عمران خان کیخلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ کل نہیں سنایا جائے گا، صاحبزادہ حامد رضا کا دعویٰ
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ کل نہیں سنایا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے اتحادی صاحبزادہ حامد رضا نے یہ دعویٰ ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رخ مین اینکرپرسن نادر گرامانی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ کل نہیں سنایا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل حکام کی جانب سے میرے پاس جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق کل القادر ٹرسٹ کا فیصلہ نہیں سنایا جا رہا، میں ان اطلاعات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ جب صبح 9 سے لے کر رات 9 بجے تک جب سماعت کریں گے، جب لوڈشیڈنگ ہو، لائٹ بند کردی جائے اور فیصلہ محفوظ کرلیا جائے ، اس کے اندر آپ ایک بندے کو سزا دیں گے۔
سربراہ سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیس کی وجہ کیا ہے جب کہ عمران خان نے کوئی فائدہ لیا نہیں ہے، نہ پیسے ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے، نہ انہوں نے اس سے فائدہ لیا، پیسا اب بھی ریاست کے اکاؤنٹ میں پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ٹرسٹ ہے، یہ ویسا ترسٹ نہیں ہے جہاں گردوں کے جعلی آپریشن ہوتے ہیں، وہ تصوف کی تعلیمات کے لیے ایک یونیورسٹی ہے جس سے قوم کی نسلوں نے مستفید ہونا ہے۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا مجھے کنفرم نہیں ہے لیکن میرے موبائل پر دو جگہ سے یہ پیغام آیا ہے جس کی میں تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ہماری اس حوالے سے کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
سربراہ سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات کے لیے اپنے لیے کوئی ریلیف نہیں مانگا، یہ بات میں بلکل واضح کردینا چاہتا ہوں، ہمارا اور پارٹی کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کیونکہ سب سے بڑا سیاسی قیدی عمران خان ہے، عمران خان نے اپنے کوئی فیور یا ریلیف نہیں مانگا۔
یاد رہے کہ 18 دسمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جانا ہے۔
18 دسمبر کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی تھی، ٹرائل کی آخری سماعت سوا 8 گھنٹے جاری رہی تھی، اس موقع پر عمران خان اور بشریٰ بی بی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ 6 جنوری 2024 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈز کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت ریفرنس کے 6 شریک ملزمان کو اشتہاری اور مفرور مجرم قرار دے دیا تھا۔
عدالت کی جانب سے ملک ریاض، ان کے بیٹے علی ریاض ملک، فرحت شہزادی، ضیا الاسلام، شہزاد اکبر، زلفی بخاری کو اشتہاری اور مفرور قرار دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران نیب وکلا نے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے اور سماعت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی تھی۔
نیب کے وکیل امجد پرویز اور ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے دوران سماعت اپنے دلائل میں کہا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اور پاکستان کے ایسٹ ریکوری یونٹ کے درمیان 6 نومبر 2019 کو معاہدہ خفیہ رکھنے کا معاہدہ طے پایا، اس وقت کی حکومت کے پاس این سی اے اور نجی کمپنی بحریہ ٹاؤن کے درمیان طے پائے معاہدے کو خفیہ رکھنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے 29 نومبر کو پہلی قسط نجی کمپنی کے سپریم کورٹ میں لائیبلٹی اکاؤنٹ میں منتقل کی، اس وقت کے وزیراعظم نے کابینہ سے 2 دسمبر 2019 کو معاہدہ خفیہ رکھنے کے نوٹ کی سرسری منظوری لی۔
انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ میں فریز رقم کی پہلی قسط اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کے بعد کابینہ سے اس معاملے کی رولز سے ہٹ کر منظوری لی گئی، کابینہ میٹنگ سے 7 روز قبل میٹنگ ایجنڈے کی سمری تمام ممبران میں تقسیم کی جاتی ہے، اس معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا، رولز اف بزنس 1973کی خلاف ورزی کی گئی۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ پبلک آفس ہولڈر کسی بھی قسم کا کوئی فنڈ، ڈونیشن لے گا تو وہ ریاست پاکستان کی ملکیت تصور ہوگا، نیب آرڈیننس کی دفعہ 92 کے تحت اگر پبلک آفس ہولڈر کسی بھی قسم کی رقم یا فائدہ لے گا تو وہ رشوت تصور ہوگی۔
انہوں نے استدلال کیا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ اور این سی اے میں رقم کے فریز ہونے سے قبل ہی خط و کتابت کا اغاز ہو چکا تھا۔
اس کے ساتھ ہی نیب وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہوگئے تھے، وکلا نے معاملے سے متعلق پاکستانی ہائی کورٹ اور بھارتی سپریم کورٹ کے 2 فیصلوں کی نقول بھی عدالت میں داخل کروا دی تھیں۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔