عالمی قوانین کی خلاف ورزی عام، کیا ہمیں ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے؟
جب 1934ء میں کول پورٹر نے ’اینی تھنگز گوز‘ گانا گایا تو اس وقت وہ اشرافیہ کے ان اسکینڈلز پر بات کررہے تھے جو 1930ء کی دہائی میں امریکا کی شدید معاشی بدحالی کے دور میں سامنے آئے تھے۔ تاہم آج یہ گانا دنیا کی جغرافیائی سیاست کے لیے موزوں ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر لوگوں کے قتل میں بھارت کا ہاتھ ہے جبکہ گزشتہ سال اپریل میں دی گارڈین نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ 2020ء سے بھارت پاکستان میں 20 افراد کے قتل میں ملوث رہ چکا ہے۔
بھارت پر الزام ہے کہ وہ کینیڈا میں مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی یہی حکمتِ عملی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ رپورٹ ہمیں یاددہانی کرواتی ہے کہ بین الاقوامی قوانین پر مبنی عالمی نظام تباہ ہوچکا ہے۔
غزہ کی ہولناک جنگ اور یوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی آرڈر پہلے ہی غیر متعلقہ ہوچکا ہے۔ ان جنگوں کو جس طرح استثنیٰ دیا گیا ہے اس نے جغرافیائی سیاسی افراتفری کو جنم دیا ہے جبکہ ریاستوں کی حمایت یافتہ قتل و غارت گری اس افراتفری کی مثال ہے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ماورائے عدالت قتل خاص طور پر عام شہریوں یا ایسے لوگوں کے قتل جو جنگجو نہیں، بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ بہت سے ممالک اسے ’ٹارگیٹڈ قتل‘ یا اپنے دفاع کا حق قرار دے کر اپنے اقدامات کے دفاع کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ قتل کیا ہے، بین الاقوامی قوانین اس کی وضاحت نہیں کرتے۔
یقیناً بھارت وہ واحد ملک نہیں جو شیڈو تنازعات میں دیگر ممالک میں قتل وغارت کرتا ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ اور حماس کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ایرانی جوہری سائنسدانوں کو بھی قتل کیا ہے، ایرانی حکومت نے بھی اسرائیلیوں اور اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے، امریکا نے مختلف ممالک پر ڈرونز حملے کیے ہیں، سعودی عرب نے ترکیہ میں صحافی جمال خاشقجی کو قتل کیا، روس الیکسی ناوالنی کو زہر دینے میں ملوث تھا جبکہ خود پاکستان پر بھی الزام ہے کہ اس نے مبینہ طور پر بیرونِ ملک اپنے صحافیوں کو قتل کیا ہے۔ خیر فہرست بہت طویل ہے لیکن پیغام واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ بالخصوص اب جب کثیر قطبی دنیا کی طرف جھکاؤ بڑھ رہا ہے تو ایسے میں بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی عام ہوچکی ہے۔
غزہ جنگ کے تناظر میں قوانین پر مبنی کسی بھی حکم سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ایک پرانا خیال یہ پایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین ان طاقتور لوگوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جو ان قوانین کو بناتے ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکا اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ان قوانین کا استعمال کرتا ہے تاکہ مغربی منافقت کو جواز مل سکے۔ حالیہ برسوں میں گلوبل ساؤتھ نے کثیر قطبی دنیا کے خیال کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ امریکا اور مغربی تسلط کو کمزور کرنے کا ایک طریقہ ہے جو بین الاقوامی قوانین تو بناتے ہیں لیکن خود ان اصولوں کی پیروی نہیں کرتے۔
تاہم ہمیں بین الاقوامی قوانین پر مبنی عالمی نظام کو مکمل طور پر ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں 21ویں صدی کی ضروریات اور حقائق کے مطابق نئی تعریف وضح کرنے کی ضرورت ہے۔
دو جنگِ عظیم کے بعد بین الاقوامی قوانین پر مبنی ورلڈ آرڈر کی اصطلاح متعارف ہوئی جو حکومتی نظام، قوانین، اداروں اور تنازعات کو روکنے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے معاہدوں کی بنیاد ثابت ہوا۔ اس میں اقوام متحدہ کا چارٹر، انسانی حقوق کے قوانین، بین الاقوامی فوجداری عدالت، آئی ایم ایف اور دیگر ادارے اور معاہدے شامل ہیں جن میں سے اکثر کو حال ہی میں اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لیکن اگر ہم اس ورلڈ آرڈر کے بنیادی اصولوں پر نظر ڈالیں تو پھر اس پر تنقید کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکی یونیورسٹی پرنسٹن کے پروفیسر جان اکن بیری نے اس کے کچھ اہم اصولوں کا خلاصہ یوں کیا، ’سب سے پہلے آپ علاقائی سرحدوں کو تبدیل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کرتے۔ دوسری بات، آپ شہریوں کے خلاف تشدد کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرتے اور تیسری بات یہ کہ آپ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی نہیں دیتے‘۔ جب اس روشنی میں دیکھا جائے تو بہت کم لوگ ان اصولوں پر تنقید کرکے انہیں ختم کرنا چاہیں، پھر چاہے ان اصولوں کا اب تک کتنے غیرمؤثر طریقے سے اطلاق کیوں نہ ہوا ہو۔
ایک قدم پیچھے ہٹ کر یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ قوانین پر مبنی عالمی آرڈر کو بادشاہت اور نوآبادیاتی عزائم کو ہوا دینے والی طاقت سے مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد بااثر ریاستوں کے اقدامات کو محدود کرنا تھا جن کا خیال تھا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوئی بھی ذرائع اختیار کرسکتے ہیں۔ نئے آرڈر کا مقصد سب سے طاقتور ممالک کو ادارہ جاتی قواعد میں محدود کرنا اور کم طاقتور ریاستوں کو آواز اٹھانے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
تاہم دوسرے الفاظ میں بین الاقوامی آرڈر میں چاہے کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں، اس کے بنیادی اصول بالخصوص طاقت کو محدود کرنا اور جامعیت کو فروغ دینے کی اب بھی حمایت کی جانی چاہیے۔ اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ روس اور چین جیسے ممالک جو اپنے قومی مفادات کے دفاع کو ترجیح دیتے ہیں اور اندرونِ ملک آمرانہ طرزِ حکمرانی اپنائے ہوئے ہیں، وہ نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں آگے نہیں آ رہے ہیں۔
اب یہ ذمہ داری گلوبل ساؤتھ کے ممالک کی ہے جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے، وہ ایک نئے ورلڈ آرڈر کے لیے کام کریں جس میں جامعیت کو مرکز بنایا جائے اور کثیر قطبیت (Multipolarity) کا فائدہ اٹھایا جائے۔ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اصلاحاتی اداروں اور نئے قوانین پر کام کیا جائے جو زیادہ آوازوں کی شنوائی میں کارگر ثابت ہوتے ہیں اور بڑی طاقتوں کے درمیان پُرامن مسابقت اور متنوع اقوام کے درمیان تعاون کو فروغ دیتے ہیں۔
اس تمام تر سیاسی شورو غل کے درمیان سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے بغیر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ آئیے امید کرتے ہیں کہ نئے قوانین ایسے ہوں گے جنہیں پامال کرنا مشکل ہوگا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔