• KHI: Asr 4:20pm Maghrib 5:57pm
  • LHR: Asr 3:35pm Maghrib 5:13pm
  • ISB: Asr 3:35pm Maghrib 5:13pm
  • KHI: Asr 4:20pm Maghrib 5:57pm
  • LHR: Asr 3:35pm Maghrib 5:13pm
  • ISB: Asr 3:35pm Maghrib 5:13pm
شائع January 3, 2025

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ہمارے اطراف میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں آپ کو لوگ بے بسی اور بے کسی کی صورت حال میں دیکھنے کو ملیں گے۔ وہ ایسے مقامات پر زندگی کے سفر سے تھک کر، مایوس اور پریشان ہوکر سکون کی تلاش میں پہنچ جاتے ہیں۔

ایک دفعہ جب میں جون کی تپتی دوپہر میں حیدرآباد سے سانگھڑ جاتے ہوئے اُڈیرو لال کے آستان پر گیا تھا جہاں ہندو اور مسلمان دونوں اس آستان پر عقیدت سے آتے ہیں۔ گزشتہ قسط میں جو پیلو کے درخت کی تصویر آپ نے دیکھی تھی وہ اُس جگہ کی ہے۔ آپ وہاں چلے جائیں جہاں پیلو کو چینی دینے والے پیلو کے نام سے بھی جانتے ہیں کیونکہ اُس گھنے اور وسیع پیلو کے درخت پر سفید پاؤڈر کی تہہ جمتی ہے۔ اُسے چکھو تو معمولی سی مٹھاس محسوس ہوتی ہے۔

اس درخت پر اپنی ناکام تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے یہ رنگین کپڑوں کے ٹکڑے اور ہاتھ سے رنگین کپڑوں کی بنائی تکونی تھیلی جس کے اندر کبھی کپاس یا کچھ اور ٹھونس کر پُھلا دیا جاتا ہے، مقامی اسے ’چَتوں‘ (طوطا) کہتے ہیں۔ یہ آپ کو تقریباً ہر ایسے مقام پر لٹکتے ہوئے ملیں گے۔

   اُڈیرو لال میں پیلو کا درخت جس پر خواہشات کی تکمیل کے لیے رنگین کپڑے اور چتوں باندھے جاتے ہیں—تصویر: لکھاری
اُڈیرو لال میں پیلو کا درخت جس پر خواہشات کی تکمیل کے لیے رنگین کپڑے اور چتوں باندھے جاتے ہیں—تصویر: لکھاری

وہاں سے ہوتے ہوئے میں سیہون شہر سے پہلے لکی پہاڑیوں میں لکی کے گندرفی چشموں پر گیا تھا۔ جلد کی بیماری کی صورت میں مرد، عورتیں اور بچے وہاں دور دور سے آتے ہیں۔ وہاں اگر آپ جائیں تو آپ کو دیویوں کے درختوں پر یا جھاڑیوں پر رنگین دھاگے بندھے ہوئے ملیں گے۔ یہ عمل اور کوششیں مجبوری اور بے بسی میں ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہیں کیونکہ انسان اپنی زندگی میں محرومیوں کی ایک کائنات لیے ہوئے ہے۔ زندگی اتنی خوبصورت ہے نہیں جتنی ہمیں 70 انچ کی ایل ای ڈی ٹیلی ویژن اسکرین پر نظر آتی ہے۔ زندگی انتہائی مشکل ہے۔ اگر اس ذہنی دباؤ سے چھٹکارا حاصل نہ کیا جائے تو انسان پاگل ہوجائیں۔

   اینیمیزم
اینیمیزم

ہم گزشتہ قسط میں جس روحانیت (animistic) اور عقائد کی بات کر رہے تھے، وہ ہزاروں برسوں سے ہمارے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں سفر کر رہے ہیں۔ یہ رنگین کپڑوں کے ٹکڑے اور دھاگے اُس اعتقاد کے ہیں جن کی جڑیں ہم ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بھروسے کو آپ عام کیفیت میں بالکل بھی نہ لیں، یہ ارتقائی انسان کے سرشت میں بستا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سر جیمز جارج فریزر ’شاخ زریں‘ جیسی کتاب کبھی تحریر نہیں کرتا اور ہم بھی اپنے اطراف میں پھیلے ہوئے تاریخی قبرستانوں کی قدامت جاننے کے لیے تگ و دو میں مصروف نہیں ہوتے۔

ہمارے پاس ہمارے ابتدائی پُرکھوں کے سماجی و سیاسی عوامل کے متعلق معلومات بہت ہی کم ہے مگر جتنی بھی ہے وہ بہت اہم ہے۔ جیسے 1955ء میں ماسکو سے 200 کلومیٹر مشرق سنگیر (Sunghir) نامی جگہ پر عمرانیات کے ماہروں نے ایک 34 ہزار برس قدیم یعنی (Upper Paleolithic) زمانے کا قبرستان کھوجا جو عظیم الحبثہ جانوروں کے شکاریوں کا معاشرہ تھا. ان کو کھدائی کے دوران ایک قبر میں 50 سالہ آدمی کا ڈھانچہ ملا جسے ہاتھیوں کے دانتوں سے بنائے گئے موتیوں سے ڈھانپا گیا تھا۔ سب ملا کر کوئی 30 ہزار موتی تھے، اس مردہ آدمی کہ سر پر ٹوپی تھی جسے لومڑی کے دانتوں سے مزین کیا گیا تھا اور اس کی کلائی کی جگہ پر 25 ہاتھی کے دانت کے کنگن تھے۔

    سنگیر سے ملا ڈھانچہ جو ہاتھی دانت کے موتیوں میں لپٹا ہوا ہے
سنگیر سے ملا ڈھانچہ جو ہاتھی دانت کے موتیوں میں لپٹا ہوا ہے

محققین کے مطابق، سنگیر میں ہاتھی نما جانوروں کے شکاری ایک طبقاتی معاشرے کے شہری تھے۔ یہ ڈھانچہ قبیلے کے سربراہ کا ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی گروہ کے چند درجن اراکین نے قبر کے لیے اتنی اشیا تنہا تیار کی ہوں گی۔ اس سے ہم یہ اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ 50 برس کا یہ انسان اپنے گروہ میں ضرور کوئی خاص اہمیت رکھتا ہوگا اور یہ بھی کہ انسانی معاشرے کی بنیادیں پڑ رہی تھیں اور ہمارے آباواجداد تعظیم دینے کے ابتدائی سبق سیکھ رہے تھے۔

   انسانی ارتقا کا سفر
انسانی ارتقا کا سفر

اب تھوڑا سا آگے بڑھتے ہیں یعنی 9 یا 10 ہزار برس پہلے جب کسی محترم اور معتبر مانے جانے والے وجود یا مرحوم کے لیے یادگاریں تعمیر ہونے لگی تھیں۔ گوبیکلی تیپے کے آثار ہمارے لیے اہم اس لیے ہیں کیونکہ یہ زرعی انقلاب سے پہلے کے ہیں۔ زرعی انقلاب موجودہ انسان کے لیے کتنا بھی اہم سمجھا جائے مگر گندم نے انسان کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی ہے۔ وہ خانہ بدوشی کو چھوڑ کر کھیتوں کے قریب بستیاں بنانے لگا۔

    زرعی انقلاب سے پہلے گوبیکلی تیپے پر پرندوں، جانوروں اور حشرت کی سنگ تراشی
زرعی انقلاب سے پہلے گوبیکلی تیپے پر پرندوں، جانوروں اور حشرت کی سنگ تراشی

    گوبیکلی تیپے پر تراشے گئے جانوروں کی تصویر
گوبیکلی تیپے پر تراشے گئے جانوروں کی تصویر

گوبیکلی تیپے (Gobekli Tape) کے آثار جنوب مشرقی ترکیہ میں ہیں۔ یہ کھدائی آثار قدیمہ کے ماہرین نے 1995ء میں کی تھی۔ ان آثار کے سب سے قدیم حصے کی کھدائی میں انہیں دیہات، مکانات یا روزمرہ زندگی کی کوئی باقیات نہیں ملیں لیکن انہیں وہاں دیو ہیکل ستون ضرور ملے جن پر انتہائی خوبصورت نقوش کھدے ہوئے تھے۔

پتھروں سے بنا ہر ستون تقریباً 7 ٹن وزنی تھا اور اونچائی میں 5 میٹر کے قریب تھا۔ ایک اور گہرائی میں ان کو ایک 50 ٹن وزن رکھنے والا ستون ملا، یہاں انہیں 10 دیو ہیکل تعمیرات ملیں جن میں سب سے بڑی 20 میٹر پر محیط تھی۔ گوبیکلی تیپےکی تعمیرات ساڑھے 9 ہزار سال قدیم تھیں اور وہاں موجود شواہد یہ بتا رہے تھے کہ یہ خانہ بدوشوں شکاریوں کے بنائے ہوئے ہیں۔

   گوبیکلی تیپے
گوبیکلی تیپے

ابتدا میں اس حقیقت کو کچھ آثار قدیمہ کے ماہرین نے ماننے سے انکار کردیا مگر پھر کاربن اور دیگر ٹیسٹ سے ان تعمیرات کے متعلق جو بات کہی گئی تھی وہ درست ثابت ہوئیں کہ ان تعمیرات کے خالق قبل از زراعت معاشرے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان قدیم خانہ بدوشوں کی اہلیت اور ان کی ثقافت کی پیچیدگی ہماری توقعات سے بہت زیادہ تھی۔ آپ سوچیں ایک متلاشی معاشرہ اس قسم کی تعمیر کیوں کرے گا؟ اور کس مقصد کے لیے کرے گا؟

یہ اُن کا ایسا ثقافتی مصرف تھا جس کو آثار قدیمہ والے سمجھنے سے قاصر رہے ہیں مگر اس اسٹرکچر کو بنانا، اُن کے لیے انتہائی اہم رہا ہوگا جس پر اتنی محنت، وسائل اور خوراک صرف ہوئی۔ ہزاروں برس پہلے ہمیں یہاں قبیلوں میں باہمی تعاون نظر آتا ہے اور یہ یقیناً ایک مذہبی یا اعتقادی نظام ہی اس طرح کی کوشش کی بنیاد ہوسکتا ہے۔

یہ کسی بھی ان دیکھی روح کے لیے سب سے بڑا معبد تھا جسے تعظیم اور احترام کے لیے پتھر کے ستونوں پر سنگ تراشی کرکے بنایا گیا۔ اس سنگ تراشی میں جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کی تصویروں کو تراشا گیا ہے یعنی وہ جو ان کے آس پاس موجود تھے۔ مگر یہ کیوں تراشے گئے ابھی اسراروں کی دبیز چادر میں چھپا ہوا ہے۔

گوبیکلی تیپے کو ترکیہ اور ایران میں ملے قدیم قبرستانوں کی پہلی بنیاد سمجھنا چاہیے بلکہ بلوچستان اور سندھ میں جو شاندار چوکنڈی طرز کے قبرستان بنے ہیں اور یہ قبرستان جنگوں میں مارے جانے والوں کے قبرستان ہیں جو خانہ بدوش قبیلوں نے ہی بنایا ہے۔ ان قبرستانوں کی جڑیں ہمارے مغرب میں گوبیکلی تیپے سے جوڑی جا سکتی ہے۔

یہ ایک مختصر سی ارتقائی انسان کے ذہنی ارتقا کی کہانی تھی جس کو ہم تقریباً 9 ہزار برس پہلے تک تو شواہد کے ساتھ لے آئے ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مصر کے بادشاہوں نے دولت کا بہت بڑا حصہ اہراموں کی تعمیر کروانے اور لاشوں کو حنوط کرنے پر کیوں لگادیا؟ یا یہ کچھی سوچا کہ بادشاہ اپنے مرنے سے پہلے اپنے شاندار مقبروں پر بے تحاشا رقم کیوں خرچ کرتے ہیں؟ شاہ جہان نے ممتاز کے لیے تاج محل بنانے پر اتنی رقم کیوں لُٹادی جبکہ مرنے کے بعد سب ختم ہو جانا ہے؟

یا ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کی ٹھٹہ میں مرزا عیسیٰ خان دوم نے اپنے شاندار مقبرے کے حصے گجرات میں بنوائے اور پھر وہاں سے یہاں مکلی میں لا کر ان کو مقبرے کی صورت میں کھڑا کردیا بلکہ اس دوران دو دفعہ مرزا اپنی اُس قبر کو بھی دیکھنے آیا تھا جہاں اسے دفن ہونا تھا۔ آپ کو پتا ہے اتنا مہنگا مقبرہ اور اس کے لیے اتنی تگ و دو کا آخر کیا مطلب نکلتا ہے؟

تو کیا اس وقت آپ کو Gobekli Tape کے آثار کی یاد نہیں آ رہی جسے بنانے کے لیے نہ کسی بادشاہ نے عوام کا استحصال کرکے اُس رقم سے شاندار مقبرہ بنایا تھا۔ یہ تو سب ان ذہنی تخلیق کی کہانی کے اس کردار کے لیے تھا جو انسانوں نے بنایا تھا جیسے سومیر کا ہیرو گل گامش کا کردار۔ یہ مہنگی، وسیع اور حیرت انگیز تعمیرات عام آدمیوں کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ یہ ہیروز کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ ہیرو عوام کا بھی ہوسکتا ہے، ایک بادشاہ کا بھی اور خود بادشاہ بھی خود کو ہیرو سمجھے تو یہ تعمیرات اُن کے لیے بھی بن جاتی ہے۔

   میتھالوجی، ایک تصوراتی کائنات جہاں سارا کچھ ممکنات کے دائرے میں ہے
میتھالوجی، ایک تصوراتی کائنات جہاں سارا کچھ ممکنات کے دائرے میں ہے

ہم 9 ہزار برس پہلے سے چھٹی اور پانچویں قبل مسیح تک ایک چھلانگ لگاتے ہیں۔ چھٹی اور پانچویں صدی قبل مسیح میں مصر سے عراق تک لاکھوں افراد پر مشتمل آبادیاں دیہات پر پھیل گئیں۔ تقریباً تین ہزار قبل مسیح میں تین نیم اساطیری اور نیم تاریخی داستانیں ہمیں ملتی ہیں جن کے تینوں سورما ’ان مے گر‘، ’لُوگل باندہ‘ اور ’گِل گامِش‘سومیر سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ تینوں رزمیہ داستانیں ہیں مطلب یہ جنگی داستانیں ہیں جو ابتدا سے ابھی تک انسان کے ساتھ ساتھ چلی آ رہی ہیں۔

سبط حسن کے مطابق اس قسم کے ہیرو مِتھ تقریباً ہر قدامت رکھنے والی قوم میں ملتے ہیں اور ہر زبان میں موجود ہوتے ہیں جس طرح فردوسی کے شاہ نامے میں رستم، نوشیروان اور سکندر وغیرہ۔ ہومر کی اوڈیسی میں ہیراکلیس، مہابھارت میں ارجن، بھیم اور کرشن اور رامائن میں رام اور لکشمن۔

اظرافیات (Mythology) انسان کی پرواز تخیل کی معراج ہے۔ اس کی سماجی خواہشات کا رنگین مرقع ہے اور اس کی تشنہ تمناؤں کی ذہنی تکمیل ہے۔ متھ کی دنیا اس کی خواہشات کی تابع ہوتی ہے۔ متھ اس کے ہر ارادے کو پورا کر دیتا ہے اور اس ارادے کے راستے میں جو رکاوٹیں آتی ہیں ان کو خیالی طور پر دور کردیتا ہے۔

   گل گامش، عراق کی رزمیہ داستان
گل گامش، عراق کی رزمیہ داستان

ہم بات کو تخت و تاج سے کچھ نیچے اور ایک یا دو ہزار برس کی قدامت تک لے آتے ہیں۔ جہاں گزرے وقتوں میں بُنی ہوئی انسانی تمنائیں آہستہ آہستہ حقیقت کا روپ لینے کے لیے پر تولنے لگتی ہیں۔ لڑنا انسان کے ڈی این اے میں رچا بسا ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی کے راستے پر وہ سفر نہیں کر سکتا۔ یخ بستہ موسم، تیز دھوپ، طوفان، آفات، حملہ آور جانوروں یا دیگر انسانوں سے نہیں بھڑے گا تو انسان زندہ نہیں رہ پائے گا۔ انسان جیسے جیسے وقت کے ساتھ چلتا گیا لڑائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ بلکہ جنگوں کو بہادری سے لڑنے کے لیے ساز ایجاد ہوئے کہ ان کے بجانے سے خون کی گردش تیز ہو اور انسان انسان کے گلے زیادہ سے زیادہ کاٹ سکے۔ اپنے تیروں اور تفنگوں سے زیادہ نقصان پہنچا سکے۔ جنگ کے میدان اتنے سجنے لگے جتنے خوشیوں کے تہوار نہیں سجتے اور جو جیتتا تھا وہی ہیرو ہوتا تھا بلکہ سکندراعظم کے بعد تو جو بھی جیتتا تھا وہ سکندر تھا۔ آج بھی فلموں میں یہی کہتے ہیں کہ جو جیتا وہ سکندر۔

   مہابھارت ہندوستان کی رزمیہ داستان
مہابھارت ہندوستان کی رزمیہ داستان

جن قبرستانوں کا ہم ذکر کرنے والے ہیں وہ قبرستان نہ کسی بادشاہ کی خواہشات کے نخلستان ہیں اور نہ کسی بادشاہ کی تمناؤں کے اہرام۔ یہ اپنوں کی جدائی کے زخم کو تازہ رکھنے کی خواہشات کی تکمیل کے قبرستان ہیں جس طرح اسلام سے پہلے عرب جن لوگوں کی زندگی میں عزت اور محبت کرتے تھے، مرنے کے بعد ان کی قبروں پر پتھر کے ستون گاڑنے کو اہم سمجھتے تھے اور بہادروں کی قبروں پر اونٹ کی قربانی کا رواج تھا۔

قدیم عرب معاشرے کے رسم و رواج کے مطابق مرنے والے کی تدفین کے فوراً بعد جانوروں کی قربانی کی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ جعفر بن اُلبا کے باپ نے اس کی وفات کے بعد اس کے درد میں اپنی ساری اوٹنیاں اور بھیڑیں ذبح کر دیں اور روتے ہوئے کہا ’میرے ساتھ درد بانٹو اور رو‘۔ جعفر کے بچھڑنے کے دُکھ میں اُلبا مسلسل درد کی کیفیت میں مبتلا رہا اور روتا رہا۔

   ڈالمین، قبل مسیح زمانے کی ایک قبر
ڈالمین، قبل مسیح زمانے کی ایک قبر

اسلام سے پہلے عرب خانہ بدوش مرنے والے کی قبر پر چھاؤں کے لیے تنبو لگاتے تھے۔ علی احمد بروہی صاحب لکھتے ہیں، ’اسلام کے ابتدائی زمانے میں یعنی جب کفر کا غلبہ تھا، معزز شخص کی وفات کے بعد اُس کی قبر پر تنبو لگا دیا جاتا تھا اور تدفین کے بعد کچھ وقت وہاں رکنا پڑتا تھا۔

’اس رسم کا ایک بیان ہمیں عرب شاعر ارطاط (Artat) کے حوالے سے ملتا ہے جس نے اپنے بیٹے عامر (Amr) کا سوگ منایا۔ اس نے اپنے بیٹے کی وفات کے بعد اس کی قبر کے قریب تنبو گاڑ کر ایک برس وہاں گزارا۔ ایک برس کے بعد جب اُس کے قبیلے نے دوسری چراگاہ کی تلاش میں چلنے کو کہا تو وہ وہ بہت دکھی ہوا اور قبر پر کھڑے ہوکر بیٹے کو آواز دی کہ ہمارے ساتھ چل!‘

   گھارو سے جنوب میں قبیلائی جنگ میں مارے جانے والوں کا چوکنڈی طرز کا راج ملک قبرستان—تصویر: لکھاری
گھارو سے جنوب میں قبیلائی جنگ میں مارے جانے والوں کا چوکنڈی طرز کا راج ملک قبرستان—تصویر: لکھاری

اپنوں کے بچھڑنے کے درد کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس لیے وہ جو ہمارے ساتھ بڑھا ہوا، جوان ہوا اور پھر کسی جنگ کے میدان میں ہم سے جدا ہوا، اسے نسلوں تک یاد رکھنے کے لیے یہ تنبو گاڑنا ہمیں قبروں یا مقبروں کی ابتدائی شکل کے طور پر تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔ ایران کا قدیم راستہ جو بلوچستان سے گزرتے ہوئے سندھ کے جنوب میں کَچھ اور گجرات تک جاتا ہے اور اس راستے پر جو چوکنڈی طرز کے قبرستان ہیں جنہیں ہم فقط چوکنڈی طرز کے قبرستان کہہ کر گزر نہیں سکتے۔

یہ تراشے ہوئے قبرستان جن پر سنگ تراشی کی صورت میں ان قبروں میں دفن وجود کی کیفیت تراشی گئی ہے۔ یہ ایک ثقافتی ورثہ ہے جو کتنی صدیوں کی پگڈنڈیوں پر سفر کرتا اس حالت میں پہنچا ہے۔ یہ انتہائی شاندار ہے۔ یہ فقط پیلے پتھر کی تعمیرات نہیں ہیں بلکہ اس حیات کے سفر میں بچھڑنے والوں کے لیے ایک اعزاز اور محبت ہے۔ جو ان پتھروں پر بیل بوٹوں اور مختلف مناظر کی صورت میں تراشی گئی ہے۔

ہماری کوشش ہے کہ جاڑے کے ان ٹھنڈے دنوں میں ہم کراچی کے قرب و جوار میں پھیلے قبرستانوں کی تاریخ اور سنگ تراشی کی صورت میں بنے پھول بوٹوں اور شبیہوں کے متعلق جان سکیں۔ اگلے سفر میں ہم کوشش کریں گے کہ ہمارے ساتھ ہینری کزنس، گل حسن کلمتی، علی احمد بروہی اور محترم کلیم اللہ لاشاری بھی ہوں تاکہ وہ وقت پڑنے پر ہماری مدد کر سکیں۔

حوالہ جات

  • ’بندہ بشر‘۔ نوح ہراری۔ مترجم سعید نقوی۔ سٹی بک پوائنٹ، کراچی
  • ’ماضی کے مزار‘۔ سبط حسن۔ مکتبہ دانیال، کراچی۔
  • History on Tombstone Sind and Balochistan. Ali Ahamed Brohi. Culture Department, Karachi.
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔