• KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm
شائع 13 دسمبر 2024 02:40pm

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


اگر زندگی کے تمام جھمیلوں کو کچھ دیر کے لیے ایک جانب کرکے سوچیں تو زندگی کوئی اتنی مشکل گتھی بھی نہیں کہ جسے آرام اور سکون سے نہ گزارا جا سکے۔ ہماری زندگی کا سفر اتنا طویل بھی نہیں ہوتا جو صدیوں تک پھیلا ہوا ہو۔ 60، 70 ستر برس گزارنے کوئی اتنے مشکل بھی نہیں بس شرط یہ کہ ہماری خواہشات اور تمناؤں کے گھوڑوں کی لگامیں ہمارے ہاتھ میں ہوں اور ہم اُن پر سوار ہوں۔

اگر اس عکس کو پلٹ دیا جائے یعنی خواہشات اور تمنائیں ہم پر سوار ہوں تو پھر زندگی اس طاقتور بھینسے کا روپ دھار لے گی جس کو اپنے بس میں کرنا ہمارے اختیار میں نہیں رہتا اور ایسی کیفیات میں زندگی ایک ایسی الجھی ہوئی گتھی بن جاتی ہے جسے ہم کتنا بھی سلجھانا چاہیں وہ نہیں سلجھے گی۔ یہ مثال معاشرے، گاؤں، شہروں اور ممالک پر بھی صادق آتی ہے۔

گزشتہ قسط میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ آیا کراچی قلات کو خون بہا کے طور پر دیا گیا تھا یا نہیں۔ مغل دور (1520ء سے 1737ء) میں کراچی کوہستان والا علاقہ ٹھٹہ صوبے کے میرپور ساکرہ پرگنو میں شامل تھا اور ہم یہ بھی بات کرچکے ہیں کہ ٹھٹہ کے اطراف میں جو مختلف قوموں اور قبائل کی آبادیاں تھیں ان کی ارغونوں، ترخانوں اور مغلوں سے کبھی نہیں بنی اور ہم پہلے بھی یہ حوالہ دے چکے ہیں کہ جنوبی سندھ میں کلہوڑوں کو حکومت دیر سے یعنی 1737ء میں ملی جبکہ میر محراب والا واقعہ 47 برس قبل ہوچکا تھا۔ تو کلہوڑا کس طرح کراچی کا علاقہ یا بندرگاہ یا بستی قلات کے حوالے کر سکتے ہیں؟

میر قانع جو اس دور کے ہم عصر مورخ ہیں، وہ جب یہ ذکر کرتے ہیں کہ نادر شاہ کا ایک عملدار گجرات سے کشتیاں لینے ایران سے آیا تو وہ کراچی سے ٹھٹہ گیا اور ٹھٹہ میں دو ڈھائی ماہ مقیم رہا اور بعد میں گجرات کی جانب روانہ ہوا۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی کو قلات کے حوالے کرنے کی اتنی بڑی بات کو وہ تحریر کے دائرے میں نہیں لاتا جبکہ تاریخ کلہوڑا کے مصنف محترم غلام رسول مہر صاحب لکھتے ہیں کہ جب میاں یار محمد اور شہزادے معزالدین میں صلح ہوگئی تب اسے بادشاہ کی طرف سے سبی، ڈاڈھر اور گنجابہ (بھاگناڑہ) جیسے دور دراز کے علاقے مل گئے جبکہ یہ علاقے حاصل کرنے کے لیے قلات کے حکمرانوں نے بہت کوشش کی تھی۔

   ننگر ٹھٹہ میں ایک کارواں سرائے کے آثار
ننگر ٹھٹہ میں ایک کارواں سرائے کے آثار

اس سلسلے میں ایک اور واقعہ جو 1731ء میں ہوا، قانع صاحب کی زبانی سن لیتے ہیں کہ ’قلات کے حاکم میر عبداللہ خان نے سندھ پر حملہ کیا اور جنگ کے دوران کلہوڑوں کے لشکر کے ہاتھوں مارا گیا‘۔

کتاب سقوط قلات کے مصنف لکھتے ہیں کہ ’1734ء میں کچھی پر حملے کے دوران کلہوڑوں کے ساتھ میر عبداللہ نبرد آزما تھے کہ ایک تیر ان کے سینے میں آ کر لگا اور وہ وفات پا گئے‘۔

عبداللہ خان کے بعد ان کا بیٹا محبت خان ریاست قلات کا حاکم بنا۔ نادر شاہ افشار نے 1740ء میں جب سندھ پر حملہ کیا۔ قانع لکھتے ہیں کہ ’بروہیوں کا لشکر نادر شاہ کے ساتھ تھا جب نادر شاہ سندھ کے حاکموں پر غالب آیا تب بروہیوں نے عبداللہ خان کے قتل کا خون بہا دینے کے لیے نادر شاہ سے گزارش کی اور نادر شاہ نے سندھ کے تین حصے کیے، بڑا حصہ میاں نور محمد کو دیا، سبی پٹھانوں کو اور شکارپور داؤد پوتوں کے حصے میں آیا‘۔

بلوچستان کے مورخ آخوند محمد صدیق اس متعلق لکھتے ہیں کہ ’کچھی کا پورا علاقہ بادشاہ نے خون بہا کے عوض، میر محبت خان کو دیا‘۔

   مکلی ٹھٹہ ایک اسکیچ
مکلی ٹھٹہ ایک اسکیچ

اب ہم میاں عبدالنبی کلہوڑے کے زمانے 1781ء کا ذکر کرتے ہیں جب حقیقتاً کراچی قلات کے حوالے کیا گیا۔ غلام محمد لاکھو لکھتے ہیں کہ 1780ء میں میاں عبدالنبی کلہوڑو کے دور میں سندھ دربار کا ایک اہم امیر میر بجار خان قتل ہوا۔ اس واقعے کے بعد تالپوروں نے کلہوڑوں سے بغاوت کی۔ اس بغاوت کی وجہ سے میاں کی مدد کے لیے جودھپور سے لشکر پہنچا اور قلات سے میر نصیر خان کا دامام میرزرک خان بھی فوج لے کر لاڑکانہ کی طرف آ گیا۔ تالپوروں اور بروہیوں میں لڑائی ہوئی جس میں میر زرک خان قتل ہوا۔ بڑے خون خرابے کے بعد حکومت پھر سے 1781ء میں میاں عبدالنبی کو ملی۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ جب کراچی کو قلات کے حوالے کیا گیا۔

ناؤنمل اس سلسلہ میں اپنی سوانح حیات میں تحریر کرتے ہیں کہ ’قلات کے خان کا بھائی جاڑک خان کلہوڑوں سے لڑتے مارا گیا جس کی وجہ سے کلہوڑوں نے خون بہا کے طور پر کراچی کو قلات کے خان کے حوالے کیا، اس کے بعد قلات کی فوج کا ایک دستہ یہاں رہتا تھا‘۔

بلوچی تبصرہ نگار آخوند محمد صدیق اس واقعے کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’میر نصیر خان نے میاں عبدالنبی کی مدد کے لیے میر زرک خان کو بھیجا تھا جو سرکنڈ کے مقام پر تالپوروں کے ہاتھوں مارا گیا۔ بعد میں تیمور شاہ (احمد شاہ درانی کا بیٹا حکومت 1772ء سے مئی 1793ء) نے تالپوروں سے ’کورہ کا‘ لے کر خون بہا کے طور پر قلات کو دلوایا‘۔

ممکن ہے کہ تحریر کے وقت کراچی کو کورہ تحریر کیا گیا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ 1781ء میں کراچی کو قلات کے حوالے کیا گیا اور یہ حوالگی 14 برس تک رہی۔ یعنی جب کلہوڑوں کی حکومت کا زمانہ اختتام کو پہنچا اور تالپور حاکم بنے تو میر فتح علی خان نے کراچی واپس لے لیا۔

کراچی کو واپس لینے کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے لیکن کلہوڑا دور کے اختتام اور تالپوروں کے ابتدائی دنوں کے متعلق بات کرنے سے پہلے ہم ان قبرستانوں کی سنگ تراشی سے متعلق جانتے ہیں جنہیں جاننے کے لیے ہم نے بہت انتظار کیا ہے۔

    تیمور شاہ درانی
تیمور شاہ درانی

اگر غور کیا جائے تو ہم جن گورستانوں کا انتہائی تفصیل سے ذکر کرنے والے ہیں، ان کے متعلق ہم سنجیدگی سے جاننا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں وہ پگڈنڈی چننی پڑے گی جو ہمیں کم سے کم گوبیکلی ٹیپی (Gobekli Tepe) تک تو لے چلے۔ یہ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ آپ نے بحریہ روم کا نام سنا ہے تو اس کے کنارے ایک جزیرہ ہے سائیپرس، سمندر کے نیلے پانیوں کے شمال میں بیروت بستا ہے۔

   گوبیکلی ٹیپی کے آثار
گوبیکلی ٹیپی کے آثار

دور مشرق میں عراق اور بغداد اور سائیپرس کے شمال میں گوبیکلی ٹیپی کی قدیم سائیٹ ہے جو زرعی انقلاب سے بہت پہلے 9500 بعداز مسیح سے 8000 تک یعنی Pre-Pottery Neolithic قدامت رکھنے والی ہے۔ گوبیکلی ٹیپی کے پاس ہمیں سنانے کے لیے بہت کچھ ہے مگر اس سے پہلے گورستانوں اور ان کو یادگار بنانے یا ایسی صورت دینے جس سے وہ عام تعمیرات سے الگ، دلچسپ، حیرت انگیز اور یادگار لگے۔ ان کیفیات کو جاننے کے لیے ہمیں تھوڑا سفر ضرور کرنا پڑے گا جو ان پتھروں کی زبان سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے جنوب مغرب میں fertile crescent زمین پر جو ارتقائی انسان کی بیٹھک ہیں اور ان مقامات پر انسان کی ارتقا کے حوالے سے جو کام ہوا ہے، اس پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے۔

ممکن ہے کہ ان شاندار سنگ تراشی کے قبرستانوں کی جڑ ہمیں ہزاروں برس پہلے کسی مقام سے مل جائے۔ چونکہ یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ ہم جو اس دنیا میں ہزاروں حیرت انگیز تعمیرات دیکھتے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرت کی سرحدیں تک ختم ہو جاتی ہیں، وہ اچانک سے نہ زمین سے پھوٹ پڑیں اور نہ آسمان سے ٹپکی ہیں۔

   فرٹائل کریسنٹ
فرٹائل کریسنٹ

ارتقائی انسان سے متعلق نوح ہراری کہتے ہیں، ’سیپین نے جتنے بھی رنگوں اور کیفیات کی فرضی کہانیاں اور خیالات تخلیق کیے، ان کے رنگین جھرمٹ میں سے ہی ثقافت نے جنم لیا اور جب ثقافت جنم لے لیتی ہے تو وہ مستقل تغیر اور نمو پذیر رہتی ہے اور انہیں تبدیلیوں کی وجہ سے تاریخ مرتب ہوتی ہے۔

تقریباً 30 ہزار سال قبل مسیح کے زمانے میں انسان نے جو ایجادات کیں، ان میں کشتیاں، تیر کمان اور سوئیاں شامل تھیں (جو فقط موٹے اور گرم کپڑے سینے کے کام آ سکتی تھیں)۔ اسی زمانے میں پہلی شبیہ تخلیق ہوئی جسے آرٹ کہا جاسکتا ہے۔ پہلی بار مذہبی، تجارتی اور سماجی طبقات کی موجودگی کا ثبوت ملا۔

    سوئیاں جو فقط موٹے اور گرم کپڑے سینے کے کام آ سکتی تھیں
سوئیاں جو فقط موٹے اور گرم کپڑے سینے کے کام آ سکتی تھیں

شیر جیسے منہ کا آدمی یا عورت کا ایک ہاتھی دانت کا مجسمہ جو 32 ہزار سال پرانا ہے جو جرمنی کے اسٹاڈیل غار سے دریافت ہوا۔ اس انسانی دھڑ پر شیر کا منہ لگا ہوا ہے۔ یہ غیر متنازع طور پر آرٹ کا پہلا نمونہ ہے۔ اس نظریے کے مطابق بنیادی طور پر ہومو سیپین ایک سماجی جانور ہے، اس کے بچاؤ اور نسلی تسلسل کے لیے سماجی تعاون ضروری ہے۔

    ایک ہاتھی دانت کا مجسمہ جو 32 ہزار سال پرانا ہے جو جرمنی کے اسٹاڈیل غار سے دریافت ہوا
ایک ہاتھی دانت کا مجسمہ جو 32 ہزار سال پرانا ہے جو جرمنی کے اسٹاڈیل غار سے دریافت ہوا

لوگ یہ بات انتہائی آسانی سے سمجھ جاتے ہیں کہ ابتدائی انسانوں نے اپنے سماجی نظام کی تشکیل کے لیے بھوت پریت پر یقین کیا اور ان راتوں میں جب چاند اپنی مکمل صورت میں ٹھنڈی شاندار چاندنی بکھیرتا ہے، ان راتوں میں وہ آگ کے گرد رقصاں ہوتے۔

   کچھ فسوں طراز شعبدے باز ہوتے ہیں اور بھوت پریت پر یقین رکھتے ہیں
کچھ فسوں طراز شعبدے باز ہوتے ہیں اور بھوت پریت پر یقین رکھتے ہیں

دنیا میں انسان کے سوا اور کوئی جانور تجارت نہیں کرتا اور سیپین کے وہ تمام تجارتی سلسلے جن کے متعلق ہمارے پاس ثبوت ہیں وہ مفروضوں پر ہی قائم تھے۔ بغیر بھروسے کے تجارت کرنا ممکن نہیں ہے اور اجنبیوں پر بھروسہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جب کسی قبائلی سوسائٹی میں دو اجنبی تجارت کرنا چاہتے تھے تو وہ عموماً بھروسہ حاصل کرنے کے لیے کسی مشترکہ خدا، روایتی اجداد یا کوئی قدیمی علامتی جانور استعمال کرتے۔ اگر قدیم سیپین ان مفروضوں پر یقین کرکے اس علاقے میں وافر مقدار میں پائی جانے والی چیز کی تجارت کرتے تو یہ بعید القیاس نہیں کہ وہ معلومات کا تبادلہ بھی کرتے ہوں گے۔ اس طرح وہ علوم کا ایک گہرا اور وسیع نظام رکھتے تھے جو نیندرتھال (Neanderthal) اور دوسرے قدیم انسانوں میں موجود نہیں تھا۔

اگر مجھے اس تحریر کے دوران موضوع نے اجازت دی تو میں آپ سے نیندرتھال جو ہمارے انتہائی قریبی رشتہ دار تھے اُن پر تازہ تحقیق آپ کو ضرور سنانا چاہوں گا کیونکہ ممکن ہے کہ کئی صدیوں بعد یا ایک ہی صدی کے بعد ہم بھی ان کیفیات میں گھر جائیں یا ہمارا ڈی این اے ہمارے ساتھ گڑ بڑ کردے تو ان بےچاروں کے متعلق سننا ضروری ہے۔ خاص کر جب ہمارے ساتھ ایلون مسک رہ رہے ہوں تو ہمیں اس متعلق علم ہونا چاہیے۔

   نیندرتھال ایک اسکیچ
نیندرتھال ایک اسکیچ

شعوری انقلاب وہ مقام ہے جہاں تاریخ نے حیاتیات سے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ ادراکی انقلاب کے بعد سے ہومو سیپین کی ترقی کے لیے حیاتیاتی نظریات کی جگہ تاریخ کے بیانیے نے لے لی۔ اب اس جگہ پر ہمیں یہ دیکھنے کے لیے کچھ دیر ضرور رک کر دیکھنا پڑے گا کہ شعوری انقلاب اور زرعی انقلاب کے درمیانی ہزاروں برسوں میں زندگی کی کیا شکل تھی؟

زرعی انقلاب سے پہلے ہومو سیپین خوراک کی تلاش میں دور دور تک چلے جاتے۔ ان کی مسافتیں بدلتے موسموں، حیوانوں کے سالانہ ہجرت اور پودوں کی نمو کے تسلسل پر منحصر تھیں۔ وہ عموماً کئی درجن کلومیٹر سے سیکڑوں مربع کلومیٹر کے اپنے علاقے میں آنے جانے کا سلسلہ رکھتے۔ وہ خوراک کے لیے بہت محنت کرتے جس کی وجہ سے ان کو ماحول اور معروضی حالتوں کو سمجھنے پر وقت کے ساتھ ساتھ عبور حاصل ہوتا رہا۔ ان پر تحقیق کے حوالے سے جو فوسل استخوان ملے ہیں، اُن پر تحقیق کرنے سے پتا چلتا ہے کہ قدیم متلاشی (یا ان کے لیے خانہ بدوش بھی ایک بھرپور تصویر پیش کرنے والا لفظ ثابت ہوسکتا ہے)۔ کبھی قحط یا غذا کی کمی کا شکار نہیں ہوئے اور ساتھ میں یہ کہ انہیں نہ ہونے کے برابر بیماریاں ہوتی تھیں۔

تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ان خوش نصیب متلاشیوں کے پاس مقرر خوراک نہیں تھی۔ جیسے ناشتے میں انڈا اور ڈبل روٹی، دن کو دو گندم کی روٹیاں اور سالن اور رات کو چاول وغیرہ۔ لیکن وہ آزاد تھے چونکہ وہ نہ کسی مخصوص دائرے میں رہتے تھے اور نہ کچھ اگاتے تھے جیسے گندم، آلو یا چاول جو مجبوراً ان کو کھانے پڑیں۔ ناشتہ میں دوپہر اور رات کے لیے انہیں جو ملتا وہ کھا لیتے تھے۔ اس لیے جسم کو تقریباً وہ ساری طاقتیں مل جاتی تھیں جس سے جسم بیمار کم ہوتا تھا۔ اس لیے وہ اپنی ایک شاندار زندگی گزار رہے تھے۔

    اینی میزم
اینی میزم

اب ہم تھوڑی بات متلاشیوں کی روحانی زندگی کے متعلق کر لیں تو یہ زیادہ مناسب رہے گا کیونکہ ہم جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہمارے موضوع کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔ ہراری کے مطابق، ’زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ قدیم خانہ بدوشوں میں روحانی (animistic) عقائد عام تھے۔ اینی میزم (لاطینی لفظ اینیما بامعنی روح) یہ عقیدہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ، ہر جانور، ہر پودا اور ہر قدرتی مظہر آگاہی اور احساس رکھتا ہے۔ وہ انسانوں سے براہِ راست رابطہ رکھ سکتا ہے۔ یعنی اینی مسٹ یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ پہاڑی پر رکھا وہ بڑا پتھر خواہشات اور ضروریات رکھتا ہے۔ وہ پتھر انسان کی ایسی حرکت سے انتہائی غصے میں بھی آ سکتا ہے جو اسے ناپسند ہیں جبکہ پتھر کسی ایسے عمل سے خوش بھی ہو سکتا ہے جو اُسے اچھی لگی ہو۔

یہ پتھر انسان کو ڈانٹ سکتا ہے اور لوگوں سے امیدیں بھی رکھ سکتا ہے۔ نہ صرف یہ پتھر بلکہ اس پہاڑی کے دامن میں جو بلوط کا درخت ہے وہ بھی ایک جاندار ہے اور اسی طرح پہاڑی کے دامن میں وہ بہتا چشمہ بھی ہے اور اس کے اطراف میں اُگتی جھاڑیاں، صاف میدان کی طرف جاتی پگڈنڈی، میدانی چوہے، بھیڑیے اور کوے جو اس سے پانی پیتے ہیں۔

اینی مسٹ کی دنیا میں صرف اشیا اور حیات ہی جاندار نہیں ہیں، یہاں غیر مادی چیزیں بھی ہیں جیسے مُردوں کی ارواح، دوستانہ اور مخیر ارواح، وہ چیزیں جنہیں آج ہم پریاں، فرشتے اور آسیب لکھتے ہیں۔ اینی مسٹ کے اعتقاد کے مطابق انسانوں اور دیگر وجود کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ سب گفتگو، رقص، گیت اور تقریبات کے ذریعے باہمی رابطہ کر سکتے ہیں۔

   اینیمیزم
اینیمیزم

ابھی ہمارے آباو اجداد کے متعلق ہمیں دلچسپ باتیں کرنی ہیں۔ یہ حقائق اس وقت کے ہیں کہ جب گندم نے انسان کو ایک جگہ بیٹھنے کے لیے جکڑا نہیں تھا۔ یہ زرعی انقلاب سے پہلے کے سائنسی تحقیق کے تجزیے ہیں۔ مگر ایک بات ہمارے ذہن میں ضرور ہونی چاہیے کہ وقت جو اپنی زمین پر جن جڑوں کو حقائق کا پانی دے کر حیات دیتا ہے، انہیں کبھی خشک ہونے نہیں دیتا۔

ہم انسانی نفسیات کے متعلق جاننے کے انتہائی دلچسپ موڑ پر جدا ہو رہے ہیں۔ مگر جلد ملتے ہیں اس سوال کے جواب کے ساتھ کہ پیلو کے بغیر کانٹوں والے معصوم سے درخت پر لوگ امیدیں پوری ہونے کی آس میں رنگین کپڑوں کے ٹکڑوں کو گانٹھ دے کر کیوں باندھتے ہیں۔

حوالہ جات

  • ’سقوط قلات‘۔ پرویز احمد۔ فکشن ہاؤس، لاہور
  • ’تحفتۃ الکرام‘۔ میر علی شیر قانع۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
  • ’تاریخ کلہوڑا ۔ غلام رسول مہر۔ مترجم: شمشیرالحیدری۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
  • ’نگری نگری پھرا مُسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’بندہ بشر‘۔ نوح ہراری۔ مترجم: سعید نقوی۔ سٹی بک پوائنٹ، کراچی
  • ’شاخ زریں‘۔ سر جیمز جارج فریزر۔ مترجم: سید ذاکر اعجاز۔ نگارشات، لاہور
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔