اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
میں اکثر جب رات کی خاموشی میں اپنی تحریریں لکھنے میں مشغول ہوتا ہوں تو کبھی کبھی جملہ کمپوز کرتے کرتے رُک جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ انسان میں اپنے تحفظ کے حوالے سے اتنی بے یقینی کیوں پائی جاتی ہے؟ یا دوسرے الفاظ میں اپنے قبضے میں لیے یا ملے ہوئے علاقے یا کسی چیز کے حوالے سے انسان اتنی شدید سنجیدگی کا شکار کیوں ہوجاتا ہے کہ مرنے یا مارنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے؟
اس سوال کے آپ کو سیکڑوں جواب مل سکتے ہیں۔ بہرحال ہم یہاں اتنا کہہ کر اس بات کو ختم کرتے ہیں کہ جس طرح تمام خصوصیات انسان کی سرشت میں بوئی ہوئی ہیں، یہ خصوصیت بھی انسان کے خون میں ابتدا سے شامل ہے۔
گزرے لاکھوں برسوں سے دیگر عادات کے مقابلے میں اس کی جڑیں شاید کچھ زیادہ ہی مضبوط رہی ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس جبلت کی تسکین کے لیے ہتھیاروں کی فیکٹریاں، ہتھیار بنانے میں اتنی مصروف نہ ہوتیں اور بارود کی نئی اقسام بنانے کی بجائے ہم کینسر، شوگر اور دیگر بیماریوں کے خاتمہ کے لیے ویکسین بنانے میں مصروف ہوتے۔ تو کیا ہزاروں برسوں کے اس حیاتیاتی سفر میں ہم انسانوں نے ابھی تک مثبت اور منفی میں تمیز کرنا نہیں سیکھی؟
میاں عبدالنبی کی ہوس نے کلہوڑا حکومت کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال دیں اور ایک صدی تک قائم رہنے والی خاندانی حکومت 1784ء میں ’ہالانی‘ نامی جنگ میں دھڑام سے آ گری۔ جب حالات کی دھند چَھٹی تو سندھ کے تخت پر کلہوڑوں کی جگہ تالپور تخت کے مالک تھے اور میر فتح علی خان تالپور سندھ کا حاکم تھا۔ حکومت اور حاکم ضرور تبدیل ہوئے تھے مگر قبائل کی دشمنیوں کی بَھٹیوں میں جلتی ہوئی آگ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
مکلی پر کلمتیوں اور جوکھیوں کی پہلی جنگ کلہوڑا دور میں اس وقت ہوئی تھی جب بجار جوکھیو کو ابھی جام کا لقب نہیں ملا تھا اور جوکھیوں کی سرداری جام مرید کے بیٹے کریم داد کے پاس تھی۔
رانو ارجن کے قتل کے واقعے کے بعد سرداری کی پگڑی بجار کے سر پر آئی۔ اس پہلی جنگ میں جوکھیوں کا سپہ سالار بجار جوکھیو جبکہ کلمتی بلوچوں کا سپہ سالار میر مزار تھا۔ اس جنگ میں جیت کلمتی بلوچوں کی ہوئی اور جوکھیوں کا قبیلہ ہارا۔
مکلی والی پہلی جنگ نے ان قبائل کے درمیان دشمنی کا بیج بو دیا۔
مکلی کی دوسری جنگ سے پہلے کئی سیاہ، ٹھنڈی اور چاندنی راتوں میں دھوکے اور فریب میں کتنے بے گناہوں کی گردنیں کٹیں، کتنوں کے پیٹھ میں کٹار گھونپی گئی اور کتنا ٹھنڈا خون پہاڑوں سے بہہ کر مٹی میں خشک ہوا۔
مرنا یا مارنا کچھ لمحات کا کھیل ہوسکتا ہے مگر گھر میں اس مرنے والے کے انتظار میں بیٹھے ان معصوم آنکھوں کا کیا جن کی آنکھوں کے ریگستان میں اپنے باپ کے آنے کا انتظار ساری عمر زقوم کی جھاڑی کی طرح اُگتا رہتا ہے؟ آخر 19 برس بعد وہ دن آیا جب ان برسوں میں بہے خون کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے جنگ کی تاریخ کا اعلان ہوا۔
جاڑے کے یخ بستہ موسم میں 2 فروری 1789ء پیر کے دن مکلی میں جنگ کا میدان سجنا طے پایا۔ ہم کبھی نہیں چاہتے کہ دو بندے آپس میں لڑیں اور انسان انسان کا خون بہاتا پھرے کیونکہ دنیا میں زبان سے فیصلہ کرنے سے زیادہ کچھ طاقتور نہیں ہے۔ دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالیں جہاں انسان انسان کے خون کا پیاسا ہے۔
فروری کو جوکھیا اور کلمتی بلوچ مکلی پر آمنے سامنے آئے۔ وقت کے حاکم میر فتح علی خان تالپور نے جنگ کو روکنے کی کوشش ضرور کی ہوگی مگر کبھی کبھی بات اُس پرندے کی طرح ہوتی ہے جو آپ کے ہاتھ سے اڑ چکا ہوتا ہے یا اس تیر کی طرح جو کمان سے نکل چکا ہو۔ ان دونوں حالات میں آپ کے بس میں اس عمل کو روکنے کے لیے بے بسی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ میر فتح علی خان کی بھی یہی کیفیت رہی ہوگی۔
جنگ مقررہ وقت اور تاریخ پر ہوئی اور جب جنگ ختم ہوئی تو جوکھیوں نے جنگ جیتی اور کلمتی بلوچوں کا سپہ سالار میر مزار جنگ میں مارا گیا جس کی قبر مکلی میں ہے۔ اس جنگ کی کامیابی نے جام بجار کی طاقت میں اور اضافہ کیا۔ ڈاکٹر بلوچ کے مطابق، جام بجار نے اس مکلی والی دوسری جنگ کے 8 برس بعد 1211 ہجری (1796ء) میں آخری سانسیں لیں۔ جام بجار کی قبر چوکنڈی میں ہے۔ ہم اس دردناک جنگ کے اختتام پر ان قبائل کے آپس میں لڑنے کے ذکر کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ کسی قسط میں ہم نے کراچی کے قرب و جوار میں موجود ان قبرستانوں کا ذکر کیا تھا جو یقیناً ہیں تو قبرستان مگر ان قبرستانوں پر سنگ تراشی کے نازک اور نفیس ہنر کی ایک کائنات بستی ہے۔ دنیا میں جب کراچی کا تعارف کروایا جاتا ہے تو کراچی شہر، سمندری ساحلوں، ماہی گیری، ڈیلٹا اور ان قدیم قبرستانوں کا ذکر بھی ضرور ہوتا ہے کیونکہ ان کے بغیر کراچی کا تعارف نامکمل ہے۔
ان قبرستانوں کے متعلق ہمیں بہت تفصیل سے بات کرنا ہوگی۔ مگر اس سے پہلے کلہوڑا دور میں کراچی شہر سے متعلق تاریخ کے پنوں پر تحریر کچھ ابہام کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ جیسے ہی ان غلط فہمیوں پر ہماری بات مکمل ہوگی، ہم ان قبرستانوں کے موضوع پر یقیناً لوٹ آئیں گے کیونکہ یہ صرف قبرستان نہیں ہیں بلکہ ان کے تخلیق کی قدامت ہزاروں صدیوں کی ان پگڈنڈیوں کی طرح ہیں جن کے پاس ہمیں سنانے کے لیے بہت سارے حقائق اور پُراسرار کہانیاں ہیں۔
جب سندھ پر کلہوڑوں کی حکومت قائم ہوئی۔ ان دنوں قلات (بلوچستان) پر احمد زئی بروہیوں کی حکومت تھی۔ سندھ کے کلہوڑا حکمرانوں کا جن قلات کے حاکموں سے واسطہ پڑا اُن میں،
- میر احمد خان اول (1666ء-1695ء)
- میر محراب خان اول (1695ء-1697ء)
- میر سمندر خان (1697ء-1714ء)
- میر احمد خان دوم (1714ء-1716ء)
- میر عبداللہ خان (1716ء-1734ء)
- میر محبت خان (1734ء-1749ء)
کراچی کو قلات کے حوالے کرنے والی بات پر بحث کرنے سے پہلے ہم اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ 18ویں صدی میں کراچی کا نام تحریر کے دائرے میں آنے لگا تھا جس کا مختصر سا ذکر گزشتہ قسط میں ہوچکا ہے اور ساتھ ساتھ معروضی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے یہ نام لوگوں کے زبان پر بھی آنے لگا تھا۔ ہم ناؤنمل کا اس حوالے سے ذکر کرنے سے کچھ دور ہیں جب وہ کھڑک بندر میں ریت بھرنے کی وجہ سے 1729ء میں کراچی میں آ بسا تھا۔
1729ء سے تقریباً 29 برس پہلے یعنی 1700ء میں ایک واقعہ ہوا جس کی وجہ سے کچھ مصنفین نے تحریر کیا کہ کراچی کی بندرگاہ، قلات کے خوانین کے حوالے کی گئی۔ چلیے کراچی بندرگاہ اور اس کی قلات حوالگی کے متعلق تاریخ کے کتابوں سے رجوع کرتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ میں نے جب تحفتہ الکرام (جس کی تصنیف 1180 ہجری یعنی 1766ء میں ہوئی تھی) کے اوراق کو پلٹا تو اس حوالے سے مجھے ایک جملہ بھی نہیں ملا۔
ان حالات کے متعلق ہم محترم غلام محمد لاکھو سے تھوڑا جان لیتے ہیں، ’کلہوڑا حاکم میاں نصیر کے دور حکومت (1681ء) میں ’کاچھو‘ (سیہون سے میہڑ تک پہاڑی سلسلہ کے مشرق میں پھیلی اراضی) میں اس پر کلہوڑوں کا مکمل قبضہ تھا۔ وہ شاہی دمامہ (شاہی نقارہ) اور نوبت کے ساتھ اپنی حکومت کی اراضی کو مسلسل وسعت دے رہا تھا اور گمان غالب ہے کہ شکارپور سے آگے بڑھ کر وہ یا اس کے فوجی سالار سبی اور ڈھاڈھر تک جا پہنچے تھے‘۔
ڈاکٹر بلوچ کی تحقیق کے مطابق، میاں نصیر کی حکومت نقاروں اور نوبت سے قائم ہوئی تھی۔ میاں نصیر نے بکھر سرکار کے بالکل آخری حدود میں ’ٹکر‘ کاچھو میں آ کر نئی ’گاڑھی‘ نامی بسائی اور اسے کلہوڑوں کی پہلی تخت گاہ کا اعزاز حاصل ہوا۔ میاں نصیر نے شاندار طریقے سے حکومت کی اور 1103 ہجری یا 1692ء میں وفات پائی۔ بکھر پر 1681ء کے بعد کوئی مغل گورنر مقرر نہیں ہوا تھا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی سندھ میں کلہوڑا حکمران ایک طاقت بن کر ابھرے تھے۔ اس کے بعد اس کا بڑا بیٹا میاں دین محمد حکمران بنا۔
میاں دین محمد نے اپنی حکومت کی اراضی کو وسعت دینے کے لیے دوسرے لوگوں کی بستیوں اور زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا۔ وہ لوگ جن کی زمینوں پر زبردستی قبضہ ہوا، اپنی شکایات لے کر شہزادے معیز الدین کے پاس پہنچے جو ان دنوں لاہور اور ملتان کا گورنر تھا۔ معز الدین نے ان شکایتوں کے ازالے کے لیے اپنے اہم آدمی بھیجے مگر وہ میاں کے لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے یا انہوں نے بھاگ کر اپنی زندگی بچائی۔
میر علی شیر قانع لکھتے ہیں کہ بکھر کے حاکم الہ یار خان نے بھی بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ قنبر خان بروہی اور کلہوڑوں کے میرن شاہ میں لڑائی ہوئی مگر خان بروہی لڑ نہیں سکا۔ سبی اور شکارپور کے حاکم پِنی پٹھان سے بھی کلہوڑوں کی لڑائیاں جاری رہیں۔ یہ حالات دیکھ کر شہزادے نے سندھ پر لشکر کشی کا فیصلہ کیا۔ شہزادہ جب بکھر پہنچا تو میر محمد کلہوڑو (میاں دین محمد کا چھوٹا بھائی) اپنے ساتھ دو وکیلوں کھمن فقیر اور قاسم فقیر کو لے کر بکھر پہنچا اور شہزادے سے بات چیت کرکے صلح کروائی۔
اس کے بعد شہزادے نے واپس لاہور جانے کے لیے سفر شروع کیا۔ معز الدین ابھی راستے میں ہی تھا تب کلہوڑوں کے دو فقیر اپنے لشکر کے ساتھ ماتھیلو اور اُچ تک آ پہنچے۔ معزالدین یہ سن کر واپس لوٹا اور 6 ماہ تک سیہون اور سکھر کے بیچ میں گاڑھی میں رہا۔ اس دوران نئے گاج کے کنارے ’کھوڑ‘ نامی میدان میں مغلوں اور کلہوڑوں میں خون ریز جنگ ہوئی جس میں کلہوڑوں کے نامور سپہ سالار مارے گئے مگر مغلوں کو جیتنے نہیں دیا۔
’قانع‘ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد معزالدین، میاں دین محمد کو اپنے ساتھ ملتان لے گیا اور وہاں اسے (1111 ہجری یا 1700ء میں) پھانسی دے دی۔ اس حادثے کے بعد میاں یار محمد (میاں کا منجھلا بیٹا) قلات پناہ لینے کے لیے قلات چلا گیا جہاں پہلے تو بروہی لڑائی کے لیے تیار ہوکر آئے اور لڑائی کے دوران میر محراب خان قتل ہوگیا۔ میاں یار محمد نے اپنے بیٹوں میاں نور محمد اور میاں محمد خان کو ضمانت کے طور پر دیا اور صلح ہوگئی۔
یہ واقعہ اسی برس یعنی 1700ء کا ہے۔ کتابوں میں جو میر محراب خان کے وفات کا برس 1697ء دیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اگر 1697ء کو کچھ دیر کے لیے ہم درست مان لیں تو پھر ہمیں ’مآثر عالمگیری‘، آداب عالمگیری’ کے جو ایک ترتیب سے انکار کرنا پڑے گا جو ممکن نہیں ہے۔
قلات کا پہلا تاریخی تذکرہ اخوند محمد صدیق نے 1860ء میں ’اخبارالابرار‘ کے نام سے تحریر کیا۔ وہ اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ ’جنگ کے بعد دو تین دن میر محراب زندہ رہا اور وصیت کی کہ میرے بعد میری حکومت میرے بڑے بھائی قنبر کے بڑے بیٹے میر سمندر کو دے دی جائے۔ خان کے اس حکم پر عمل کیا گیا۔ چغتہ بادشاہ نے کورو اور کاراچی کے علاقے، کلہوڑوں سے لے کر میر محراب خان کے خون بہا کے طور پر احمد زئیوں کو دیے گئے‘۔
آخری احمد زئی حکمران میر احمد یار خان اس واقعہ کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ ’راء محمد اور نور محمد کو سمندر خان پکڑ کر اورنگزیب کے پاس لے گیا۔ بادشاہ نے خوش ہوکر اسے امیر الامرا کا خطاب دیا اور ساتھ ہی رقم بھی انعام میں دی اور میر محراب کے خون بہا کے طور پر کراچی بندر بھی بروہیوں کو دیا جبکہ سالانہ 40 ہزار روپے کا خراج بھی خان بلوچ کو دلوایا‘۔ تاریخ دان ہتورام کی تحریر (1907ء) کے مطابق، محراب خان، درہ مولہ میں میاں نور محمد کے ہاتھوں قتل ہوا جس کے خون بہا کے طور پر کراچی قلات کو دیا گیا۔
کراچی کی قلات کو حوالگی کے متعلق کچھ تاریخ دانوں کی تحریریں آپ نے پڑھیں اور ساتھ میں ان دنوں کے سیاسی حالات پر بھی ہم مسلسل بات کرتے آئے ہیں۔ اب یہاں کچھ سوالات ذہن میں آتے ہیں جن میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس زمانے میں یعنی 1700ء میں کراچی کا شہر یا بندرگاہ موجود تھی تو اس پر کس کا کنٹرول تھا؟
اس واقعہ کے 18 یا 19 مہینوں کے بعد میاں یار محمد قلات سے واپس شمالی سندھ پہنچا اور اپنی حکومت کی نئے سرے سے تعمیر میں مصروف ہوگیا۔ ’قانع‘ ہمیں بتاتے ہیں کہ قلات کے بروہی، سبی کے پٹھان، شکارپور کے داؤد پوتے اور خود شہزادہ معزالدین بھی ان دنوں میں موجود تھے اور میاں کے سخت مخالف بھی تھے۔ چونکہ اُن دنوں مغل سلطنت انتہائی کمزور کیفیت میں تھی اورنگزیب دہلی سے دور اور جنوب کی جانب فتوحات میں مصروف تھا۔
سندھ مرکز سے دور تھا اور یہ بھی خبریں ہندوستان کے آسمان پر کبوتروں کی طرح اڑتی تھیں کہ اورنگزیب کی طبیعت میں اب وہ شوخی اور دیوانگی نہیں رہی جو دارا کو قتل کرنے کے وقت تھی۔ وقت کی دیمک اس کی صحت کو انتہائی تیزی سے چاٹ رہی تھی اور اس واقعہ کے 7 برس بعد یعنی 1707ء میں جاڑے کے ٹھنڈے موسم کے اختتام پر یعنی مارچ 1707ء میں احمد نگر میں اورنگزیب نے اپنی آخری سانسیں لیں۔ ایسی سیاسی صورت حال میں کلہوڑوں کو اپنی حکومت کی عمارت تعمیر کرنے کا ایک شاندار موقع مل گیا۔
میاں یار محمد نے پنوہروں کے شہر شکار پور پر قبضہ کرکے اسے خدا آباد کا نام دے کر اپنا تخت گاہ مقرر کیا۔ ’مآثر الامرا‘ میں شاہ نواز خان لکھتے ہیں کہ ’میاں یار محمد آہستہ آہستہ اپنی طاقت کو وسعت دینے میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ درہ بولان تک جو قندھار تک پھیلا ہوا ہے وہاں تک کے پرانے زمین داروں کی زمینوں اور تحصیلوں پر قبضہ کرتا گیا اور روز بروز اس کی قسمت کا ستارہ روشن ہوتا گیا‘۔
اس کی بڑھتی طاقت کو محسوس کر کے معزالدین نے اس کو حاکم مانا اور ڈاڈھر اور گنجابہ کے دروں کی حفاظت بھی میاں یار محمد کے حوالے کی اور ساتھ میں ’خدا یار خان‘ کا لقب بھی میاں کو ملا اور ایک عہد نامہ بھی ہوا جس کے مطابق،
- سرحدی دَروں کی حفاظت کی جائے گی۔
- ملتان اور ٹھٹہ کے نوابوں کی ضرورت پڑنے پر مدد کی جائے گی۔
- ایران کی سرحدوں پر نظر رکھی جائے گی اور ملنے والی معلومات مرکز تک پہنچائی جائے گی۔
اورنگزیب نے 3 مارچ 1707ء کو یہ جہان چھوڑا۔ مرکز میں شاہ عالم ’بہادر شاہ اول‘ کے لقب سے ڈولتی مغل سرکار کا حاکم بنا۔ تقریباً 5 برس کے بعد شہزادہ معزالدین جو شاہ عالم کا بڑا بیٹا تھا وہ تخت پر بیٹھا۔ مولوی محمد ذکا اللہ لکھتے ہیں کہ ’معزالدین 20 محرم 1123 ہجری کو اپنے بھائیوں سے فارغ ہوکر (مطلب انہیں قبر کے ٹھنڈے اندھیروں میں دفن کرکے) 52 برس کی عمر میں سلطنت کے تخت پر بیٹھا اور ’جہاں دار شاہ‘ اس نے اپنا خطاب رکھا۔ یہ شاہ عالم بہادر شاہ کے سب سے بڑے بیٹے تھے‘۔
چونکہ ملتان میں رہنے کی وجہ سے میاں یار محمد سے اس کے تعلقات اچھے تھے اس لیے کسی بڑی پریشانی کے بغیر میاں صاحب نے 18 برس تک بڑے مزے سے حکومت کی اور 14 ستمبر 1719ء میں اس بے وفا جہان سے کوچ کرگئے۔ وفات کے دنوں میں میاں کی حکومت کا دائرہ سیہون سے سبی اور گنجابہ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا میاں نور محمد خدا یار خان کے لقب سے باپ کے تخت پر بیٹھا۔
قلات اور کراچی کا ذکر ابھی باقی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات بھی سچ نکلے کہ کراچی بالکل قلات کے حوالے کا گیا تھا مگر یہ کب ہوا تھا؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہم جلد ملتے ہیں تاریخ کی ان دکھدائک، دلچسپ، اسراروں سی بھری پگڈنڈیوں پر۔
حوالہ جات
- ’جنگناما‘۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
- ’سقوط قلات‘۔ پرویز احمد۔ فکشن ہاؤس، لاہور
- ’تحفتۃ الکرام‘۔ میر علی شیر قانع۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
- ’منتخب اللباب‘۔ خافی خان نظام الملک۔ مترجم: محمود احمد فاروقی۔ نفیس اکیڈمی، کراچی
- ’تاریخ کلہوڑا۔ غلام رسول مہر۔ مترجم: شمشیرالحیدری۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
- ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ بلوچی‘۔ عبدالمجید جوکھیو بکھری۔ مترجم: ڈاکٹر عبدالرسول قادری۔ ڈاکٹر نبی بخش ریسرچ فاؤنڈیشن، حیدرآباد