کہاں گیا رومانس؟
پشاور کا قصہ خوانی بازار اور زود ہضم پانی
وہ بھی ایک دور تھا جب ہم اپنی جوانی میں جینز کے ساتھ عمران خان صاحب کی طرح پشاوری چپل پہن کر گھوما کرتے تھے۔ والد ائیر فورس کے ملازم تھے پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ میں ان کی پوسٹنگ پشاور میں تھی، لہذا بچپن میں والدہ کی زبانی پشاور کے قصہ خوانی بازار کی کہانیاں سنا کرتے تھے کہ لوگ جیب میں پیسے نہ ہونے کے باوجود چپلی کبابوں کی خوشبو سونگھنے قصہ خوانی بازار پہنچ جایا کرتے تھے۔
آج آپ کو خون اور انسانی اعضا کی خوشبو سونگھنی ہے تو صدیوں پرانے قصہ خوانی بازار چلے جائیں۔
والدہ بتاتی تھیں کہ پورے پشاور میں صبح صبح ماشکی حضرات اپنی اپنی مشکوں میں پانی بھر کر سڑکوں پر نکل آتے تھے اور پورے شہر کی سڑکیں دھویا کرتے تھے۔ پشاور کا پانی جو اپنی زود ہضمی کے لئے مشہور تھا کہ بندہ پشاور میں تین کے بجائے پانچ مرتبہ کھاتا ہے، اب بے اثرہو گیا ہے۔
کوئی ان ماشکیوں کو بلائے ان سے وہ خون کے دھبے دھلوائے جو پشاور شہر اور قصہ خوانی بازار میں جم کر رہ گیا ہے۔ خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔ میرے شاعر مجھے یہ تو بتادے یہ ظلم اب اور کتنا بڑھے گا، تو تو کہتا آیا ہے کہ مٹ جائے گا۔
آلودہ روحیں کون صاف کرے؟
اسی سے زاید افراد ایک لمحہ میں لقمہ اجل بن گئے اور سو سے زیادہ زخمی۔ اس بار پھر ہدف پاکستان کی ایک اور پرامن اور سلجھی ہوئی کمیونٹی تھی۔ اس کمیونٹی کے زیادہ تر افراد میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں اور دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو یہی لوگ ہمیں پھولوں کی طرح رکھتے ہیں، ہماری گندگی صاف کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن جن کی روحیں آلودہ ہوگئیں ہوں انہیں کیسے صاف کیا جائے؟
خیبر پختون خواہ میں اب عمران خان صاحب کی تحریک انصاف کی حکومت ہے، جو طالبان دوست نہیں تو ہمدرد ضرور ہیں اور توقع یہ کی جارہی تھی کہ طالبان صوبے میں چھوٹی موٹی کارروائیاں تو کرتے رہیں گے لیکن بڑی کارروائی سے شاید باز رہیں اور خان کی ہمدردی کا جواب ہمدردی سے دیں گے۔ لگتا ہے خان صاحب کی ہمدردی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
کہاں گیا رومانس؟
خان صاحب قبائلی علاقوں کے لوگوں کے رومانس میں کافی عرصے سے مبتلا ہیں، یہ وہی تھے جنہوں نے ہم نوجوانوں کو جینز پر پشاوری چپل پہننا سکھائی تھی۔ لیکن نوجوانی کا رومانس عملی زندگی میں آکر خوفناک حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ خان صاحب ابھی تک اپنی جوانی میں پھنسے دکھائی دیتے ہیں۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں کراچی دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ کراچی کے علاقے صدر میں غیر ملکی چہل قدمی کرتے تھے۔ آج اسی صدر کا یہ حال ہے کہ گاڑی تو کیا پیدل چلنا محال ہے، چور، جیب کتروں اور ٹھگوں کا اڈہ بن چکا ہے، غیر ملکی تو کیا آج ہماری مائیں بہنیں وہاں جانے کا سوچتی بھی نہیں ہیں۔ رومانس ختم ہوچکا ہے۔
ہمیں پتا ہے کہ ان چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں سے ہمیں کیسے نمٹنا ہے؟ ہماری جیبوں کی طرف بڑھتے ہاتھ کو کیسے مروڑنا ہے؟
خان صاحب، آپ ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ ہمارا جرم کیا ہے؟ اگر امریکہ کی جنگ میں حکمرانوں نے ان کا ساتھ دیا تو اس میں میرا کیا قصور؟ کیا میں دائرہ اسلام سے خارج ہوگی اور واجب القتل ٹھہرا؟ ڈرون حملوں میں مرنے والے تو پھر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کوہاٹی گیٹ میں ہلاک ہونے والوں کا جرم یہ تھا کہ وہ مریضوں کی تیمارداری کرتے ہیں۔ بچوں کو بغیر کسی تعصب کے بہتریں تعلیم دیتے ہیں؟ آپ کیوں کوئی ریلی نہیں نکالتے جو طالبان تک جائےاور ان سے پوچھے کہ وہ پاکستان کے ایک عام شہری کو حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی سزا کیوں دے رہے ہیں؟
کراچی کی مشہور پشاوری آٰیس کریم
جس دن پشاور کے چرچ میں یہ خون کی ہولی کھیلی گئی، کراچی کے پوش اور مارڈرن ایریاز میں امیریکن سٹیک کھانے والوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی، وہاں پر ان کے سوگ میں کسی نے کالا کپڑا نہیں پہنا، قصہ خوانی بازار میں گرنے والی خون کی چھینٹیں اب تک کراچی نہیں پہنچیں، جیسے ایک زمانے میں یہاں بہنے والے خون کی چھینٹیں پشاور نہیں پہنچتی تھیں۔ بس ایک کراچی کی مشہور پشاوری آٰیس کریم ہے جو انسانوں سے انسانوں کے تعلق کی واحد نشانی رہ گیی ہے۔ سے کھاتے ہویے ان میں سے کسی کو بھی کسی دوسرے شہر میں مر جانے والوں بدبو نہیں آتی۔
خان صاحب کیا آپ کو کبھی سٹیک میں سے کسی معصوم مرنے والے کی خوشبو آیی؟
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے
تبصرے (1) بند ہیں