اسٹیبلشمنٹ، مفاد پرست سیاستدان راستے سے ہٹ جائیں اور ناکامی تسلیم کریں، مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نےکہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، مفاد پرست سیاستدان راستے سے ہٹ جائیں اور ناکامی تسلیم کریں۔
سکھر میں سندھ باب السلام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 77 سال سے جو قوتیں پاکستان پر مسلط ہیں ان کو گریبان میں جھانکنا چاہیے، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، مفاد پرست سیاست دانوں اور بیورو کریسی کو کہنا چاہتا ہوں آپ کے بس میں ملک کی خوشحالی نہیں، آپ راستے سے ہٹ جائیں اور اپنی ناکامی کو تسلیم کریں۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کی طاقت کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے، غلط حکمرانی کی وجہ سے ملک میں قدم قدم پر اضطراب ہے، خون بہہ رہا ہے اور وسائل پر قبضہ کیا جارہا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ تمام صوبوں پر اس کی عوام کا حق ہے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ وہاں کے وسائل پر جبراً قبضہ کرے، ہم نہ اپنے بچوں کا حق کسی کو دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستان کو انارکی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، عوام آئین اور قانون کا احترام کرتی ہے لیکن اگر ملک میں قانون پر حکمرانوں کی جانب سے عمل درآمد نہیں تو پھر قوم بھی اس کی پابند ہونے کی مجاز نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اسمبلیاں بنائی جاتی ہیں، یہ عوام کی منتخب اسمبلیاں نہیں ہوتیں، ہر اسمبلی کے حوالے سے ایک ایجنڈا ہوتا ہے کہ ہم اس سے یہ قانون سازی اور ترامیم پاس کرائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ سے حکمرانوں اور ان کی پشت پر کھڑی طاقتور قوتوں نے آئین کا حلیہ بگاڑنے کا سوچا ہے، ماضی کے آمروں نے بھی اس آئین کا مذاق اڑایا تھا پھر 18 ویں ترمیم کے ذریعے سے اس کی تلافی کی گئی، جو کچھ ہم نے حاصل کیا تھا اس محنت پر پانی پھیرنے کے لیے ایوان میں 26 ویں ترمیم لائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ظلم کیا گیا، قومی اسمبلی میں ہماری 16 سیٹوں کو 8 کردیا گیا، یہ صرف ہماری جماعت کے خوف سے کیا گیا کیونکہ جے یو آئی (ف) والے غیر آئینی کام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسا مسودہ دیا گیا جو آئینی ترمیم نہیں بلکہ ایک ایسا کالا ناگ تھا جس میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال اور عدلیہ کا بیڑا غرق کردیا گیا تھا، مزید کہا کہ ایک ماہ کی محنت کے بعد 56 شقوں والے مسودے کو ایک قابل قبول مسودے میں تبدیل کیا گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 8 اراکین کے ساتھ اتنی پیش رفت پاکستان میں دین دار طبقے کی آرزؤں کا مداوا ہے، سیاست میں قوت لازم ہوتی ہے۔
انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے حوالے سے کہا کہ جو کچھ اسلام آباد میں ہوا، مجھے کسی پارٹی کے فیصلے سےغرض نہیں، وہ اپنے فیصلے کے خود ذمہ دار ہیں، اگرمشورہ مانگیں گے تو دیا جائے گا، ایک صوبے سے جب قافلے آرہے تھے اس وقت ان کے لیے راستے چھوڑے گئے اور کہا گیا کہ ہم گولی نہیں چلانا چاہتے، جب وہ ڈی چوک پہنچ گئے تو پھر گولی کیوں چلائی؟ ہم اس حوالے سے حکمرانوں کے پرتشدد رویے کی مذمت کرتے ہیں، ہر پارٹی کو جلسہ کرنے اور مظاہرہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس صوبے سے آپ کو یلغار کی شکایت ہے اس صوبے کی حکومت بھی تو آپ نے بنائی تھی، وہاں دھاندلی بھی تو آپ نے کرائی تھی، جب نااہلوں کو حکمرانی دی جائے گی تو پھر اس کے یہی نتائج ہوں گے۔
’جے یو آئی (ف) اور مدارس اسلام آباد کا رخ کریں گے، تو کوئی نہیں روک پائے گا‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مسلح گروہ علاقوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے، بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال حکمرانوں کے بس کی بات نہیں رہی، امن قائم کرنے والے ادارے کس چیز کی تنخواہیں لے رہے ہیں، سیاسی لوگوں کے کارکن شہید ہوتے ہیں تو وہ بھی جنازے اٹھاتے ہیں اور آپ بھی اپنے کندھوں پر شہدا کے جنازے اٹھاتے ہیں تو بتایا جائے کہ عام لوگوں اور آپ کے فرائض میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہم سب کا ملک ہے اور اسے ہم نے سنبھالنا ہے، ہم اس ملک کے اندر رہتے ہوئے اور اس ملک کو مستحکم کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے اپنے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) اور دینی مدارس پورے ملک سے اٹھ کر اسلام آباد کا رخ کریں گے، جب یہ وفاقی دارالحکومت کی طرف جائیں گے تو اسے کوئی نہیں روک پائے گا۔
سربراہ جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے 8 فروری کے الیکشنز کو تسلیم نہیں کیا اور نہ آج کرتے ہیں، یہ اسمبلیاں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ ہیں، یہ عوام کی نمائندہ نہیں ہیں خریدی گئی ہیں، ملک میں دوبارہ منصفانہ الیکشنز ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔