لاہور کے جنرل پوسٹ آفس کے سامنے میکلوڈ روڈ پر کبھی ٹیلی گراف آفس ہوا کرتا تھا جس کی عمارت شہرِ بے مثل کے بہت سے تاریخی آثار کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ لاہور کا مشہور فوڈ پوائنٹ لکشمی چوک بھی اس میکلوڈ روڈ پر ہے جس کے ایک جانب رائل پارک ہے جو کبھی پاکستان کی فلمی صنعت لالی وڈ کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اب پرنٹنگ پریس لگ چکے ہیں۔ کچھ اور آگے بڑھیں تو شہر کی موٹرسائیکلوں کی سب سے بڑی مارکیٹ آ جاتی ہے۔
پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر ڈونلڈ میکلوڈ کے نام سے منسوب یہ سڑک ماضی کی پرچھائیں بن چکی۔ اس سڑک پر کبھی کشمیر بلڈنگ کے نام سے ایک عمارت ہوا کرتی تھی جس کا پنجاب میں برطانوی راج کے خلاف اُٹھنے والی اُس مزاحمتی تحریک سے اہم تعلق ہے جسے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی موت نے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
بھگت سنگھ اپنی اس جدوجہد میں اکیلے نہیں تھے، چی گویرا بھی اکیلے نہیں تھے اور ماؤزے تنگ بھی اکیلے نہیں تھے بلکہ ان تمام انقلابی شخصیات کے ساتھ کچھ ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ انقلاب کے لیے تیاگ دیا تھا۔ بھگوتی چرن ووہرا بھی ایک ایسے ہی انقلابی تھے۔ والد ریلوے میں اعلیٰ افسر تھے جنہیں برطانوی راج سے وفاداری اور خدمات کے صلے میں ’رائے بہادر‘ کے لقب سے نوازا گیا مگر صاحبزادے باپ کے برعکس اِسی انگریز سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کے علاوہ یہ بھگوتی چرن ووہرا ہی تھے جنہوں نے سوویت یونین کی طرز پر لاہور میں اسٹڈی سرکل شروع کیا اور سال 1926ء میں جب نوجوان بھگت سنگھ نے نوجوان بھارت سبھا قائم کی تو ووہرا اس کے پہلے جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ انگریزوں کے وفادار رائے بہادر کے اس انقلابی فرزند کی شادی چھوٹی عمر میں ہی ریاست گجرات کے ایک برہمن خاندان کی لڑکی دُرگاوتی دیوی سے کر دی گئی تھی جنہوں نے اپنے میکے اور نہ ہی سسرال کی روایات اپنائیں بلکہ اپنے انقلابی شوہر کے شانہ بشانہ بھگت سنگھ کے ہراول دستے کا حصہ بن گئیں۔
ذکر نوجوان بھارت سبھا کا ہو رہا تھا تو جلد ہی یہ تنظیم ہندوستان ریپبلکن آرمی میں ضم ہوکر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک ایسوسی ایشن (ایچ آر ایس اے) بن گئی اور بھگوتی چرن ووہرا اس کے پروپیگنڈا سیکرٹری بنائے گئے تو تنظیم کا دستور بھی انہوں نے ہی لکھا۔ سال 1928ء میں ایچ آر ایس اے کے قیام کے بعد بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے پہلی کارروائی انگریز پولیس افسر جان پی سینڈرز کو قتل کر کے کی۔ وہ اگرچہ ایس پی جیمز اسکاٹ کو قتل کرنا چاہتے تھے جسے وہ لالہ لاجپت رائے کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے تھے مگر بھگت سنگھ اور راج گرو کی گولیوں کا نشانہ اُس کا اسسٹنٹ جے پی سانڈرز بن گیا جس کے بعد برطانوی حکام کسی بھی صورت میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ ووہرا بھی روپوش ہو چکے تھے۔
آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ کشمیر بلڈنگ کا ذکر کہاں سے کہاں نکل گیا تو ذرا دھیرج رکھیے۔ بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کے لیے لاہور میں چھپے رہنا مشکل ہوگیا۔ پولیس ان کے تعاقب میں تھی تو انہوں نے ووہرا کے گھر کا رخ کیا اور دُرگاوتی دیوی جو دُرگا بھابھی کے نام سے جانی جاتی تھیں، سے مدد کی درخواست کی۔
سکھ دیو نے دُرگاوتی دیوی سے 500 روپے ادھار لیے جو اُن کے شوہر نے اسی مقصد سے انہیں دیے تھے۔ پیسوں کا مسئلہ حل ہوا تو انہوں نے دُرگا سے کہا کہ ’کچھ لوگوں کو لاہور سے باہر لے جانا ہے۔ کیا آپ اُن کے ساتھ جا سکتی ہیں؟‘ درگا راضی ہوگئیں تو یوں لاہور سے فرار کا ایک ایسا منصوبہ بنا جس نے انگریز افسروں کو چکرا دیا۔
یہ 20 دسمبر کا ایک سرد دن تھا جب بھگت سنگھ ایک افسر کی طرح تانگے میں سوار بھگوتی چرن ووہرا کے گھر کی جانب گامزن تھے۔ وہ اوور کوٹ میں ملبوس تھے اور انہوں نے اس کا کالر اونچا کر رکھا تھا تاکہ شناخت ممکن نہ ہوسکے۔
پروفیسر مالویندر جیت سنگھ وڑائچ معروف ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ انہوں نے غدر تحریک کے علاوہ بھگت سنگھ پر مصدقہ تاریخی حوالوں سے بہت سا اہم کام کیا ہے جس کے لیے انہوں نے ان انقلابی تحریکوں میں شامل رہنے والے حقیقی کرداروں سے طویل انٹرویو کیے۔ وہ اپنی کتاب ’بھگت سنگھ، دی ایٹرنل ریبل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’لاہور ریلوے اسٹیشن پر اتنی پولیس تھی کہ قلعہ لگنے لگا تھا۔ اس سفر کے لیے بھگت سنگھ کا نام رنجیت اور درگا کا نام سجاتا رکھا گیا‘۔
معروف صحافی کلدیپ نیئر نے اپنی کتاب ’ودآؤٹ فیئر، دی لائف اینڈ ٹرائل آف بھگت سنگھ‘ میں فرار کی اس کہانی کو یوں بیان کیا ہے، ’ان دنوں ہر فرسٹ کلاس مسافر کو ٹرین میں سوار ہونے سے قبل اپنا نام بتانا پڑتا تھا۔ بھگت سنگھ نے ٹکٹ چیکر کو اپنا نام بتانے کی بجائے ٹکٹ دکھا دیا۔ ’جب یہ لوگ اپنے ڈبے میں پہنچے تو وہاں موجود ایک پولیس والے نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی کہ ’یہ صاحب لوگ ہیں جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ راج گرو ان کے نوکر کے طور پر تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے تھےدہرادون ایکسپریس کچھ دیر میں لاہور اسٹیشن سے روانہ ہوئی۔ وہ ان انگریز افسران کے درمیان سے نکل گئے جو پلیٹ فارم سے ٹرین میں سوار اپنی بیویوں اور بچوں کو رومال لہرا رہے تھے۔
’بھگت سنگھ اور دُرگا کولکتہ (کلکتہ) پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر بھگوتی چرن ووہرا بھی موجود تھے جو مفرور تھے اور ریلوے قلی کے لباس میں ملبوس تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو اس روپ میں دیکھا تو بے اختیار کہہ اُٹھے، ’دُرگا، آج تمہیں پہچان گیا۔‘
یہ مگر دُرگا کی کہانی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ووہرا کی کہانی بھی نہیں ہے جن پر اُن کے ساتھی انقلابی یہ شبہ کرتے تھے کہ وہ سی آئی ڈی کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ وہ دمِ آخر تک اپنی کاز کے ساتھ منسلک رہے۔ یہ کہانی تو اس کمرے یا اپارٹمنٹ کی ہے جہاں کبھی بم بنا کرتے تھے۔
حیران مت ہوئیے! یہ کوئی سرکاری آرڈیننس فیکٹری نہیں تھی بلکہ انگریزوں کے خلاف مزاحمت کے لیے کشمیر بلڈنگ کے کمرہ نمبر 69 میں بم بنائے جاتے تھے جو ووہرا اور دُرگا نے سال 1929ء میں کرائے پر لیا تھا۔ یہ اُن دو بم فیکٹریوں میں سے ایک تھی جو ایچ آر ایس اے نے لاہور اور سہارن پور (انڈیا) میں قائم کی تھیں۔
آج سے تقریباً ایک صدی قبل لاہور کے گنجان آباد علاقے میں بم فیکٹری ہونے کے خیال سے ہی جسم میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ ایک گھر میں جہاں میاں بیوی اور ایک بچہ رہ رہا ہو، وہاں بم تیار کیے جا رہے ہوں؟ اور طاقتور ترین برطانوی راج کے خلاف انقلاب کے خواب آنکھوں میں خواب سجائے کچھ جواں عزم نوجوان جمع ہوتے ہوں؟
کہانی کی طرف واپس آئیں تو کچھ ہی ماہ کے وقفے کے بعد 8 اپریل 1929ء کو بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھی بٹوکیشور دَت نے دارالحکومت دہلی میں قانون ساز اسمبلی میں بم پھینکے اور ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے بلند کیے۔ یہ بم لاہور کی اسی فیکٹری میں تیار ہوئے تھے۔ قصہ مختصر جب یہ بم پھینکے گئے تو اس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری تھا، بم پھٹنے سے عمارت میں دھواں بھر گیا مگر اس کے باوجود دونوں انقلابی اپنی جگہ پر کھڑے نعرے بلند کرتے رہے اور انقلاب سے متعلق پمفلٹ پھینکتے رہے۔ بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھ بٹوکیشور دَت تو گرفتار ہوگئے مگر انقلابی لہر پر قابو پانا انگریز راج کے لیے دردِ سر بنا رہا۔
ووہرا اپنے فرار کے دنوں میں کلکتہ میں اپنے ساتھی انقلابی جتندر ناتھ داس سے بم بنانے کے طریقوں میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔ یہ وہ جتندر ناتھ داس ہی ہیں جو 64 روز تک بھوک ہڑتال پر رہنے کے بعد 23 نومبر 1929ء کو لاہور کی جیل میں چل بسے تھے جن کے جنازے کے جلوس کی قیادت درگاوتی دیوی نے کی تھی۔ اور یوں ووہرا اب صرف نظریہ ساز نہیں رہے تھے بلکہ بم بنانے لگے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں سکھ دیو اور کچھ دوسرے ساتھی بھی آ ملے اور یوں یہ چھوٹا سا کمرہ انقلابی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا جہاں یہ تمام لوگ بم بنایا کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ لیجنڈ موسیقار خواجہ خورشید انور بھی ان میں شامل تھے جو اکثر کمرہ نمبر 69 میں پائے جاتے۔ وہ اپنے کالج سے بم بنانے کے لیے کیمیکل بھی چُرایا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لاہور سازش کیس میں گرفتار بھی ہوئے تھے اور انہوں نے چار پانچ ماہ جیل بھی کاٹی تھی مگر بعدازاں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔
اس دوران 23 دسمبر 1929ء کو وائس رائے لارڈ ارون کو نشانہ بنانے کے لیے دہلی آگرہ ریلوے لائن پر بم دھماکا کیا گیا جس میں لارڈ ارون بہ مشکل ہی بچ سکے۔ کانگریس کے موہن داس کرم چند گاندھی نے اس بم حملے کے ناکام ہونے پر شکر ادا کرتے ہوئے ’دی کلٹ آف بم‘ کے نام سے ایک مضمون بھی لکھا جس کا جواب ووہرا نے چندر شیکھر آزاد کی مشاورت سے اپنے ایک مضمون ’بم کا فلسفہ‘ میں دیتے ہوئے نوجوانوں سے اپنے ساتھ شامل ہونے کی اپیل کی۔
انہوں نے اپنے اس خط میں لکھا تھا کہ ’کوئی ایسا جرم نہیں ہے جو برطانوی راج نے انڈیا میں روا نہ رکھا ہو۔ اس کی دانستہ بدانتظامی نے ہمیں بدحال کردیا ہے اور ’لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے۔ ایک نسل اور ایک قوم سے ہونے کی بنا پر ہم پر یہ ظلم کیا جا رہا ہے اور ہماری تذلیل ہو رہی ہے۔ کیا لوگ اب بھی ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم (یہ سب) بھول جائیں اور معاف کر دیں؟ ہم اپنا بدلہ لیں گے۔ جابر قوت کے خلاف قوم کا جائز انتقام۔ بزدل ایک طرف ہو جائیں اور سمجھوتے اور امن کے لیے جھک جائیں۔ ہم نہ رحم کی درخواست کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو معاف کریں گے۔ یہ کامیاب ہونے یا موت سے ہمکنار ہونے تک ہماری اپنی جنگ ہے‘۔
اس پوری کہانی میں بارہا کشمیر بلڈنگ اور کمرہ نمبر 69 کا ذکر ہوا تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ عمارت کہاں پر واقع تھی؟ مصنف نے کئی برس قبل جب اس بارے میں تحقیق شروع کی تو اس عمارت کے بارے میں معلوم کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس سڑک پر اس نام کی کوئی عمارت موجود نہیں ہے۔ یہ تلاش بہرحال شہرِ بے مثل کی تاریخ کے ایک اہم مرکز لاہور ہوٹل کی عمارت تک لے گئی جس کا نام ماضی میں کشمیر بلڈنگ رہا ہے اور اپارٹمنٹ یا کمرہ نمبر 69 اسی کا حصہ تھا جو کئی مہینوں تک لاہور میں زیرِزمین انقلابی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔
تقسیم کے بعد سال 1952ء میں کشمیر بلڈنگ کو ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا۔ سال 1988ء میں اس تاریخی عمارت کو منہدم کر کے شاپنگ پلازہ اور ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس وقت یہ لاہور میں پرانی موٹرسائیکلوں کی خریدو فروخت کا اہم مرکز ہے جبکہ بالائی منزل پر اب بھی ہوٹل قائم ہے۔
اے حمید اُردو کے بے مثل افسانہ نگار ہیں۔ وہ لاہور پر کالم بھی لکھتے رہے۔ وہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ’لاہور ہوٹل میں دو کاروبار ہوتے تھے، ایک تو پارسی لانڈری تھی جہاں کاؤنٹر کے دوسری جانب ایک معزز پارسی پٹنوں والے کوٹ اور گول سیاہ ٹوپی میں ملبوس کام میں مصروف ہوتے۔ لانڈری کے ساتھ ہی پرانی کتابوں کی ایک دکان تھی جو پاکستان بننے سے پہلے کی تھی اور یہاں سے مختلف غیرملکی زبانوں کی کتابوں کے اُردو تراجم، سوانح عمریاں، سفرنامے، تنقیدی مضامین اور شاعری کے مجموعے ارزاں قیمت میں مل جاتے تھے۔
’سال 1947ء سے قبل میں نے ایک بار سنیاسی مصنف دیوندر ستیارتھی کو کتابوں کی ورق گردانی کرتے دیکھا تھا۔ میں اُن کو (رابندر ناتھ) ٹیگور کی طرح کی داڑھی کی وجہ سے پہچان گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے دو آنے میں اس دکان سے ’دی ایپل ٹری‘ نامی ناول خریدا تھا‘۔
یہ عمارت لاہور کے مشہور کشمیری خاندان کی ملکیت ہے جس نے تقسیم سے قبل لاہور آسٹریلایشیا بینک بھی قائم کیا تھا۔ یہ برصغیر کے اُن ابتدائی خاندانوں میں سے ایک ہے جس نے 20ویں صدی کے اوائل میں آسٹریلیا کا رخ کیا تھا اور میکلوڈ روڈ پر قائم مشہور آسٹریلیا مسجد بھی اسی خاندان نے تعمیر کروائی تھی۔ یہ خفیہ فیکٹری مگر زیادہ عرصہ انگریز حکام کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی اور جلد ہی انگریز سپاہی انقلابیوں کی تلاش میں یہاں پہنچ گئے۔ سکھ دیو اور ان کے دیگر ساتھی گرفتار کر لیے گئے۔
معروف مصنف اور تاریخ دان بخشش سنگھ نجر لکھتے ہیں کہ ’سکھ دیو نے لاہور کی کشمیر بلڈنگ میں بم فیکٹری بنائی تھی۔ ایک روز اُن کے ساتھیوں میں سے ایک پنڈٹ کشوری لال پر پولیس کو شبہ ہوا جو کارتوس لے کر جا رہے تھے تو پولیس نے اُن کا تعاقب کیا اور یوں اُن کو فیکٹری کے بارے میں معلوم ہوگیا۔ یہ ویسے ہی کارتوس تھے جو مرکزی اسمبلی میں ہونے والے بم دھماکے میں استعمال ہوئے تھے اور اس کے بعد کئی گرفتاریاں عمل میں آئیں‘۔
ٹرائل کا آغاز 10 جولائی 1929ء کو ہوا جس میں 32 لوگوں کو ملزم قرار دیا گیا جن میں سے 7 وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ آزاد، ووہرا اور ان کے دیگر آٹھ ساتھی گرفتار نہیں ہو سکے تھے جنہیں مفرور قرار دے دیا گیا۔ آزاد نے بعدازاں 27 فروری 1931ء کو الہٰ آباد میں پولیس کے ساتھ ہونے والے طویل مقابلے میں خود کو گولی مار لی جبکہ تین مارچ 1931ء کو سکھ دیو، راج گرو اور بھگت سنگھ کو لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
دوسری جانب ووہرا اپنی جدوجہد میں مصروف رہے۔ وہ اس پورے عرصے کے دوران زیرِزمین سرگرمیوں میں مصروف رہے اور بم بنانے کی جستجو کرتے رہے جنہیں وہ اپنے پابندِ سلاسل ساتھیوں کو آزاد کروانے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر اُن کی اس جدوجہد کا المناک اختتام ہوا جب 28 مئی 1930ء کو دریائے راوی کے کنارے گہرے جنگل میں بم کی جانچ کرتے ہوئے وہ حادثاتی طور پر قبل از وقت پھٹ گیا اور ووہرا کی موقع پر موت ہو گئی۔
موت سے قبل ووہرا کے آخری الفاظ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو گئے۔ انہوں نے کہا، ’یہ موت اگر دو دن بعد آتی تو میں مرنے سے قبل زیادہ کامیابی حاصل کرتا۔ میری یہ خواہش اب تشنہ رہ گئی ہے‘۔
دوسری جانب دُرگاوتی دیوی نے ووہرا کی موت کے بعد دوبارہ شادی نہیں کی۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد اترپردیش کے شہر غازی آباد میں گوشہ نشین ہوگئیں۔ انہوں نے غریب بچوں کے لیے اسکول کھولا اور خاموش زندگی گزار کر اکتوبر 1999ء میں چل بسیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں نے لاہور کے کمرہ نمبر 69 سے ہندوستان پر حکمران انگریز استعمار سے آزادی کی جنگ لڑی تھی مگر لاہور تو ہر گزرتے برس کے ساتھ اپنے ماضی، اپنی تابناک تاریخ سے دور ہوتا جا رہا ہے اور آج اس شہرِ بے مثل میں ایسی کوئی یادگار نہیں جو غیرمنقسم ہندوستان کی انقلابی تاریخ کے اس باب کی یاد دلاتی ہو۔