کیا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے؟
دونوں فریقین بلآخر مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دونوں اپنے سخت مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں۔ لیکن ابھی مذاکرات کی شرائط واضح نہیں ہوسکی ہیں۔
اگرچہ دونوں فریقین نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی ہے لیکن اب تک ایجنڈا واضح نہیں ہے۔ توقع ہے کہ جمعرات کو ہونے والی نشست میں پی ٹی آئی اپنا ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ پیش کرے گی۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ اپنے محدود مینڈیٹ کے ساتھ حکمران جماعت انہیں کیا پیشکش کرسکتی ہے۔ اصل طاقت یا اختیارات تو کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔
لگتا ہے کہ جن کے پاس طاقت ہے وہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت آگے بڑھانے کے لیے پہلے ہی اپنی شرائط طے کرچکے ہیں۔ اس سے دونوں جماعتوں کے درمیان معنی خیز مذاکرات کے لیے گنجائش کم ہوچکی ہے۔ ایسے میں وہ مذاکرات کے ادوار میں صرف آپس میں گفتگو کریں گے۔ سال نو کی شروعات کے ساتھ بڑے مسئلے کو حل کیے بغیر سیاسی تعطل کو کم کرنے کی امید انتہائی کم ہے۔ ملک میں آمرانہ طرزِ حکمرانی کے بڑھتے ہوئے سایوں میں جمہوریت کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔
بظاہر تو ملک میں عوامی حکومت ہے لیکن طاقت کا مرکز سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ مشکوک قانونی حیثیت رکھنے والی عوامی حکومت اقتدار میں رہنے کے لیے غیرجمہوری قوتوں کی محتاج ہے۔ صرف چرایا ہوا مینڈیٹ نہیں بلکہ آئینی ترامیم نے بھی جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا۔ کیا ان اہم مسائل کو حل کیے بغیر دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان معنی خیز مذاکرات ہوسکتے ہیں؟
یہ پہلا موقع ہے جب پی ٹی آئی کی قیادت حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہوئی ہے تو یقیناً برف پگھلی ضرور ہے۔ اپوزیشن جماعت ایک قدم پیچھے ہٹی تو حکمران جماعت کا بھی اس حوالے سے مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے اپنی کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں جن کے درمیان اس ہفتے بات چیت کے آغاز کی توقع ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت 26 نومبر کے اسلام آباد واقعے کے چند ہفتوں بعد ہوئی ہے جس میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکنان جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے۔ اس پُرتشدد واقعے نے سیاسی کشیدگی میں اضافہ کیا تھا اور اس واقعے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
دوسری جانب فوجی عدالتوں نے 9 مئی واقعے میں ملوث 85 مجرمان کو مختلف سزائیں سنا دی ہیں۔ اس روز پی ٹی آئی کے حامیوں نے ملک بھر میں فوجی تنصیبات کو حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ متنازع فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے مشروط اجازت کے بعد دیا گیا کیونکہ عدالت عظمیٰ میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی قانونی حیثیت سے متعلق مقدمہ زیرِ التوا ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو سزائیں اور پارٹی میں بڑھتی اندرونی چپقلش سے شاید قیادت تناؤ کا شکار ہے لیکن حکومت کے لیے بھی فضا تنگ ہو رہی ہے کیونکہ اسے عام شہریوں کے فوجی عدالت میں ٹرائل پر بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے جس کے باعث دونوں فریقین بات چیت شروع کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ سے سول انتظامیہ کے لیے ماحول مزید تنگ ہوتا۔ البتہ یہ تو یقینی ہے کہ عوامی حکومت آزاد نہیں ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی کی شرائط و مطالبات سامنے نہیں آئے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے کچھ نکات بتا دیے ہیں جن میں عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی رہائی کے علاوہ 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن کے قیام بھی شامل ہوں گے۔ یہ تو واضح ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی توثیق کے بنا حکومت ان مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گی۔
کچھ وفاقی وزرا نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ حکومت کے پاس فیصلے کرنے کے انتہائی محدود اختیارات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بالخصوص 9 مئی واقعے کے بعد جو سخت مؤقف اختیار کیا گیا، اس کی وجہ سے یہ انتہائی مشکل ہے کہ حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کے مطالبات کو تسلیم کرے۔
ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دفاعی تنصیبات پر حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کا بھی فوجی ٹرائل چاہتی ہے۔ ان میں عمران خان بھی شامل ہوسکتے ہیں جن پر پہلے ہی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ حالیہ بیان میں آئی ایس پی آر کے ترجمان نے حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث افراد کے ٹرائلز پر اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف کو دہراتے ہوئے اس عمل کے غیر منصفانہ ہونے کے الزامات کو یکسر مسترد کیا۔
ان کے ریمارکس نے پی ٹی آئی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف میں کسی طرح کی لچک ظاہر نہیں کی۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’میں یہ سوال بھی کرتا ہوں کہ اگر کوئی جماعت اپنے گمراہ کن نظریے پر بضد اور اپنا بیانیہ مسلط کرنے پر مصر ہے تو پھر ان سے بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘
بات چیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’اگر اس طرح کے مسائل کا حل بات چیت میں ہوتا تو پوری دنیا کی تاریخ میں جنگیں، تنازعات، لڑائیاں یا مہم جوئی نہ ہوتی‘۔ ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ سیاسی مذاکرات کو جنگی صورت حال سے بھلا کیسے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اتحاد مذاکرات میں اپوزیشن کو کوئی بھی اہم چیز کیسے پیش کرسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی محاذ آرائی کی سیاست سے کوئی اتفاق نہیں کرسکتا لیکن 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ غلط بھی نہیں۔ عام لوگوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا اور تشدد کا ذمہ دار کون تھا۔
یہ بھی ایک جائز مطالبہ ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے سے بغیر کسی فردِ جرم کے جیلوں میں قید سیاسی رہنماؤں کو رہا کیا جائے یا انہیں منصفانہ ٹرائل فراہم کیا جائے۔ یہ پیشگی اقدامات مذاکرات کو جاری رکھنے اور سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سے ملک کا بنیادی سیاسی مسئلہ تو حل نہیں ہوسکتا لیکن بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں جمہوری عمل کو بچایا جائے جو عملی طور پر غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ اگر ریاست اور جمہوری اداروں کو کمزور کیا جائے تو کسی قسم کے استحکام کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات ہی ملک کو اس دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے فوری طور پر نمٹا جانا چاہیے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔