• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

19 نومبر: یومِ مرداں یا یومِ بیت الخلا؟

شائع November 19, 2024

ہم نے سب سے سنا کہ ’مرد روتے نہیں‘۔ بھائی امیتابھ بچن نے مکالمہ فرمایا، ’جو مرد ہوتا ہے اسے درد نہیں ہوتا‘۔ جگر بریلوی کا شعر پڑھا،

وہ مرد ہے جو کبھی شکوہجفا نہ کرے،
لبوں پہ دَم ہو مگر نالہ وبکا نہ کرے

اور پھر خود شعر کہا،

صاحبو! یہ جو مرد ہونا ہے
اس کا مفہوم چُھپ کے رونا ہے

مگر اب ہم نے سوچ لیا ہے کہ جو مرد کو پلاسٹک اور الاسٹک کا بنا ہوا سُجھائیں، ایسے سارے مقولے رد کردیں گے اور اپنے ہی شعر کو سند نہ مانتے ہوئے کُھل کر روئیں گے اور اتنا روئیں گے کہ حد کردیں گے۔

اور کیوں نہ روئیں؟ بھلا بتائیے، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو ہمیں پتا چلا تھا کہ مردوں کا بھی دن ہوتا ہے اور ہم یہ سوچ کر کتنا خوش تھے کہ دالوں، ریڈیو، جنگلی حیات، سمندری گھاس اور کتوں کے ساتھ ہمیں بھی یہ شرف حاصل ہوا کہ ہمارا دن منایا جائے لیکن اب ہم پر منکشف ہوا ہے کہ جس 19 نومبر کو یوم مرداں منایا جارہا ہوتا ہے عین اسی تاریخ کو ’بیت الخلا کا عالمی دن‘ بھی منانے کو رکھ دیا گیا ہے۔

صاف لگتا ہے کہ یہ حرکت ہم مردوں کو چِڑانے، ستانے، جلانے، رلانے اور تپانے کے کی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنا دن چاہ کر بھی نہ منا پائیں اور اگر اس روز کوئی ریلی نکالیں، جلسہ کریں یا پنڈال سجائیں تو ٹی وی چینل اور اخبارات اس مخمصے میں پھنس جائیں کہ یہ اجتماعات مردوں کے دن کے ہیں یا یوم بیت الخلا کی سج دھج ہیں۔

ایسے میں کسی اخبار میں جلوس کی تصویر اس جملے کے ساتھ شائع ہوسکتی ہے، ’یوم بیت الخلا پر بیت الخلاؤں کا جلوس آئی آئی چندریگر روڈ سے گزر رہا ہے‘ یا ’جلوس میں شریک ایک بیت الخلا پوسٹر اٹھائے کھڑا ہے جس پر درج ہے کہ قوموں کی عزت ہم سے ہے‘۔

اسی طرح عجلت کی عادت میں مبتلا ٹی وی چینل مردوں کی تقریب کی خبر ان الفاظ میں نشر کرسکتے ہیں، ’یوم بیت الخلا کی تقریب میں کھانے کے وقت بھگدڑ مچ گئی، بریانی کے لیے بیت الخلاؤں کی چھینا جھپٹی، ایک بیت الخلا دوسرے بیت الخلاؤں کے پیروں تلے کچل کر زخمی ہوگیا‘۔

اگر ہم یہ دونوں دن ایک ہی تاریخ کو منانا بدنیتی نہ سمجھیں تو آپ ہی بتائیں پھر کیا سمجھیں۔ آخر ہماری صنف اور جائے رفع حاجت میں ایسی کون سی مماثلت ہے کہ انہیں یک جان دو قالب سمجھ لیا گیا؟

—تصویر: میٹا اے آئی
—تصویر: میٹا اے آئی

ہوسکتا ہے یوم بیت الخلا کے لیے اس تاریخ کا انتخاب کرنے والے خواتین کے مردوں پر گندے ہونے اور گندگی پھیلانے کے الزام سے متاثر ہوں، حالانکہ اس الزام میں کوئی صداقت نہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ناحق ہم مردوں پر تہمت ہے کچرا پھیلانے کی. ہم کو عبث بدنام کیا جاتا ہے، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ بیگم صاحبہ گرم گرم چائے لے کر آئیں تو شوہر کو اس خیال سے سگریٹ فوری فرش پر پھینکنا پڑتی ہے کہ کچھ فاصلے پر رکھی ایشٹرے تک پہنچ کر اس سیگریٹ میں بجھاتے بجھاتے کہیں بیگم کی خلوص و محبت سے بنائی جانے والی گرما گرم چائے ٹھنڈی نہ ہوجائے۔

پھر چائے پیتے ہوئے اس پھینکے ہوئے ٹوٹے کی جانب بار بار نظر اٹھتی ہے اور یہ سوچ کر دل دُکھتا ہے کہ ابھی کچھ دیر پہلے محترمہ نے کس محنت سے نہ آنے والی ماسی اور کھڑکیوں سے آنے والی ہوا کو جھاڑو کی رفتار سے زبان چلا کر برا بھلا کہتے ہوئے کمرے کی جھاڑ پونچھ کی تھی۔ یوں توجہ بٹنے کے نتیجے میں پیالی چھلکتی اور چائے تازہ تازہ دھلی قمیص کو داغ دار کرجاتی ہے۔

ویسے تو داغ اچھے ہوتے ہیں لیکن شوہر جانتا ہے اب اس کے ساتھ اچھا نہیں ہوگا۔ وہ دائیں ہاتھ میں پکڑی پیالی پائنتی پر رکھ اور بائیں ہاتھ میں پکڑا اخبار بستر پر پھینک کر بجلی کی سی تیزی سے دھبا دھونے کے لیے دوڑتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ گھر پر وہ والا صابن یا ڈیٹرجنٹ نہیں جس پر اشتہارات میں نظر آنے والی بیویوں کو پورا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ جھٹ پٹ کپڑے صاف کردیتا ہے۔ چنانچہ چند لمحات کے اشتہار میں کپڑے دھل کر صاف ہوتے اور شوہر دھلائی سے صاف بچتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تو گھنٹہ بھر قمیص پر صابن رگڑنا، ڈھیٹ دھبے پر بگڑنا، ناکام صابن سے جھگڑنا، پانی کے پاؤں پڑنا کچھ کام نہیں آتا اور داغ ’ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں‘ کہتا جوں کا توں برقرار رہتا بلکہ دھونے والے کی ناکامی پر کچھ اور پھیل جاتا ہے۔

معصومانہ خطاؤں کو جواز بناکر بے چارے مرد پر گندا ہونے کا الزام دھر دیا جاتا ہے—تصویر: میٹا اے آئی
معصومانہ خطاؤں کو جواز بناکر بے چارے مرد پر گندا ہونے کا الزام دھر دیا جاتا ہے—تصویر: میٹا اے آئی

دراصل یہ سن سن کر کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں اسے اپنی اچھائی پر یقین کامل ہوچکا ہے اور نہ مٹنے پر مصر رہنا وہ اپنا اخلاقی فرض سمجھنے لگا ہے۔ داغ سے اپنی شکست کو سینے کا داغ بنائے مرد کمرے میں واپس آتا ہے تو ’چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری‘ کے مانند پنکھے کی ہوا کی وجہ سے اخبار کے اوراق پورے کمرے میں افواہوں کی طرح پھیلے دیکھ کر حواس باختہ ہوجاتا ہے اور کچھ دیر کے لیے گھر سے یوں غائب ہوجاتا ہے جیسے اشتہار میں کپڑوں سے داغ دھبے غائب ہوتے ہیں۔

ان معصومانہ خطاؤں کو جواز بناکر بے چارے پر گندا ہونے کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ ہم نے مانا کہ ہاتھ کی صفائی اور صفائی سے جھوٹ بولنے کے علاوہ حضرات خواتین کے مقابلے میں کم صفائی پسند ہوتے ہیں مگر ایسا بھی کیا کہ اس کمی پر ان سے ایسی زیادتی کی جائے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ مردوں کے بیت الخلا سے ’جو اماں ملی تو کہاں ملی‘ کا تعلق دونوں ایام 19 نومبر کو منائے جانے کا جواز بنا ہو۔ یہ تعلق عالمگیر اور کافی پرانا ہے۔ بیت الخلا کو مردوں کے لیے جائے عافیت کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک بار اندر جاکر دروازہ بند کردیا پھر سکون ہی سکون کہ ’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا‘۔ پھر چاہے سگریٹ پھونکو، اخبار پڑھو، کتاب خوانی کرو یا موبائل کا حسب منشا استعمال کرتے رہو، کوئی روک ٹوک نہیں۔

بیت الخلا کو مردوں کے لیے جائے عافیت کی حیثیت حاصل ہے—تصویر: میٹا اے آئی
بیت الخلا کو مردوں کے لیے جائے عافیت کی حیثیت حاصل ہے—تصویر: میٹا اے آئی

گویا مردوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات سے ہر گھر کے اس دھتکارے ہوئے حصے کو کیسا اعلیٰ ارفع مقام عطا کردیا۔ ہم مردوں کی بدولت یہ چھوٹا سا خانہ دارالمطالعہ، اسموکنگ زون اور موبائل کے آزادانہ، بے باکانہ اور عاشقانہ استعمال کا مرکز بن چکا ہے۔ مرد اگر خیر سے شاعر ہو تو اس خانے میں کوئی مداخلت نہ ہونے کے باعث ’کچھ اور‘ ہو نہ ہو، پوری پوری غزل ضرور مکمل ہوجاتی ہے۔

یہ تو گھر کے اندر کی بات ہے ورنہ عوامی بیت الخلاؤں کو حضرات نے اس وقت سے ناقابل اشاعت ونشر رائے کے اظہار اور ایسی ہی خبروں کی ترسیل کا ذریعہ بنا رکھا ہے جب سوشل میڈیا تو کیا اس کے خالق بھی تولد نہ ہوئے تھے۔ اگر یہ تعلق پیش نظر تھا تو زیادہ بہتر ہوتا کہ دونوں ایام یکجا کرتے ہوئے ’مردوں کے بیت الخلا سے رشتے کا دن‘ منالیا جاتا۔

کیا ستم ہے کہ بیت الخلا کا دن ہمارے دن کا شریک کرکے ہمیں اس لائق بھی نہ چھوڑا گیا کہ شریک حیات سے کہہ سکیں، ’آج ہمارا دن ہے‘۔ اگر کہا تو ممکن ہے بعض سرپھری بی بیاں اسے شوہر کے بیت الخلا ہونے کا اعتراف سمجھتے ہوئے اچھل کر دس فٹ دور جا بیٹھیں اور ناک دبا کر کہیں، ’آئے مجھے پہلے ہی شک تھا تم پر، وئی تو میں کاؤں ان میں سے اتنی بدبو کیوں آتی ہے‘ اور پھر آناًفاناً ’بیت‘ سے نکلیں اور خلع کی درخواست دے ڈالیں۔

ایک تو ہم مرد پہلے ہی ناانصافی جھیل رہے ہیں اوپر سے ہمارا دن یوم بیت الخلا سے ملا دینے کا مذاق! کس سے شکوہ کریں، کہاں شکایت کریں۔

ناانصافی کا ذکر چھیڑ ہی دیا ہے تو لگے ہاتھوں اس کی ایک مثال پیش کردیں۔ ہماری پوری اردو شاعری پڑھ لیجیے، نسوانی حسن کی تعریف میں دیوان کے دیوان مل جائیں گے لیکن مجال ہے کسی شاعر نے مردانہ وجاہت کا اشارتاً بھی ذکر کیا ہو۔

میر تقی میر کوئی ایک شعر تو ایسا کہہ جاتے،

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے،
اس کی مونچھوں کے سب اسیر ہوئے

اپنے فراز صاحب اپنی مشہور غزل میں کہہ سکتے تھے کہ،

سُنا ہے بولے تو مونچھ اس کی پھڑپھڑاتی ہے،
یہ بات سچ ہے تو پھر بات کرکے دیکھتے ہیں

جون ایلیا ہی کہہ جاتے،

تم میاں! شیو کیوں نہیں کرتے،
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

اگر یہ دونوں دن ایک ہی دن منانے کو ہم بدنیتی نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں
اگر یہ دونوں دن ایک ہی دن منانے کو ہم بدنیتی نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں

مگر نہیں صاحب! کسی کو ہم مردوں کی تعریف تو کیا تذکرے کی بھی نہ سوجھی۔ یہ ہمارے ہم جنسوں کا ہم سے سلوک ہے تو صنف مخالف کو کیا کہیں۔ لیکن اتنا تو ضرور کہیں گے کہ تاریخ میں ہم سے کیا جانے والا سارا انیائے ایک طرف اور ہمارے دن پر یوم بیت الخلا منانے کا ظلم ایک طرف، یہ ظلم ہمیں برداشت نہیں۔

ہمارا دن ہماری مرضی! براہ مہربانی ہمارا دن نہ منایا جائے ورنہ اس دن ہم صرف برا منائیں گے۔ یہ دن بیت الخلاؤں ہی کو مبارک ہو۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024