں واقع پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم کے پاس پناہ گزین القاعدہ کے دہشتگردوں اور لاہور ہی کی ایک اور یونیورسٹی سے ان کے کچھ اور ساتھیوں کی گرفتاری کی خبر آئی تو اکثر آنکھوں میں حیرت اور ہونٹوں پر سوال تھا کہ کیا اب یونیورسٹیوں میں بھی؟
اس حیرت کی ایک بڑی وجہ ہماری اجتماعی یادداشت کی کمزوری ہے۔ ہم نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے درآمد کردہ مذہبی انتہاپسندی کی پنیری صرف پہاڑوں سے گھرے مدرسوں میں ہی نہیں لگائی اس کی بارآور نسلیں تیار کرنے کو ہماری یونیورسٹیاں ہی لیبارٹری کے طور پر استعمال ہو تی رہی ہیں۔
کس کس بات کا رونا رویا جاۓ، وہ ضیاء الحق اور افغان جنگ ہی کا زمانہ تھا جب عبداللہ عزام نامی حضرت اسلام آباد میں بننے اور برادر اسلامی ملک کے دیناروں پر چلنے والی ایک یونیورسٹی میں پڑھانے آئے تھے۔
جیسے ہی افغان جنگ کی آگ تیز ہوئی، عزام صاحب پڑھانا وڑھانا چھوڑ چھاڑ افغان مہاجرین کی خدمت کا عزم لیے پشاور جا پہنچے اور وہاں ایک بم دھماکے کا نشانہ بن گیے۔ رہا اسامہ بن لادن کے ان کی یاد میں قائم ہونے والا القاعدہ کا عبداللہ عزام گروپ تو وہ آج بھی اسلامی دنیا اور عہدِ کفار کے متعلق کاروبارِ تحقیق میں مصروف ہے، پاکستان میں نہ سہی کہیں اور سہی۔
نشئی کی جیب سی نکلنے والے پڑیا
اسی یونیورسٹی میں آگے چل کے ارتیاض گیلانی نام کے ان صاحب نے تدریس کے فرائض سنبھالے جو اسلام آباد کے سیکٹر جی پندرہ میں اپنے گھر پر پڑنے والے حالیہ چھاپے کے بعد سے بوجوہ دفتر نہیں آسکے. کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی غیر حاضری کی وجہ وہ چند آر پی جی راکٹ اور دو چار فضائی نگرانی کی لیے استعمال ہونے والے ڈرون تھے جو پولیس نے نشئی کی جیب سی نکلنے والے پڑیا کی طرح خود رکھ دیے تھے۔
لاہور کی یونیورسٹی میں جس تنظیم نے القاعدہ کے مجاہدوں کو قیام و طعام کی سہولت صرف مشرقی آداب میزبانی نبھانے کے لیے دے رکھی تھی اس تنظیم کے کشمیر میں جا کر غائب ہوجانے والے مجاہدوں کی غائبانہ نماز جنازہ یونیورسٹی کے سبزہ زاروں میں پچھلی صدی کی آخری دہائی تک بہت باقاعدگی سے ادا کی جاتی تھی۔ تقریبا اتنی ہی باقاعدگی سے اس تنظیم کی سرپرستی کرنے والی جماعت، جماعت اسلامی کے ممبروں کے گھر سے القاعدہ کے ممبر اس صدی کی موجودہ دہائی میں پکڑے جاتے رہے ہیں۔
چلیے سرکاری یونیورسٹیوں اور اسلامی جماعتوں کو جانے دیجیے کہ ان دونوں میں متوسط طبقے کے مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کے سوا ہوتا ہی کون ہے۔ ڈینئیل پرل کے قتل میں سزا پانے اور جیل کی کوٹھڑی سے پرویز مشرف کو دھمکی آمیز فون کرنے والے عمر سعید شیخ لیکن ذرا مختلف بیک گراؤنڈ سے تھے۔
ان حضرت نے لاہور کے اس تعلیمی ادارے میں پڑھا تھا جس کی کرکٹ ٹیم میں ہمارے چکری کے چوہدری اور بنی گالا کے چئیرمین آمنے سامنے ہونے سے بہت پہلے اکھٹے کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ لندن میں پیدا ہونے والے عمر سعید شیخ کو ان کے والد غیر شرعی مشاغل سے بچانے کو لاہور لائے تھے لیکن لاہور میں انہیں جو شوق چرایا اس سے وہ لندن واپس لے جائے جانے کے باوجود بچ نہیں پائے۔
امریکی صحافی کے اغواء اور قتل سے پہلے لندن سکول آف اکنومکس میں زیر تعلیم رہنے عمر شیخ ہندوستان میں ایک امریکی اور تین برطانوی شہریوں کو اغوا کر کے جہاد کشمیر کے جانے پہچانے کردار مولانا مسعود اظہر کو رہا کروانے کی ناکام کوشش کر چکے تھے۔
اسٹریٹجک ڈیپتھ کی بوتل
تعلیمی اداروں کو اگر کچھ دیر کے لیے بھول کر سکیورٹی کے اداروں پر نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی صورتحال کچھ بہت اچھی نظر نہیں آتی۔ سول اداروں کی بات کریں تو کوئٹہ میں ڈی آئی جی پر حملہ کرنے والے حضرت کا پولیس لائنز کی مسجد میں قیام ہو یا بھارہ کہو میں پنجاب پولیس کے ایک ایس پی کے بھائی کے گھر سے بارود بھری گاڑی کی برآمدگی؛ یہ سب واقعات کس طرف اشارہ کر رہے ہیں یہ لکھنے کی ضرورت میرے خیال میں باقی نہیں رہی۔
انتہا پسندی کا یہ جن اسٹریٹجک ڈیپتھ کی بوتل سے نکلا ہے اور اسٹریٹجک ڈیپتھ کا یہ جھوٹ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے ہی نہیں اپنے ساتھ بھی اتنے عرصے بولا ہے کہ اس کے اپنے کارندے بھی اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔
رانجھا رانجھا کرتی فوج خود کتنی رانجھا ہو چکی ہے اس بارے میں سلیم شہزاد مرحوم نے اپنی کتاب میں اتنی تفصیل سے لکھا کہ پھر اس کے بعد مرحوم قرار پائے اور میں نے اسے پڑھنے کے بعد فوج کو اسٹیبلشمنٹ لکھنا شروع کر دیا۔
اے چشمِ گریہ ناک
میں فوج کو اسٹیبلشمنٹ لکھوں یا آپ قومی سلامتی کے ادارے پڑھیں بات صرف اتنی ہے کہ بند کو حفاظتی پشتہ کہنے سے سیلاب کے زور میں کمی نہیں آتی۔ پانی آ چکا ہے اور اس نے کچّے کوٹھے ہی نہیں ڈھائے حویلیوں کی دیواروں میں بھی سیندھ لگائی ہے۔
اس وقت اپنے گھروں کے باہر ریت کی بوریاں رکھنے کے بجائے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر حفاظتی پشتے ٹھیک کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے تو لاہور کی ایک اور یونیورسٹی کے سابقہ پروفیسر کی کہانی پڑھ دیکھیں۔ وہی پروفیسر جو چوبرجی پر بڑے سارے دفتر والا ایک فلاحی ادارہ چلاتے ہیں اور فارغ وقت میں کشمیر آزاد کروانے کا کام بھی کرتے ہیں۔
تب بھی ہم ان لوگوں کا نام لینے کو تیار نہیں جو بند توڑ توڑ کر اس میں انتہا پسندی کی پنیری لگا رہے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ ہمیں اس پر دکھ بھی نہیں۔ بقول میر
کن نیندوں تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک مژگاں تو کھول شہر کع سیلاب لے گیا.....
تبصرے (1) بند ہیں