پی آئی اے کے بیڑے میں 11واں ایئربس نئے انجنوں کے ساتھ شامل
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے آپریشنل فلیٹ میں 11 واں ایئربس (اے پی- بوم) 320 انجنوں کے ساتھ آپریشنل بیڑے میں شامل کرلیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق جہاز کو نئے پینٹ اور کیبن کی تزین و آرائش کے ساتھ ہینگر سے رول آوٹ کیا گیا۔
پی آئی اے کے آپریشنل بیٹرے میں آئندہ چند روز میں طویل عرصے سےگراونڈڈ بوئنگ 770 اے ٹی آر طیارے بھی شامل ہوجائیں گے، فلائٹ بحالی سے پی آئی اے کے نیٹ ورک میں وسعت اور پراڈکٹ معیار میں بہتری آئے گی۔
رواں ہفتے سے پی آئی اے نے اندرون ملک پروازوں میں ان فلائٹ انٹرنیٹ سسٹم بھی متعارف کروایا ہے جو کہ مسافروں میں مقبولیت اختیار کررہا ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے حکومت پر پی آئی اے نجکاری کا عمل سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا تمام کام مکمل کرلیا گیا تھا مگر موجودہ حکومت نے پی آئی اے نجکاری کا عمل سبوتاژ کردیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ نجکاری کے لیے واضح مقصد اور بیانیہ ہونا چاہیے، دنیا مین کوئی ایک ایسا ملک بتائیں جہاں نجکاری کمیٹی کا سربراہ وزیر خارجہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بڑی حکومت پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو چھوٹی حکومت کرنے پر یقین رکھتی ہو۔
واضح رہےکہ گزرے چند سالوں سے مسلسل خسارے سے دوچار پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی حکومت نجکاری کرنے کی خواہاں ہے اور اس سلسلے میں ایک طویل عمل کے بعد حکومت کو ادارے کی نجکاری کے لیے بولیاں بھی موصول ہوئی تھیں۔
تاہم توقع سے انتہائی کم بولی لگنے پر نجکاری بورڈ نے قومی ایئرلائن کی نجکاری کے لیے موصول ہونے والے بولیاں مسترد کردی تھیں۔
پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی 31 اکتوبر کو کھولی گئی تھی اور قومی ایئر لائن کے 60 فیصد حصص کی نجکاری کے لیے 85 ارب روپے کی خواہاں حکومت کو ریئل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنی کی جانب سے صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی تھی۔
بعد ازاں دبئی سے تعلق رکھنے والی پاکستانی گروپ نے حکومت کو 250 ارب روپے کے واجبات سمیت 125ارب روپے سے زائد میں خریدنے کی پیشکش ارسال کی تھی۔
ڈان نیوز کے مطابق النہانگ گروپ نے پی آئی اے کی خریداری کے لیے وزیر نجکاری، وزیر ہوا بازی اور وزیر دفاع سمیت دیگر متعلقہ حکام کو بذریعہ ای میل پیشکش ارسال کی تھی ۔
النہانگ گروپ نے حکومت کو پی آئی اے کے ملازمین کی چھانٹی نہ کرنے، تنخواہوں میں مرحلہ وار 30 سے 100 فیصد اضافے کی بھی پیشکش کی تھی۔