• KHI: Maghrib 5:58pm Isha 7:19pm
  • LHR: Maghrib 5:14pm Isha 6:41pm
  • ISB: Maghrib 5:15pm Isha 6:43pm
  • KHI: Maghrib 5:58pm Isha 7:19pm
  • LHR: Maghrib 5:14pm Isha 6:41pm
  • ISB: Maghrib 5:15pm Isha 6:43pm

گلدستوں میں زہریلی ’پارتھینیم‘ کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان

شائع January 6, 2025
خالی پلاٹوں پر پارتھینیم کی بے قابو افزائش—تصویر: سی اے بی آئی
خالی پلاٹوں پر پارتھینیم کی بے قابو افزائش—تصویر: سی اے بی آئی

دسمبر کا مہینہ ختم اور سالِ نو کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ سال کے وہ مہینے ہوتے ہیں کہ جب شادیاں، شادی کی سالگرہ کی تقاریب، بچوں کی پیدائش اور بچوں کی سالگرہ کی تقاریب ہوتی رہتی ہیں، لہٰذا تحفے دیے اور موصول کیے جاتے ہیں۔ اور ان مواقع کی خوشی منانے کے لیے کھلتے مہلکتے مختلف گلابوں سے آراستہ گلدستے سے زیادہ بہتر طریقہ بھلا کیا ہوگا؟

تاہم تقریب کو مزید خاص بنانے کے لیے ایک بڑا، خوبصورت گلدستہ لینا ضروری نہیں کہ ہمیشہ اچھا خیال ثابت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ گلدستے بالخصوص جن کے اوپر بہت سے چھوٹے سفید، گل بہار جیسے پھول ہوتے ہیں، آپ کو احساس نہیں ہوتا لیکن وہ آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

اپنے محلے میں واقع پھولوں کی دکان پر فروخت ہونے والے پھولوں پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان گلدستوں میں بہت کم پھول ہوتے ہیں جبکہ حجم بڑھانے کے لیے پھولوں کے تنوں کے ساتھ خودر و گھاس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس خود رو گھاس کو پارتھینیم (پارتھینیم ہائسٹروفورس) کہتے ہیں جبکہ مقامی سطح پر یہ ’گاجر بوٹی‘ کہلائی جاتی ہے۔ یہ پودا زہریلا ہوتا ہے اور اسے معمول کی بنیاد پر چھونا یا اس کے قریب آنا نہ صرف انسان بلکہ جانور اور ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

تو اگلی بار جب آپ کو چھینک آئے، کھانسی ہو یا سانس لینے میں دشواری محسوس ہو تو فوری طور پر خشک موسم کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اس گلدستے کی وجہ سے ہو جو آپ کے رشتہ دار بہت پیار سے آپ کے لیے لے کر آئے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں؟

سینٹر فار ایگریکلچر اینڈ بائیو سائنسز انٹرنیشنل (سی اے بی آئی) ایک بین الاقوامی، بین حکومتی، غیر منافع بخش تنظیم ہے جو زراعت اور ماحولیات کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنسی مہارت بروئے کار لاتی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق پارتھینیم کے قریب رہنا، جلد کی سوزش اور سانس کے مسائل جیسے کہ بخار، برونکائٹس یا دمہ کا سبب بن سکتا ہے۔

سی اے بی آئی کی اسی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ پارتھینیم کی جڑیں مقامی پودوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور علاقے میں پھیل جاتی ہیں جس سے وہ اہم گھاس اور جڑی بوٹیاں ختم ہوجاتی ہیں جن کی ضرورت چرنے والے جانوروں کو ہوتی ہے۔ مویشی عموماً پارتھینیم کھانے سے گریز کرتے ہیں لیکن اگر وہ غلطی سے اسے کھا لیں تو ان میں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان کی جلد پر دھبے ہوسکتے ہیں، مویشیوں کے رویے میں تبدیلی آسکتی ہے جبکہ یہ زہریلی گھاس کھانے سے ان کے معدے، جگر اور گردوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس سے وہ مر بھی سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے دیگر حصوں کی طرح پارتھینیم پورے پاکستان میں بھی پھیل چکا ہے۔ یہ بنیادی طور پر درآمد شدہ اناج یا گاڑیوں پر ترسیل کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ خودر و گھاس سڑکوں کے کنارے، ریل کی پٹڑیوں اور دریا کے کناروں پر اُگتی ہے جبکہ وہاں سے یہ کھیتوں میں پھیلتی ہے جس سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

شہروں میں پارتھینیم عمارتوں اور محلوں میں خالی پلاٹوں کے آس پاس اُگتا ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں بہت سے لوگ اس پودے کے مضر اثرات سے واقف نہیں ہیں جسے مقامی طور پر ’گاجر بوٹی‘ کہا جاتا ہے۔ آگاہی کا فقدان بلاشبہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

گل فروشوں سے زرعی میدانوں تک

لاہور ڈیفنس کے علاقے میں پھولوں کی دکان پر محمد عاشق پہلے ہی پارتھینیم کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر چکے ہیں۔ وہ اسے چند پھولوں کے ساتھ گلدستے کی شکل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گلدستہ مکمل ہونے کے بعد چند ہزار روپے میں گاہکوں کو فروخت کیا جائے گا۔

قصور سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ محمد عاشق کو جب یہ بتایا گیا کہ وہ جس گھاس کو ہر روز چھوتے ہیں، وہ ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے جس پر انہوں نے بےنیازی سے کاندھے اچکا دیے۔ انہوں نے کہا، ’میں گزشتہ 30 سال سے اسے سنبھال رہا ہوں‘۔ انہوں نے اپنے سخت ہاتھ دکھائے اور کہا، ’دیکھو میرے ہاتھ بالکل ٹھیک ہیں‘۔

محمد عاشق اپنے دکان پر زہریلی پارتھینیم اور دیگر پھولوں کے ساتھ—تصویر: لکھاری
محمد عاشق اپنے دکان پر زہریلی پارتھینیم اور دیگر پھولوں کے ساتھ—تصویر: لکھاری

انہوں نے گاجر بوٹی سے متعلق کسی بھی انتباہ پر ہنستے ہوئے کہا کہ ’ہم دیہی علاقوں کے لوگوں کو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ مسائل آپ جیسے شہر والوں کے لیے ہیں‘۔ وہ بے پروائی سے مضرِ صحت پودا کاٹتے رہے۔

محمد عاشق خوش قسمت آدمی ہیں۔ بہ ظاہر وہ الرجی سے محفوظ ہیں۔ تاہم وہ جانوروں پر گاجر بوٹی کے خطرناک اثرات سے آگاہ تھے۔ اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ مویشی گاجر بوٹی نہیں کھاتے لیکن وہ انسانی صحت پر اس پودے کے مہلک اثرات سے بےخبر تھے۔

طبی ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پارتھینیم سے ہونے والے نقصانات زندگی بھر صحت کے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں جس کا کوئی سستا اور مؤثر علاج بھی دستیاب نہیں۔ واحد حقیقی حل یہی ہے کہ پودے کے قریب جانے سے گریز کیا جائے یا ان مقامات کو چھوڑ دیا جائے جہاں یہ اُگتے ہیں۔

گلدستوں کا حجم بڑھانے کے لیے گاجر بوٹی کا استعمال ایک سستا طریقہ ہے۔ محمد عاشق کو روزانہ گاجر بوٹی کے تقریباً 10 تین فٹ چوڑے بنڈل کی ضرورت ہوتی ہے جس کی قیمت تقریباً 500 روپے ہے۔ اسے گلدستے میں شامل کرکے وہ زیادہ پیسے کماتے ہیں اور اس سے ان کے منافع میں ہزاروں روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔

سی اے بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرحمٰن بتاتے ہیں کہ جب تک گاجر بوٹی فصل کی پیداوار کو کم کرکے براہ راست کھیتوں کو متاثر نہ کرے اور فصلوں کی پیداوار کو کم نہ کرے تب تک زیادہ تر کاشتکار پارتھینیم کے مضر اثرات سے واقف ہی نہیں ہوتے ہیں۔

وہ ڈان کو بتاتے ہیں، ’کاشتکار خالی پلاٹوں پر اس کی بے قابو نشوونما پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اس کی جڑیں آسانی سے ان کے کھیتوں میں پھیل سکتی ہیں جس سے ان کی فصلوں کی پیداوار کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں‘۔

ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے یہ بھی بتایا کہ خود ماہرین بھی پارتھینیم سے متعلق محدود معلومات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ان میں سے کچھ اسے بھنگ (بھنگ کے پتے) سے گڈ مڈ کردیتے ہیں یا گاجر بوٹی سے نمٹنے کی کوششوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں‘۔

   ڈیفنس میں ایک گل فروش پارتھینیم کا ایک گچھا پیش کر رہا ہے، یہ ایک زہریلا پودا جسے عام طور پر گلدستے میں فلر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے
ڈیفنس میں ایک گل فروش پارتھینیم کا ایک گچھا پیش کر رہا ہے، یہ ایک زہریلا پودا جسے عام طور پر گلدستے میں فلر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

ابتدائی مرحلے میں مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں

دسمبر 2024ء کے اوائل میں اسلام آباد میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مثبت اقدام اٹھایا گیا۔ شہر میں پولن الرجی کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم کے حکم کے بعد صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹر مختار احمد بھرت نے دارالحکومت میں پھولوں کی دکانوں میں گاجر بوٹی کی فروخت پر پابندی کا اعلان کیا۔

دیگر ممالک جہاں اس پودے کی بہت زیادہ نشوونما ہوئی ہے، انہوں نے اس کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ آسٹریلیا، جنوبی اور مشرقی افریقہ، سری لنکا اور بھارت نے اس کی افزائش پر پابندی لگا دی ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں پارتھینیم کی موجودگی کی وجہ سے گندم اور مکئی کی پیداوار میں نمایاں نقصان ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس خودر و گھاس کے پھیلاؤ میں سڑکوں کے نیٹ ورک، آب پاشی اور سیلاب کے نہری نظام مددگار ثابت ہورہے ہیں‘۔

ڈاکٹر عبدالرحمٰن پارتھینیم کے مضر اثرات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’اس پودے کو مکمل طور پر اکھاڑ دینا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو یہ نم علاقوں میں دوبارہ اُگے گا اور پھیلتا رہے گا‘۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے باغبانی کے ماہر محمد عرفان نواز جو زراعت سے متعلق کام کے لیے پورے پاکستان کا سفر کرتے ہیں، انہوں نے اکثر گاجر بوٹی کو بے قابو ہوتے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’اس خودر و گھاس سے چھٹکارا پانے کے لیے کوئی آسان حل تلاش کرنا ناممکن ہے۔ ایک اجتماعی اور کثیر الجہتی نظریہ شاید اس مسئلے سے نمٹنے کا واحد مؤثر طریقہ ہے‘۔

حجم بڑھانے کے لیے گلدستے میں ان چھوٹے سفید پھول نما خودر و گھاس کا استعمال کیا جاتا ہے
حجم بڑھانے کے لیے گلدستے میں ان چھوٹے سفید پھول نما خودر و گھاس کا استعمال کیا جاتا ہے

عرفان نواز کے مطابق اس جڑی بوٹی کو قابو کرنے کی کوششوں میں اسے ہاتھ سے اکھاڑنے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی کنٹرول کے طریقوں کے استعمال پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ کہتے ہیں، ’مثالی یہ ہوگا کہ ابتدائی مرحلے پر ہی پودوں کی نشوونما کو روک دیا جائے‘۔ اگر ایسا نہیں کر پائے ہیں تو وہ تنوں کو کھانے والے ویول کیڑے استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جو ان کے خیال میں گاجر بوٹی ختم کرنے کا سب سے محفوظ اور مؤثر طریقہ ہے۔

عرفان نواز بتاتے ہیں کہ تنوں کو کھانے والے یہ ویول کیڑے پارتھینیم یا گاجر بوٹی کے قدرتی دشمن ہیں۔ ’یہ پھولوں پر انڈے دیتا ہے اور بننے والا لاروا تنوں سے خوراک حاصل کرتا ہے اور اس پودے کو کھوکھلا کردیتا ہے‘۔

ان تمام طریقوں کے باوجود محمد عرفان نواز کا خیال ہے کہ اس زہریلی خودر و گھاس کے مضرِ صحت اثرات سے متعلق عوام میں اشعور اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔

اگلی بار جب آپ کو گاجر بوٹی کے ساتھ گلدستہ پیش کیا جائے تو آپ مسکراتے ہوئے شکریہ کے ساتھ اسے لینے سے انکار کردیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

الفیہ ٹی حسین

لکھاری لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 7 جنوری 2025
کارٹون : 6 جنوری 2025