سالنامہ: کھیلوں کی دنیا میں سال 2024ء ارشد ندیم کے نام رہا
سال ختم ہونے کو ہے تو اس دوران سوچا جاتا ہے کہ اس سال ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ کیا کیا سوچا تھا اور پھر کیا کیا حاصل کرپائے اور پھر اسی کو دیکھتے ہوئے اگلے سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں کئی دہائیوں سے کھیلوں کی بات کی جائے تو اس سے عموماً مراد کرکٹ سے ہی لی جاتی ہے۔ ہاکی جو ہمارا قومی کھیل ہے اور کسی زمانے میں ہاکی میں پاکستانی ٹیم چھائی ہوئی تھی، اسکواش کہ جو جہانگیر اور جان شیر کا ہی دوسرا نام تھا لیکن اب بہت سال گزرے کہ کرکٹ کے علاوہ تمام کھیلوں کو پاکستانی قوم بھول چکی ہے۔ پاکستان میں کھیلوں کے اعتبار سے سال 2024کچھ مختلف تھا۔
اس سال ہاکی میں پاکستانی ٹیم اذلان شاہ کپ کے فائنل میں پہنچی، نیشنز کپ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی، ایشین چمپئنز ٹرافی میں تیسری پوزیشن حاصل کی، جونیئر ایشیا کپ میں فائنل میں پہنچی اور اگلے سال ہونے والے جونیئر ہاکی ورلڈ کپ میں جگہ بنا لی۔
حیدر علی جو اس سے پہلے 2020ء پیرالمپکس میں گولڈ 2016ء میں برانز اور 2008ء میں سلور میڈل جیت چکے ہیں، 2024ء پیرالمپکس میں پاکستان کے لیے برانز میڈل حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
ایشین ٹیم اسکواش چیمپیئن شپ میں پاکستانی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی لیکن ورلڈ ٹیم اسکواش چیمپیئن شپ میں 16ویں پوزیشن ہی حاصل کرسکے۔ ساتھ ہی اسکواش میں ناصر اقبال، عاصم خان، حمزہ خان، احسن ایاز اور جونیئر میں حذیفہ شاہد کئی انفرادی کامیابیاں سمیٹتے رہے۔
والی بال میں اس سال پاکستان نے سینٹرل ایشین والی بال چمپیئن شپ جیتی۔ ایشین والی بال کانفیڈریشن چیلنج کپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی، اپنے سے بہتر رینکنگ والی آسٹریلیا کی ٹیم کو کلین سویپ شکست دی، انڈر 18 ٹیم نے سینٹرل ایشین چمپیئن شپ جیتی، انڈر 18 ایشین والی بال چمپئین شپ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
فٹبال میں پاکستانی ٹیم اس بار کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن ابھی تو فٹبال ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے دوسرے مرحلے تک پہنچنا ہی بڑی بات تھی۔ سعودی عرب اور دوسری بڑی ٹیموں کا پاکستان میں آ کر کھیلنا، نتائج کا پہلے سے پتا ہونے کے باوجود ہزاروں تماشائیوں کا جناح اسٹیڈیم تک پہنچنا بھی بتاتا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کا کتنا شوق ہے۔
لیکن پاکستان کے لیے کھیلوں میں صرف اس سال ہی نہیں اس صدی کی سب سے بڑی کامیابی ارشد ندیم کا اولمپک گولڈ میڈل تھا۔ ایک گولڈ میڈل جس کا پاکستانی قوم کو 40 سال انتظار کرنا پڑا۔ پچھلے 32 سال سے کوئی پاکستانی ایتھلیٹ اولمپکس میں کوئی بھی میڈل حاصل نہیں کرسکا تھا۔
پیرس اولمپکس کے لیے پاکستان سے صرف سات ایتھلیٹس شرکت کرپائے کیونکہ ہاکی ٹیم ایک بار پھر کوالیفائی کرنے سے محروم رہی۔ سات ایتھلیٹس ہونے کے باوجود میڈل کی امید صرف ارشد ندیم سے ہی تھی۔ ارشد ندیم نے کوالیفائنگ راؤنڈ میں ایک ہی تھرو پھینکی تھی کہ کوالیفائی کرلیا لیکن اس تھرو سے اندازہ لگانا کچھ مشکل تھا۔ اس کوالیفائنگ راؤنڈ کو دیکھتے ہوئے ارشد کے امکانات میڈل کے تو لگتے تھے پر گولڈ کی سوچ بہت دور کی بات تھی۔
فائنل میں ارشد اور نیرج دونوں کی پہلی تھرو فاؤل رہی، شاید وہ کچھ نروز تھے، شاید تھوڑی گھبراہٹ، کچھ توقعات کا بوجھ۔ پیٹرز کی 87.87 میٹر تھرو کے بعد ارشد ندیم دوسری تھرو کے لیے آیا تو تھوڑا نروس لگا۔ کیا توقعات کا بوجھ واقعی ایک بہترین ایتھلیٹ کی بہترین کارکردگی کو سامنے آنے سے روک دے گا؟
یہ سوال میرے ذہن میں ہی نہیں زبان پر بھی تھا۔ لیکن شاید چہرے کے یہ تاثرات صرف چہرے تک ہی محدود تھے یا شاید تھرو کے لیے بھاگتے ہوئے ان توقعات کے بوجھ سے ہٹ کر صرف ایک بہترین تھرو پھینکنے کا خیال تھا کہ ارشد کی وہ تھرو ارشد کی بہترین تھرو ہی نہیں تھی بلکہ اولمپکس کے ریکارڈ بھی توڑ گئی۔ ارشد سے 90 میٹر کی امید تو تھی، میڈل کی امید تو تھی پر سچ پوچھیں کہ 92.97 کی امید نہیں تھی۔ گولڈ کی امید بہت کم تھی اور اولمپک ریکارڈ کی امید تو دور دور تک نہ تھی۔
وہ تھرو کمال، عمدہ، بہترین، لاجواب اور شاندار ہونے کے ساتھ ساتھ حیران کن بھی تھی۔ اس نے شاید سب کو ششدر کر دیا تھا۔ اس تھرو نے تماشائیوں کو، شائقین کو ہی نہیں، ارشد کے مدمقابل ایتھلیٹس کو بھی حیران کر دیا تھا۔ ورنہ کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ نیرج چوپڑا جیسا بہترین اور مکمل طور پر تیار ایتھلیٹ اتنے زیادہ فاؤل کر دے۔ کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اینڈریسن پیٹرز جیسا ایتھلیٹ جو 93.07 میٹر کی تھرو پھینک چکا ہے، وہ 89 کا ہندسہ عبور نہ کر پایا۔
یہ طے تھا کہ اب ارشد ندیم میڈل تو حاصل کر ہی لیں گے لیکن کیا گولڈ میڈل پاکستان کے نام ہوگا؟ ارشد کی چھٹی تھرو بھی حیران کن تھی، پہلی تین چار تھروز تک ایتھلیٹس اپنی بہترین تھرو پھینک چکے ہوتے ہیں اور چھٹی تھرو تو اکثر ہی بہتر کمزور سی تھرو رہ جاتی ہے لیکن ارشد کی چھٹی تھرو 91.79 میٹر کی تھی۔ یہ تھرو بھی گولڈ کے لیے کافی تھی۔ یہاں تک کہ اولمپک کا 16 سال پرانا ریکارڈ توڑنے کے لیے کافی تھی پر وہ تو ارشد کی دوسری تھرو کے ساتھ ہی ٹوٹ چکا تھا۔
40 سالہ گولڈ میڈل کا انتظار ختم ہوچکا لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ہم اس سے آگے کہاں جاتے ہیں۔ کیا کھیلوں میں ہمارا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا کہ کھلاڑی اپنے دم پر کچھ کر جائیں یا اب ہم اس میڈل کے بعد کھیلوں کو تھوڑا سا سنجیدگی سے دیکھیں گے، اپنے ایتھلیٹس کو سہولیات فراہم کریں گے۔
اگرچہ 2024ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کچھ خاص کامیابیاں تو نہ سمیٹ سکی لیکن اس سال بھی پاکستان کرکٹ میں بہت کچھ ہوتا رہا۔ بورڈ چیئرمین کی تبدیلی سے لے کر کپتانوں تک اور کوچز سے لے کر سلیکٹرز تک سب ہی کچھ بار بار تبدیل ہوتا رہا۔ اس سال کے آغاز میں ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین محسن نقوی کو بنا دیا گیا جنہوں نے جلد ہی وائٹ بال فارمیٹ کی کپتانی شاہین آفریدی سے بابر اعظم کو منتقل کردی اور کچھ دنوں بعد گیری کرسٹن کو وائٹ بال اور جیسن گلیسپی کو ریڈ بال کرکٹ کا ہیڈ کوچ نامزد کر دیا گیا۔
لیکن یہ تینوں سال کے اختتام تک اپنے عہدے پر قائم نہ رہ سکے جہاں بابر اعظم نے ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد کپتانی سے استعفیٰ دے دیا تو وہیں دونوں کوچز کو بورڈ کی جانب سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے دوران ہی سلیکشن کمیٹی میں کئی تبدیلیاں کردی گئیں اور پھر اس سلیکشن کمیٹی نے ٹیم میں کئی تبدیلیاں کر ڈالیں لیکن یہ ایسی تبدیلیاں تھیں جن کی وجہ سے پاکستانی ٹیم پہلے ٹیسٹ میں شکست کے باوجود سیریز میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
لیکن ان تبدیلیوں کے ساتھ ہی ایک تبدیلی ایسی تھی کہ جس سے دونوں کوچز خوش نہ تھے۔ اب سلیکشن میں کوچز کا کوئی کردار باقی نہیں رہ گیا تھا یہاں تک کہ میچ کے لیے گیارہ کھلاڑیوں کا انتخاب بھی سلیکشن کمیٹی نے کرنا تھا۔ کرسٹن اس سب سے خوش نہ تھے، وہ آسٹریلیا کے دورے اور نئے وائٹ بال کپتان کے انتخاب میں اپنی رائے دینا چاہتے تھے لیکن بورڈ کے ارادے کچھ اور تھے۔ یوں بھارت کو ون ڈے ورلڈ کپ جتوانے والے کوچ گیری کرسٹن جن کی تلاش میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے کئی لوگوں کو نظر انداز کیا، صرف چھ ماہ بعد ہی بغیر کسی ون ڈے میچ میں پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کیے، استعفی دے گئے۔
کرسٹن کی جگہ دورہ آسٹریلیا کے لیے گلیسپی کا انتخاب کیا تو اس وقت یہ افواہیں بھی تھیں کہ شاید گلیسپی کے دن بھی گنے جا چکے۔ اس پر کرکٹ بورڈ نے وضاحت کی کہ جنوبی افریقہ کے خلاف دو ٹیسٹ کی سیریز میں بھی گلیسپی ہی پاکستانی ٹیم کے کوچ ہوں گے لیکن دو سال معاہدے کے بعد صرف دو ٹیسٹ ہی کیوں؟
سلیکشن میں مداخلت پہلے ہی ختم کر دی گئی تھی اور پھر گلیسپی کو بتائے بغیر ہائی پرفارمنس کوچ ٹم نیلسن کو بھی چلتا کیا گیا تو جیسن گلیسپی ٹیم عاقب جاوید کو سونپتے ہوئے پاکستان کرکٹ سے رخصت ہوگئے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم نے شائقین کو سب سے بڑا جھٹکا بنگلہ دیش کے خلاف کلین سویپ نے دیا۔ ہوم سیزن کے آغاز سے قبل اگرچہ پاکستانی ٹیم سے اگرچہ توقعات کم ہی تھیں لیکن کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ پاکستانی ٹیم کو بنگلہ دیش کے خلاف دونوں ٹیسٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں شکست کے بعد ایک اور کلین سویپ سامنے نظر آ رہا تھا لیکن تب محسن نقوی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے بعد کیا گیا سرجری کا وعدہ پورا کرتے ہوئے سلیکشن کمیٹی میں تبدیلی کی جس کے فیصلوں سے پاکستانی ٹیم اگلے دونوں ٹیسٹ میچز میں کامیاب رہی۔
پاکستانی ٹیم کے لیے اس سال سب سے بہتر فارمیٹ ون ڈے کرکٹ رہا جہاں اگرچہ پاکستانی ٹیم نے صرف تین ون ڈے سیریز ہی کھیلیں اور تینوں میں ہی فتح حاصل کی۔ اگرچہ اس دوران پاکستانی ٹیم کو زمبابوے کے خلاف پہلے ون ڈے میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن 22 سال بعد آسٹریلیا میں ون ڈے سیریز میں فتح اور پھر چند ہی ہفتوں بعد پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ میں ون ڈے سیریز میں کلین سویپ کرنے والی پہلی ٹیم بھی بن گئی۔
محمد رضوان جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا، دونوں ممالک میں ون ڈے سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کرنے والے پہلے کپتان بنے تو جنوبی افریقہ کو جنوبی افریقہ میں کلین سویپ کرنے والے دنیا کے پہلے کپتان بن گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا رضوان مستقبل میں ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں بھی ایسی ہی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں؟
ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ اس سال پاکستانی ٹیم کے لیے بدترین فارمیٹ ثابت ہوا۔ وہی فارمیٹ جس میں پاکستان ٹیم سرفراز احمد کی قیادت میں مسلسل 12 سیریز جیتی، ایک طویل عرصے تک نمبر ون ٹیم رہی۔ اسی فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم 2024ء کے دوران ایک بھی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر پائی۔
نیوزی لینڈ اور انگلینڈ میں ان کے مکمل اسکواڈ کے سامنے شکست تو سمجھ آتی ہے لیکن آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میں شکست، آسٹریلیا کے تمام اہم کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں سیریز میں کلین سویپ شکست، جنوبی افریقہ کے خلاف بارش کی وجہ سے کلین سویپ سے بچت، نیوزی لینڈ کی سیکنڈ الیون کے خلاف پاکستان میں سیریز برابر کرنا اگر کچھ کم شرمندگی تھی تو پاکستانی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں امریکا کی ٹیم سے شکست کھا کر ورلڈکپ کے اگلے مرحلے میں نہ پہنچ کر اس شرمندگی کو کم نہ ہونے دیا۔ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم نے اس بار شکستوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ 27 ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستانی ٹیم کو 16 میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے جہاں اس سال کوچز اور کپتانوں میں کئی تبدیلیاں کیں وہیں ایک شاندار کارنامہ بھی سر انجام دیا۔ چمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی اور بی سی سی آئی کے خلاف ڈٹ گیا اور ایک طویل عرصے تک ڈٹا ہی رہا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈٹے رہنے سے بھارتی ٹیم پاکستان آنے پر تو نہیں مانی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی یہ بات مان لی گئی کہ کوالیفائی کرنے کی صورت میں 2025ء ویمنز ون ڈے ورلڈکپ اور 2026ء ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کے میچز بھی نیوٹرل مقام پر ہوں گے اور ساتھ ہی پاکستان کو 2028ء کے ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی میزبانی بھی حاصل ہو گئی۔
2024ء کا زیادہ تر وقت خراب کارکردگی دکھانے کے بعد انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح اور پھر آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں ون ڈے سیریز کی فتح بتا رہی ہے کہ پاکستانی ٹیم واپسی کر رہی ہے۔ بورڈ چیئرمین، کوچز، کپتانوں اور سلیکٹرز کی مستقل تبدیلیوں کے بعد اب ایک بار پھر سے پاکستانی ٹیم یکجا ہو کر کھیلتی نظر آ رہی ہے۔
اب اگر ان تبدیلیوں کو کچھ عرصہ کے لیے روک دیا جائے اور ہر فارمیٹ کے لیے دستیاب بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے تو امید ہے کہ پاکستانی ٹیم یہ شاندار کارکردگی تسلسل سے دکھا پائے گی۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔