پیکا ایکٹ کے بعد سوشل میڈیا کا غیر محتاط استعمال خطرناک، کن کو سزا دی جائے گی ؟
صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے 29 جنوری کو دستخط کیے جانے کے بعد ’دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025‘ (پیکا) کا قانون نافذ العمل ہوگیا۔
مذکورہ بل کو 22 جنوری کو قومی اسمبلی اور بعد ازاں سینیٹ نے منظور کیا تھا، جس کے بعد صدر نے بھی اس کی توثیق کی۔
نئے قانون کے تحت وفاقی حکومت سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے ملک میں پہلی بار ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ (سمپرا) بھی قائم کرے گی۔
مذکورہ اتھارٹی ملک میں اپنی طرز کی پہلی خود مختار اتھارٹی ہوگی، جس سے ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام سوشل میڈیا ایپس اور ویب سائٹس سمیت اسٹریمنگ چینلز کی رجسٹریشن بھی ہوگی۔
قانون کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔
مذکورہ اتھارٹی ملکی سمیت بین الاقوامی اداروں کی معاونت بھی حاصل کرے گی اور کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کسی بھی شخص یا گروہ کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط، جھوٹی اور نفرت انگیز معلومات پر کارروائی کرے گی۔
اتھارٹی ازخود کارروائی کرنے سمیت کسی بھی شخص یا گروہ کی جانب سے تحریری شکایت ملنے کے بعد کسی بھی شخص یا گروہ کے خلاف فوری طور پر کارروائی کا آغاز کرے گی اور 24 گھنٹے کے اندر فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔
سوشل میڈیا پر اپنے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثر ہونے والا فرد یا گروہ 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔
اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن (پی ٹی اے) چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) چیئرمین ہوں گے، تاہم اگر چیئرمین پی ٹی اے اور پیمرا چاہیں تو اپنی جگہ دوسرے اہم عہدیدار کو رکن نامزد کر سکیں گے۔
کم سے کم بیچلرز ڈگری رکھنے والے اور متعلقہ فیلڈ میں کم سے کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور باقی دیگر 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔
چیئرمین کی تقرری وفاقی حکومت یعنی وزیر اعظم کریں گے۔
اتھارٹی میں صحافیوں کی نمائندگی بھی ہوگی، حکومتی ارکان کے علاوہ (ایکس آفیشو اراکین) دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر، ایک وکیل، سوشل میڈیا ایکسپرٹ اور نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔
’غیر قانونی‘ مواد کی تعریف
پیکا ترمیمی بل 2025 کے مطابق ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔
ایسا مواد جو عوام یا ایک سیکشن کو سرکاری یا نجی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، غیر قانونی ہے۔
تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلفشار پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو بڑھاوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہے۔
بل کے مطابق پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی کہلائے گا۔
یہ قانون نافذالعمل ہونے کے بعد اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے، جب کہ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنا بھی غیر قانونی مواد کے زمرے میں آئے گا۔
کس کو سزا دی جائے گی؟
پیکا ترمیمی بل کے متن میں سزا کے لیے ’اقدام‘ کی تعریف بھی دی گئی ہے۔
اس تعریف کے مطابق ’جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے پر سزا اسے ہو گی، جو جان بوجھ کر کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے ایسی کوئی بھی معلومات پھیلاتا، عوامی طور پر ظاہر کرتا ہے، یا منتقل کرتا ہے، جسے وہ جانتا ہے یا جس کے متعلق اس پر یقین کرنے کی کوئی وجہ ہو کہ وہ جھوٹی یا جعلی ہے، اس سے خوف پیدا کرنے یا پیدا ہونے کا امکان ہو، عام لوگوں یا معاشرے میں خوف و ہراس یا بدامنی پھیل سکتی ہو۔‘
سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل و ٹربیونل
پیکا ترمیمی بل 2025 کے نفاذ کے بعد سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بھی بنائی جائے گی جو ایک چیئرمین اور 4 اراکین پر مشتمل ہو گی، یہاں عام افراد، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی جن کا بعد ازاں جائزہ لیا جائے گا۔
اس کے علاوہ نئے قانون کے تحت ٹربیونلز قائم کیے جائیں گے، ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص یہاں درخواست دے سکے گا، جب کہ ٹربیونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60 روز کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا۔
ٹربیونل تمام مقدمات کے فیصلے 90 روز میں کرے گا، ٹربیونل کے چیئرمین ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت رکھنے والا فرد ہو گا، اور اس میں ایک سافٹ ویئر انجینیئر اور ایک صحافی رکن بھی شامل ہوں گے۔