• KHI: Asr 4:23pm Maghrib 5:59pm
  • LHR: Asr 3:38pm Maghrib 5:15pm
  • ISB: Asr 3:37pm Maghrib 5:15pm
  • KHI: Asr 4:23pm Maghrib 5:59pm
  • LHR: Asr 3:38pm Maghrib 5:15pm
  • ISB: Asr 3:37pm Maghrib 5:15pm

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کی درخواست خارج کرنے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر

شائع January 6, 2025
—فائل فوٹو: اے ایف پی
—فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل روکنے کی درخواست خارج کرنے کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق سابق چیف جسٹس نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالت 9 دسمبر 2024 کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست قبول کرے جب کہ موجودہ اپیل اور متعلقہ اپیلوں کی سماعت اس وقت تک ملتوی کی جائے جب تک 26ویں ترمیم کی قانونی حیثیت طے نہ ہو جائے۔

نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ متنازعہ حکم میں سے وہ بیان حذف کیا جائے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ درخواست دیانت داری پر مبنی نہیں اور صرف مقدمے میں تاخیر کے لیے دی گئی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ درخواست کو غیر سنجیدہ قرار دینے کے فیصلے اور 20 ہزار روپے جرمانے کے حکم کو بھی ختم کیا جائے جب کہ آئینی ترمیم پر فیصلے تک فوجی عدالتوں کے مقدمہ کی سماعت موخر کی جائے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے فیصلے میں سویلنز کا کورٹ مارشل کالعدم قرار دے چکی ہے، آئینی ترمیم پر فیصلے تک موجودہ بینچ کا فیصلہ متنازع ہی رہے گا۔

درخواست میں وفاق، صوبائی حکومت خیبرپختونخوا، صوبائی حکومت پنجاب اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال 9 مئی کو پرتشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

20 جون 2023 کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے عام شہریوں کے ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے، اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے جب کہ ملٹری کورٹس کی تمام کارروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں ہے، درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔

اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا، جس میں 103 شہریوں کے ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا۔

اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

بعدازاں 6 ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ 5-1 کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا۔

29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت پر جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود نے یہ انٹرا کورٹ اپیل 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دی تھی تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔

مارچ 2024 میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا، ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے کیونکہ شہریوں کے مسلسل فوجی حراست میں رہنے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

9 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت روکنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت روکنے کی اعتزاز احسن اور چیف جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کی درخواستوں پر سماعت کی۔

کارٹون

کارٹون : 8 جنوری 2025
کارٹون : 7 جنوری 2025