کیا بشار الاسد کی حکومت کی برطرفی میں ایران، روس اور ترکیہ بھی ملوث تھے؟
جب لوگ اپنے عزائم کے حصول کے لیے انتہائی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں تو وہ کامیابی کے لیے منطق سے سوچنے کے بجائے خود کو دھوکا دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگرچہ شامی باغیوں نے حالیہ دنوں میں اچانک تیز پیش قدمی کی لیکن اسے اتفاقیہ نہیں کہا جاسکتا۔ توقع کے عین مطابق الاسد خاندان کے 50 سالہ آمرانہ دور کا تختہ الٹنے اور عسکریت پسندوں کے دمشق فتح کرنے کے امر کو مغربی صحافیوں نے خوب سراہا ہے۔
مغربی میڈیا کی چند رپورٹس میں بشار الاسد کے طویل اور متزلزل دورِ حکمرانی کو ’سفاک‘ قرار دیا گیا لیکن جب بات بنیامن نیتن یاہو کی آتی ہے تو ان کی جانب سے خوفناک جنگی جرائم کے ارتکاب کے باوجود مغربی میڈیا الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام لیتا ہے۔
اگر آپ کو معلوم نہیں تو بتاتے چلیں کہ شام کو چھوڑ کر مغربی میڈیا کے مطابق بحراوقیانوس پر واقع مراکش سے بحریہ عرب کے کنارے بسے عمان تک، تل ابیب (اسرائیل) سے، عمان (اردن)، ریاض (سعودی عرب)، ابوظبی (متحدہ عرب امارات)، دوحہ (قطر)، مسقط (عمان) اور صنعا (یمن) تک سیکیولر جمہوری نظام کا راج اور انسانی حقوق کا بول بالا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں مضحکہ خیز ہیں، اگر ایسا نہیں تو مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے واقعات کو ہم کیسے بیان کریں گے؟
مغربی میڈیا کو حالیہ صورت حال کا درست انداز میں تجزیہ پیش کرنے کی ضرورت ہے، نہ انہیں کسی کی جیت پر جشن منانا چاہیے نہ ہی کسی کو بلاضرورت شکست خوردہ قرار دینا چاہیے۔
مغربی میڈیا جس طرح شام کی پیش رفت کو ان کی ’آزادی‘ قرار دے رہا ہے، یہ انتہائی گمراہ کُن ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ عسکریت پسند جو پہلے سفاک انتہا پسند تھے، اب سی این این انہیں ’سماجی تنوع‘ کے چیمپیئن کے طور پر بیان کررہا ہے۔ اس منافقت کی ماضی میں بھی ہمیں مثال ملتی ہے جس کا آغاز 1953ء میں ایران کی منتخب کردہ مقبول حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت سے ہوا تھا۔ اگرچہ امریکا نے منتخب وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کا اعتراف کیا لیکن برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی 6 جو اس بغاوت کی ماسٹر مائند تھی، اس نے کبھی بھی اپنے مبینہ کردار کو تسلیم نہیں کیا۔
1936ء میں رضا شاہ پہلوی نے جب کشفِ حجاب کے نام سے حکم جاری کیا جس کے تحت خواتین کے حجاب اور چادر پہننے پر پابندی لگا دی گئی تو یہ ایران کا تاریخی لمحہ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ رضا شاہ پہلوی کے اس حکم پر ’فوراً اور جبری طور پر عمل درآمد‘ کروایا گیا۔ تاہم یہ پابندی 1941ء میں اٹھا لی گئی لیکن اس کے اثرات دیرپا تھے۔
حجاب، رضا شاہ کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گیا حالانکہ 1979ء کے ایرانی انقلاب تک ایرانی خواتین کو آزادی حاصل تھی کہ وہ جیسا لباس پہننا چاہیں، پہن سکتی تھیں۔ (یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ حیات التحریر الشام کے چیف کا انٹرویو کرتے ہوئے سی این این کی رپورٹر کو احتیاط کے طور پر اسکارف سے سر ڈھانپتے کی ضرورت محسوس ہوئی)۔
حجاب کو ایران کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا حالانکہ اسرائیل اور ایران دونوں ہی تھیوکریٹک ریاستیں ہیں جہاں ریاست کی سطح پر متعلقہ مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے۔
جہاں تک شام کی بات ہے تو یہاں بشار الاسد کی صدارت میں جمہوریت تو نہیں تھی لیکن مغرب کی نظر میں یہ زیادہ کاسموپولیٹن اور سیکیولر ملک تھا۔ مغرب کو جمہوریت نہ ہونے پر بشار الاسد سے سب سے زیادہ اختلاف تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ الاسد حکومت کے خاتمے کے ساتھ وہ واحد سیکولر عرب ملک بھی راستے سے ہٹ گیا جو خطے میں روس کی مدد سے اسرائیل اور امریکا کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرتا تھا۔ یمن، لیبیا، عراق اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو تو وہ پہلے ہی تباہ کرچکے ہیں۔
تو شام میں اب کیا ہونے جارہا ہے؟ اس حوالے سے تین عناصر اہم ہیں۔ پہلا یہ گمان ہے کہ دمشق پر باغیوں کی فتح سے چین اور روس کے برکس (BRICS)کے حوالے سے عزائم پسپا ہوں گے کیونکہ شام میں عدم استحکام کی وجہ سے، مغربی غلبے کو چیلنج کرنے کے ان کے مقاصد ناکام ہوجائیں گے۔
دوسری جانب روس کے شہر قازان میں منعقد ہونے والی برکس کانفرنس میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی شرکت اور ترکیہ کی ممکنہ طور پر برکس اتحاد میں شمولیت سے متعلق بھی مغربی ممالک میں یقینی طور پر سخت تشویش پائی جاتی ہوگی کیونکہ وہ پہلے ہی نیٹو کا رکن ہے اور اس کی برکس میں شمولیت سے مغربی اثرورسوخ کمزور ہوگا۔
سب سے آخر میں شام کی افراتفری میں رجب طیب اردوان کا جو کردار رہا ہے، اگرچہ وہ دلچسپ تھا لیکن اس نے بھی مغرب کو پریشان کیا ہے کیونکہ اس سے خطے کی جغرافیائی سیاسی حرکیات تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔
بشار الاسد کی صدارت میں شام نے بھی برکس کی رکنیت کی درخواست دی تھی۔ ایران، مصر، ایتھوپیا اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی اقتصادی اہمیت کے حامل برکس اتحاد کا حصہ ہیں۔ توقع ہے کہ سعودی عرب بھی رسمی طور پر اس اتحاد میں شمولیت اختیار کرے گا۔ برکس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ واشنگٹن کے لیے تشویش ناک ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اس حوالے سے خبردار کرچکے ہیں کہ برکس عالمی معیشت کو ’ڈی ڈالرائزڈ‘ (ڈالر سے نجات) کرنے کی کوشش ہے۔
تاہم کثیرالملکی برکس تنظیم براہِ راست ڈالر کے عالمی تسلط کو چیلنج نہیں کرے گی بلکہ اس کا مقصد ان ممالک کے لیے معاشی ترقی کے متبادل راستے تلاش کرنا ہیں جو ڈالرز یا دیگر امریکی پابندیوں کی پالیسیز کے باعث متاثر ہورہے ہیں۔
شام میں بپا طوفان میں ایران اور روس کی کشتیاں ڈگمگائی ضرور لیکن وہ شام کے حوالے سے اپنی حکمت عملی سے پیچھے نہیں ہٹے اور بشار الاسد کی حمایت جاری رکھی کیونکہ شام سے ان کے گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ ان دونوں ممالک کی شام میں دلچسپی، مستقبل میں مغربی ممالک کے لیے پریشان کُن صورت حال پیدا کرسکتی ہے۔ روسی افواج کا شام سے انخلا عمل میں نہیں آیا ہے نہ ہی اس نے کوئی عندیہ دیا ہے کہ وہ شام سے اپنی افواج کا انخلا چاہتا ہے جبکہ روس کا اہم بحری بیس بھی طرطوس کے ساحل پر واقع ہے۔
شام میں شہریوں کی جانب سے ایرانی سفارت خانے میں توڑ پھوڑ کی گئی جہاں انہوں نے حزب اللہ کے شہید لیڈر حسن نصر اللہ اور القدس فورس کے چیف قاسم سلیمانی کی تصاویر پھاڑ دیں۔ وہ عسکریت پسند جن کا اب شام پر قبضہ ہے، وہ ایران کو سخت ناپسند کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود ایران نے شام میں اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا ہے۔
ہفتے کو ایران نے حفاظتی بنیادوں پر اپنے سفارتی عملے اور ان کے خاندانوں کو شام سے انخلا کا حکم دیا جبکہ ساتھ ہی ایران نے نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ مسترد کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران نے اپنے فوجیوں کو شام سے نکلنے کا حکم دیا ہے۔
ایرانی سفیر حسین اکبری نے سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام میں ایرانی سفارت خانہ فعال رہے گا جہاں 5 سے 6 سفارتکاروں پر مشتمل عملہ موجود رہے گا جو صورت حال کا قریب سے تجزیہ کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد کریں گے۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے کہا کہ حیات التحریر الشام نے ضمانت دی ہے کہ دمشق میں سیدہ زینبؓ کے مزار کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ رواں ہفتے جمعے کے روز ترکیہ، روس اور ایران کے وزرائے خارجہ کی دوحہ میں ملاقات متوقع ہے جوکہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
ان تینوں ممالک نے 2017ء میں شام کو مستحکم کرنے کے لیے آستانہ گروپ بنایا تھا۔ اگرچہ ترکیہ بھی اس گروپ کا حصہ تھا لیکن رجب طیب اردوان اور بشار الاسد کے درمیان تناؤ تھا۔ تو یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ باغیوں کی حالیہ پیش قدمی کے دوران ایران اور روس بشار الاسد کی مدد کو کیوں نہیں آئے؟ کیا وہ باغیوں کی اچانک اور تیز ترین پیش قدمی پر حیران تھے؟ یا پھر آستانہ گروپ نے کسی مقصد کے تحت غیرمقبول شامی صدر بشار الاسد کو قربان کردیا ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایران کا حزب اللہ کے ساتھ اہم زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ کئی رپورٹس کے مطابق یہ راستہ اسرائیل کی طرف سے شام میں حزب اللہ کی سپلائی لائن ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ چین اور روس کی بڑی ترجیحات کی وجہ سے منقطع ہوا ہے۔ چین اور روس دونوں کے لیے ایران اسٹریٹجک طور پر اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اسے کسی ایسی جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے جس کے نتائج ایران کے حق میں نہ آئیں اور وہ نہ ہی وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روک سکے۔
عرب ممالک اور ترکیہ کی سفارتی حکمت عملی سے فلسطین کے مسئلے کا حل ممکن لگ رہا ہے۔ روس بھی اب یوکرین میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ اب ایرانی تیل چین کی ترجیح نہیں رہا۔
تاہم دمشق میں باغی اتحاد کے عسکریت پسند مغربی میڈیا کی توجہ اور کوریج سے لطف اندوز ہورہے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں افغان مجاہدین مغربی میڈیا کی توجہ کا مرکز تھے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔