روس کے ساتھ جنگ کو اگلے سال سفارت کاری کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں، یوکرین
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے روس کے ساتھ جنگ کو اگلے سال سفارت کاری کے ذریعے ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ولادیمیر زیلینسکی نے ان خیالات کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد جنگ جلد ختم کرنے کے بیان کے ایک روز بعد دیا۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے تقریباً 2 سال میں پہلی بار کسی بڑے مغربی رہنما کو کال کی گئی، جرمنی کے وائس چانسلر اولاف شولز نے کیف کی جانب سے اعتراض کے باوجود روسی صدرکو کال کی۔
ولادیمیر زیلینسکی نے یوکرین کے ریڈیو کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’ ہمارے لیے سب سے ضروری یہ کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کے یہ جنگ اگلے سال تک ختم ہو، ہمیں اسے سفارتی طریقے سے ختم کرنا ہوگا اور میرے خیال سے یہ بہت اہم ہے۔’
ولادیمیر زیلینسکی نے مزید کہا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ روسی کیا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان اس حوالے سے باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی لیکن نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنازع کے مستقبل کو غیر یقینی صورتحال میں تبدیل کردیا ہے، ریپبلکن کی جانب سے جنگ ختم کرنے کے وعدے کا اعادہ کیا گیا ہے۔
دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ یوکرین سے صرف اس صورت میں بات کریں گے جب کیف اس کی سرزمین سے قبضہ ختم کرے گا۔
کریملن نے دعویٰ کیا ہے کہ ولادیمیر پیوٹن نے اولاف شولز کے ساتھ گفتگو میں اس مطالبے کو بارہا دہرایا۔
خیال رہے کہ ولادیمیر زیلینسکی نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کیا ہے۔
شمالی کوریا کی شمولیت:
گزشتہ کئی ہفتوں سے، مغربی ممالک اور یوکرین نے شمالی کوریا کے ہزاروں فوجیوں کی جانب سے کرسک کے علاقے میں موجود روسی افواج کی مدد کرنے پر خدشات کا اظہار کیا، جہاں کیف نے اگست کے اوائل سے روسی علاقوں کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔
یہ پیشرفت ان دونوں سابق کمیونسٹ اتحادی ملکوں کے درمیان کئی ماہ سے بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات کے بعد سامنے آئی ہے، جب روس اور شمالی کوریا نے اس ہفتے تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔
ادھر اولاف شولز کے ساتھ جمعے کے روز ولادیمیر پیوٹن کی فون کال کے بعد یوکرین نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
برلن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ’ اولاف شولز نے روس سے یوکرین کے خلاف جارحانہ رویے کی مذمت کی ہے اور صدر ولادیمیر پیوٹن سے فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔’
تاہم، یوکرین نے اولاف شولز پر ’خیر سگالی کی کوشش‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کال سےصرف روس کی تنہائی کم ہوگی۔’
اولاف شولز کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ولادیمیر پیوٹن سے بات کرنے سے پہلے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے مشورہ کیا تھا اور دیگر مغربی اتحادیوں کو بھی اس کال کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
دوسری جانب ہفتے کے روز جی-7 ممالک، جن میں کیف کے اہم حامی بھی شامل ہیں، نے ماسکو کے خلاف پابندیاں لگانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں منصفانہ امن کی راہ میں روس واحد رکاوٹ ہے۔
جی-7 ممالک نے حملے کے ایک ہزار دن مکمل ہونے پر جاری بیان میں کہا کہ ’ہم یوکرین کے ساتھ متحد رہیں گے۔‘
واضح رہے کہ ماسکو مشرقی یوکرین میں پیش قدمی کرتے ہوئے اہم مراکز پوکروسک اور پوکروسک کے قریب پہنچ چکا ہے۔
ادھر ولادیمیر زیلنسکی نے ہفتے کے روز دعویٰ کیا کہ روسی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہےاور کچھ علاقوں میں ان کی پیش قدمی ’سست‘ ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین ’ایک ایسی ریاست کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے جو اپنے لوگوں کی قدر نہیں کرتی، جس کے پاس وافر سازوسامان ہے، اور اس بات کی پرواہ نہیں کہ کتنے لوگ مر رہے ہیں۔‘