ایک دوسرے کے ’زیر عتاب‘ آنے پر خوشیاں منانے والے سیاستدان
دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا احتجاج ناکام ہوگیا۔ ڈی چوک تک پہنچنے والے مظاہرین کو ریاستی اداروں نے بزورِ طاقت واپس دھکیل دیا۔ 26 نومبر کی رات کو کیے جانے والے آپریشن کے بعد اگرچہ ڈی چوک ’صاف‘ تو ہوگیا مگر سیکیورٹی فورسز کے ایکشن کے دوران واقع اموات، زخمی افراد اور املاک کی تباہی سے متعلق متضاد اطلاعات کی دھند ابھی تک منظر پر چھائی ہوئی ہے۔
سوشل میڈیا پر الزامات، طعن و تشنیع اور مغلظات کا ایک طوفان بپا ہے۔ ایک دوسرے کو لتاڑنے کے عمل میں کوئی فریق بھی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ حکومتی صفوں سے پی ٹی آئی کو ناکامی کے طعنے دیے جارہے ہیں تو ان کی جانب سے بھی تندو تیز الفاظ کی گولہ باری جاری ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ’ایکس‘ پر ایک ری پوسٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کی قیادت سے ’کھاریاں کے کھسرے‘ بہتر قرار دیے جو تھانے سے اپنے گرو کو چھڑوا کر لے گئے تھے۔ اس پوسٹ کے ساتھ کھلکھلا کر ہنستی ہوئی ایموجی لگائی گئی تھیں۔ جواب میں پی ٹی آئی کی طیبہ راجا نے بھی ’کھسروں‘ کو ان کی جماعت کے قائد سے بہتر قرار دیا جو ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا کر ملک سے فرار ہوگئے تھے۔
ایک اور صارف نے اخلاقی اقدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نچلی ذات کا شخص بھی کسی کی موت پر طعنہ زنی سے گریز کرتا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے ’ایکس‘ پر پی ٹی آئی کی فائنل کال کو ’مسڈ کال‘ لکھا تو جواباً سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر شہباز گل نے انہیں کم از کم اس وقت ’نسلی‘ رہنے کا مشورہ دیا کہ جب پی ٹی آئی لاشوں کا شمار کر رہی ہے۔
فریقین میں طعنے بازی کی موجودہ صورت حال میں ہمیں ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے مخالفین کے ریاستی عتاب کا شکار ہونے پر بغلیں بجائی ہیں۔
ماضی پر نگاہ ڈالیں تو جب بھی غیر جمہوری قوتوں نے جمہوری حکومتوں کو برطرف کیا، مخالف سیاستدانوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور جشن منایا۔ جمہوریت کے علم برداروں نے آمریت کے اقدام کو درست قرار دیا اور ’زیر عتاب‘ جماعت کو خود بھی دیوار سے لگانے میں اپنا پورا زور صرف کیا۔
'قوتوں کے بل بوتے مخالفین کو نیچا دکھانے کا سلسلہ'
سینئر صحافی اور ترکیہ کی سرکاری نیوز ایجنسی ’انادولو‘ کے پاکستان میں نمائندہ عامر لطیف اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے جب بھی ایک دوسرے کی حکومتیں گرائی ہیں تو اس کا جوش و خروش سے خیر مقدم کیا۔
عامر لطیف کہتے ہیں کہ ’مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 1997ء میں، میں نے صحافت کا آغاز کیا تھا تو انہی دنوں نواز شریف کی حکومت کو جنرل پرویز مشرف نے برطرف کیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی جوکہ جمہوریت کی علمبردار جماعت رہی ہے، اس نے خوشی منائی جبکہ دیگر جماعتوں نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ اسی طرح 2011ء میں جب پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو میمو گیٹ اسکینڈل میں عدالت میں پیش ہونا پڑا تو نواز شریف صاحب انہیں سزا دلوانے کے لیے خود کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ گئے تھے۔
’ماضی قریب میں دیکھیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف عمران خان نے نہ صرف دھرنا دیا بلکہ جب تک سپریم کورٹ سے ان کو برطرف نہیں کیا گیا وہ سڑکوں پر ہی رہے۔ نواز شریف کی برطرفی پر ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے جشن منایا۔ غیر جمہوری قوتوں کے بل بوتے پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں نے اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ اگر مجھے آزادی ہو تو میں کھل کر یہ کہوں کہ ان سیاستدانوں نے اپنی ڈاڑھیاں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں دے رکھی ہیں۔
’ایک حکومت برطرف ہوتی ہے اور اس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آج کل پی ٹی آئی کے خلاف ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں اس کی مذمت تو دور کی بات ہے، اس پر خوشیاں مناتی ہیں۔ اسی طرح جب 2018ء کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان اور مسلم لیگ پر برا وقت آیا تو پی ٹی آئی اس پر خوشیاں مناتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ کے غلط صحیح ہر اقدام کا دفاع کرتی رہی‘۔
عامر لطیف نے کہا کہ ’1990ء کی دہائی سے 2010ء تک چونکہ سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا تو سیاسی مخالفت میں اخلاقی گراوٹ اتنی واضح نہیں ہوتی تھی لیکن اب یہ کھل کر سامنے آچکی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نہ صرف اپنے مخالف بلکہ ان کے خاندان کی خواتین کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، گالم گلوچ کی جاتی ہے پھر وہ چاہے مریم نواز ہوں یا بشریٰ بی بی۔۔۔ سیاسی کارکنان یا صحافی خواتین، سب کے لیے اخلاقیات سے گری ہوئی زبان استعمال ہورہی ہے۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ خواتین کو جہاں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر مخالف خواتین کی بے توقیری کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے تھا، وہ بھی ٹرولنگ میں پیش پیش رہتی ہیں‘۔
سینئر صحافی نے مزید کہا، ’جب کارکنان خود دیکھتے ہیں کہ ان کے رہنما ان باتوں سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ آپ ان کے مخالفین اور ان کی فیملیز کو رگیدیں اور اخلاقی حدود کا خیال نہ رکھیں تو پھر یہ امر نوجوانوں کو مزید اُکساتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی زبان ٹھیک رکھیں اور اس طرح مخالفین کے لیے بدزبانی نہ کریں، برداشت کا مظاہرہ کریں تو ممکن ہے کہ ان کے کارکنان بھی اس سے کچھ سبق سیکھیں اور مجموعی طور پر ہماری اخلاقیات میں بہتری آئے‘۔
'تین تلوار پر آکر دکھاؤ!'
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہر جماعت کے لیڈر پر جب ’کڑا وقت‘ آیا تو ان کے گھر کی خواتین، بیوی، بیٹی یا بہنیں باہر نکلیں اور انہوں نے تحریک چلائی۔ ان خواتین کو بھی حریف جماعتوں اور مخالف خواتین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی کردار کشی کی گئی۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو جنرل ضیا الحق کے دور میں پابند سلاسل کیا گیا تو ان کی بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کے لیے تحریک چلانے سڑکوں پر نکل آئیں جس کے دوران انہوں نے لاٹھی چارج، قید و بند اور کردار کشی کا سامنا کیا۔ بے نظیر بھٹو کی قریبی ساتھی اور سیاسی مشیر ناہید خان، محترمہ کی زندگی کے آخری لمحات تک ان کے ساتھ رہیں۔
موجودہ صورت حال کے حوالے سے ڈان نیوز ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے ناہید خان نے کہا کہ ’ڈی چوک پر احتجاج کرنے والے سیاسی کارکنان کے خلاف طاقت کا استعمال افسوسناک ہے۔ پاکستان کا آئین ہمیں پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔ اپوزیشن کا کام اپنے مطالبات کے لیے آواز اٹھانا ہے۔ ان حالات میں کہ جب پی ٹی آئی فارم 45، 47 کے جھگڑے سے نہیں نکل پا رہی، وہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ ان کا لیڈر جیل میں ہے، ان تمام مسائل پر وہ احتجاج کا حق رکھتے ہیں‘۔
’ہم (پیپلز پارٹی) بھی سڑکوں پر نکلتے تھے اور احتجاج کرتے تھے۔ مارشل لا کے دور میں برسرِاقتدار لوگ ہمیں چیلنج کرتے تھے کہ ’تین تلوار‘ (کراچی میں بھٹو کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کے قریب) پر آکر دکھاؤ اور ہم کارکنان خواہ آٹھ دس ہی کیوں نہ ہوں وہاں احتجاج کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ سیاسی کارکن تو اپنے حق کے لیے نکلے گا، ایسے میں اگر آپ اس پر گولیاں چلائیں، طاقت کا استعمال کریں تو یہ ریاست کی کامیابی نہیں ہے‘۔
ناہید خان کہتی ہیں کہ ’آج سوشل میڈیا کے دور میں عوام سے کچھ بھی مخفی نہیں رہا۔ سیاسی معاملات بھی بدل چکے ہیں۔ ضیاالحق کے مارشل لا میں بھی بھٹو صاحب کے لیے لوگ سڑکوں پر نکلے تھے اور ان لوگوں نے کوڑے کھائے، جیلیں کاٹیں تب تو یہ خبریں لوگوں تک پہنچنے نہیں دی جاتی تھیں۔ اب سوشل میڈیا روایتی میڈیا سے پہلے لوگوں تک واقعات پہنچا دیتا ہے‘۔
مخالف سیاسی جماعتوں کی خواتین کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے رجحان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناہید خان نے کہا کہ ’مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ ہماری مقتدرہ اور سیاستدانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مارشل لا ادوار میں بھی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرکے لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے تھے، کارکنوں کو اٹھا لیتے تھے، خود ہمارے خاندان نے بھٹو کا ساتھ دینے پر یہ سب برداشت کیا اور آج جب ملک میں جمہوری دور ہے تب بھی حکومتوں کے تعاون سے یہ سب جاری ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’محترمہ بے نظیر بھٹو جب سیاست میں تھیں تو ان کی کردار کشی کی گئی۔ ان کے اور بیگم نصرت بھٹو کی تصاویر پر مبنی پمفلٹس جہازوں سے گرائے گئے۔ بے نظیر صاحبہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے دکھی ہوتی تھیں مگر وہ کبھی اس کا جواب نہیں دیتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ غیر اخلاقی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے مخالفین کی سطح پر اترنا ایک لیڈر کے شایانِ شان نہیں ہے۔ وہ کہتی تھیں ’میں نے اللّٰہ پر چھوڑ دیا ہے‘۔ آپ دیکھیں نواز شریف کی گرفتاری کے دوران جب محترمہ کلثوم نواز نے احتجاجی تحریک چلائی تو بے نظیر صاحبہ نے ہمیشہ ان کا احترام کیا، انہیں عزت دی۔ بعدازاں وہ ان کی دعوت پر آصف زرداری کے ساتھ سعودی عرب میں ان کے گھر بھی گئیں۔ بے نظیر صاحبہ اور نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت پر بھی دستخط کیے‘۔
ناہید خان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سیاسی کارکنوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر خاموش رہتی ہے۔
'اپنی باری پر سود سمیت بدلے کا رجحان'
مسلم لیگ (ن) کراچی کے سابق صدر (2011ء تا 2014ء) اور سندھ کے سابق جنرل سیکریٹری (2014ء تا 2018ء) نہال ہاشمی کو نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں ’توہین عدالت ’ کے مقدمے میں جیل کی سزا دی گئی۔ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے حالیہ احتجاج اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے کہا کہ ’مجھے اس پورے مظاہرے اور دھرنے کی منطق پر ہنسی آتی ہے۔ 25 کروڑ کی آبادی میں سے آپ فرض کریں کہ 25 ہزار لوگ بھی جلوس میں شامل تھے تو کیا یہ لوگ آکر ملک کے دارالحکومت میں سب کچھ بند کرکے بیٹھ جائیں گے اور ایک شخص کو جیل سے باہر لے آئیں گے؟
’اس کا مطلب ہے پھر ہم عدالتوں کو بند کردیں اور یہ اصول بن جائے کہ ہر کوئی ہزاروں میں اپنا ایک جتھا لے کر جائے اور اپنی بات منوا لے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ درست ہوگا خواہ وہ پُرامن ہو یا پُرتشدد، آپ ایک ہجوم لےکر کسی کے گھر کے سامنے جائیں کیونکہ پارلیمنٹ بھی ایک گھر کی طرح مقدم ہے، وہاں بیٹھ جائیں اور کہیں کہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ یہاں آمدورفت بند ہوجائے اور کاروبار زندگی رک جائے، یہ کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا‘۔
نہال ہاشمی نے کہا کہ ’دنیا میں لوگ جلوس اور ریلیاں نکالتے ہیں، اگر سڑک میں تین لائنز ہیں تو زیادہ سے زیادہ دو لائن میں چلیں گے اور ایک لائن چھوڑ دیتے ہیں تاکہ آمدورفت میں رکاوٹ نہ ہو، ایمبولینس جا سکے، کوئی ایئرپورٹ جاسکے، غرض یہ کہ کسی بھی ایمرجنسی اور لوگوں کی سہولت کا خیال رکھا جاتا ہے‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ اپوزیشن کے احتجاج پر اعتراض کرنے والی حکومتی جماعت جب خود اپوزیشن میں ہوتی ہے تو یہی سب کرتی ہے، نہال ہاشمی نے مؤقف اپنایا کہ ’ہم سب ایک ہی قوم ہیں پھر چاہے اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، ہماری سوچ ایک جیسی ہے۔ حکومت میں ہوں تو کہتے ہیں کہ اب ہماری باری آئی ہے کل آپ کی تھی کہ جیسے کرکٹ میں بیٹنگ اور فیلڈنگ ہوتی ہے۔ اپنی باری آنے پر ہم سود کے ساتھ بدلہ لیتے ہیں‘۔
نہال ہاشمی نے اپنے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کو یاد کرتے ہوئے اپنی سزا کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے لیے ریاستی اداروں کا ایک پیغام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’میں پلان کرکے تقریر نہیں کرتا، چند سیکنڈز پہلے میرے ذہن میں جو آتا ہے میں وہ بولنا شروع کرتا ہوں۔ اس کیس میں بھی یہ ہوا تھا کہ ایک جگہ پروگرام میں کسی نے مجھ سے پہلے تقریر کی جس کے جواب میں، میں نے کہا ’حساب مانگنے والو! ہم تمہارا حساب یومِ احتساب بنا دیں گے، آج تم حاضر سروس ہو کل ریٹائر ہو جاؤ گے، تمہارے لیے تمہارے بچوں کے لیے زمین تنگ کردیں گے۔ نواز شریف، ایک شریف آدمی ہے جس کو تم تنگ کر رہے ہو‘۔
’اس پوری گفتگو میں کہیں پر بھی میں نے کسی کورٹ کا نام لیا نہ کسی جج کا نام لیا بلکہ اپنی تقریر کے آخر میں میں نے کہا کہ ہم تین عدالتوں کو جواب دہ ہیں، اللہ کی عدالت، اس ملک کے عوام کی عدالت اور اس ملک کے آئین کی عدالت‘۔
’میں نے اگرچہ کسی کا نام بھی نہیں لیا تھا لیکن اس وقت چونکہ ہمیں گھیرنا مطلوب تھا۔ حکومتی جماعت کے کسی آدمی کو عبرت کا نشان بنا کر وزیراعظم نواز شریف کو یہ پیغام دینا تھا کہ تیار ہو جاؤ ہم نے تمہارا بندوبست کر لیا ہے تو انہوں نے مجھے توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ مجھے یاد ہے اس وقت عمران خان صاحب سے لے کر نیچے تک اپوزیشن کے ہر آدمی نے اس پر تبصرے کیے۔ کسی نے کہا ’اس کو پھانسی دے دو‘، کسی نے کہا ’اس کو گولی مار دو‘ جبکہ ان میں سے کسی نے بھی میری تقریر کو غور سے سنا بھی نہیں تھا۔
’میڈیا اور سوشل میڈیا پر میرا مذاق اڑایا گیا، میمز بنائی گئیں۔ آصف سعید کھوسہ کی عدالت سے مجھے پانچ سزائیں دی گئیں۔ مجھے پانچ سال کے لیے نااہل کردیا گیا، میری سینیٹ کی نشست چلی گئی، جرمانہ عائد کیا گیا، مجھے جیل بھیجا گیا اور میرا وکالت کا لائسنس تک منسوخ کردیا گیا مگر میں جیل گیا تو بھی اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ تیری رضا یہی تھی۔
’میں سوچتا ہوں مجھے سزا سنانے والے چاچا رحمتے اور آصف سعید کھوسہ خود آج کتنے باعزت ہیں جو منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ میں مکافاتِ عمل پر یقین رکھتا ہوں، جو آج کسی کے ساتھ زیادتی کرے گا کل وہ تیار رہے۔ آج بھٹو کو پھانسی دینے والے تاریخ میں کیا مقام رکھتے ہیں؟ کیا ہوا مشرف صاحب کے ساتھ؟ کہاں گئے جناب محترم ضیاالحق صاحب؟‘
اس سوال کے جواب میں کہ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا، نہال ہاشمی نے کہا کہ ’یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم نئی نسل کی تربیت نہ کریں‘۔
’2014ء میں ہم نے جو بیج بویا تھا اس کا نتیجہ 24 نومبر کو ہم نے دیکھ لیا۔ آپ اپنے مخالفین کو برداشت نہ کریں، گالی گلوچ، بدتمیزی کریں، اس حد تک آگے نکل جائیں کہ کسی بھی فرد کی ذاتی زندگی، سماجی اور مذہبی اقدار کا لحاظ نہ ہو اور ملک کے مفاد کو بھی نظرانداز کریں تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری تربیت ٹھیک نہیں ہوئی۔
ایم کیو ایم کا ماضی اور پی ٹی آئی کا مستقبل
حالیہ ملکی سیاست میں کئی حوالوں سے پی ٹی آئی کا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کی سابق رکنِ قومی اسمبلی اور سینیٹر خوش بخت شجاعت نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے کی ناکامی کا تجزیہ کیا اور کہا کہ ’تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ مکافاتِ عمل بھی ہوتا ہے اور کچھ ہماری اپنی خامیاں بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہم کسی کام میں بری طرح مار کھا جاتے ہیں۔
’آج میڈیا یا دیگر ذرائع سے اطلاعات اور خود پی ٹی آئی اراکین کی رائے کے تناظر میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تحریک انصاف کی منصوبہ بندی مضبوط نہیں تھی۔ جب پارٹی کا لیڈر درمیان میں موجود نہیں ہوتا تو ہر کوئی لیڈر بن جاتا ہے۔ ان حالات میں کسی احتجاجی تحریک کو چلانا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ اس کا موازنہ اگر ایم کیو ایم سے کریں کہ جس کا لیڈر ملک سے باہر تھا مگر پارٹی کئی دہائیوں تک مضبوط رہی جس کی وجہ ایم کیو ایم کا انتظامی طور پر مضبوط ہونا تھا۔
’میں برملا کہوں گی کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اتنی مضبوط اور منظم نہیں رہی جتنی کہ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی ہیں۔ اس کی واحد وجہ ان کا نظام ہے کہ جس میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہے۔ سب مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگ ہیں‘۔
پی ٹی آئی کے حالیہ دھرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ’پارٹی کی مقبولیت لیڈر کی ذات کی وجہ سے ہے لیکن اس کے اردگرد کی لیڈر شپ میں کافی تضادات نظر آتے ہیں۔ احتجاج کے دوران جس طرح بشریٰ بی بی نے قیادت سنبھالی، اس سے پارٹی میں سیاسی سوچ رکھنے والے افراد جنہوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں، وہ پیچھے رہ گئے یا ہٹا دیے گئے۔ جب کوئی پارٹی اندر سے کمزور ہوتی ہے تو اس کی ہوا اکھڑ جاتی ہے‘۔
خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ’سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ اس میں کبھی کبھی پیچھے ہٹ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ میں سیاسی کارکنان کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال کی ہرگز حمایت نہیں کرتی کیونکہ ایم کیو ایم بہت کچھ سہ چکی ہے لیکن ڈی چوک کے معاملے میں صورت حال ’کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘ کے مصداق تھی‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ سیاست دان مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے غیر سیاسی قوتوں کا دست و بازو کیوں بن جاتے ہیں، خوش بخت شجاعت نے کہا ’میں کھل کر یہ کہوں گی کہ جب سیاستدان کسی کے کاندھوں پر بیٹھ کر آتے ہیں تو انہیں دوسروں کو مطعون نہیں کرنا چاہیے اور جس کے کاندھے پر آئے تھے، اس کی بات کو سننا اس کے راستے پر چلنا پڑتا ہے اور جو کہے اپنے منہ سے وہی آگ اُگلنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
’ہماری پوری تاریخ میں یہی ہوتا رہا ہے پھر جو ان کو لے کر آتے ہیں انہیں جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھاری ہوگئے ہیں اور ہمارے کاندھے پر بوجھ بن چکے ہیں تو وہ اس بوجھ کو جھٹک کر نیچے پھینک دیتے ہیں اور ایسا کرنے پر سیاستدانوں کو بہت برا لگتا ہے۔
حالات کیسے بدلیں گے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ’سیاستدان نیک نیتی سے کام کریں اور اپنے زورِ بازو عوام کی طاقت سے اقتدار میں آئیں تو میں سمجھتی ہوں پاکستان کوئی اندھیر نگری نہیں ہے، انشااللہ سب کو عقل آ جائے گی۔ ہٹ دھرمی نہیں ہونی چاہیے، اپنے دل و دماغ کو ملک کے وسیع تر مفاد میں کھلا رکھیں۔
انہوں نے امریکی انتخابات کے حوالے سے کہا کہ ’امریکا میں حالیہ صدارتی انتخابات کے موقع پر میں وہیں موجود تھی۔ انتخابی مہم کے دوران اتنے خوشگوار منظر نظر آئے کہ امیدوار اسکرین پر آکر عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بحث کرتے ہیں اور دلائل کی بنا پر اور کارکردگی کے بل پر عوام کو اپنے حق میں ووٹ دینے کے لیے قائل کرتے ہیں۔ اس کے بعد عوام جو فیصلہ کرتے ہے اسے قبول کرتے ہیں۔
’ہم نے دیکھا ڈونلڈ ٹرمپ جیتے تو کاملا ہیرس نے انہیں مبارکباد دی، جوبائیڈن نے کہا وہ ٹرمپ کی حلف برداری میں شریک ہوں گے۔ وہاں ہارنے والے اپنے مخالف سے کہتے ہیں کہ تم جیت گئے اب تم کام کرو ہم روڑے نہیں اٹکائیں گے، ہم دھرنے نہیں دیں گے، ہم لانگ مارچ نہیں کریں گے، ہم پارلیمنٹ میں لڑیں گے، بحث کریں گے، مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے اور تم نے غلط کیا تو اگلے انتخابات میں تمہیں مات دیں گے۔ ہمیں بھی اسی نوعیت کی جمہوریت رائج کرنے کی ضرورت ہے۔
’میں ناامید نہیں ہوں یہ ملک اللہ تعالی نے ہمیں عطا کیا ہے، انشااللہ تعالیٰ یہ پھلتا پھولتا رہے گا۔ انتخابات ہوتے رہیں گے جن کی چھلنی میں برے لوگ چھنتے چلے جائیں گے اور یوں آہستہ آہستہ ملکی نظام میں بہتری آ جائے گی‘۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔