• KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm

’غیرقانونی، غیراخلاقی مواد پر زیادہ سختی کریں تو اظہار رائے کی آزادی خطرے میں پڑجاتی ہے‘

شائع November 13, 2024
محمد سلیم بیگ — فوٹو: پیمرا
محمد سلیم بیگ — فوٹو: پیمرا

چیئرمین پیمرا نے کہا ہے کہ وہ غیر قانونی یا غیر اخلاقی مواد کے خلاف شکایات پر فوری کارروائی کرتے ہیں لیکن زیادہ سختی کریں تو اظہار رائے کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے جب کہ میڈیا چینلز کے ملازمین کو بقایا جات کی ادائیگی کے حوالے سے جلد اچھی خبر ملے گی۔

ڈان نیوز کے مطابق پولین بلوچ کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سرکاری ٹیلی ویژن میں اینکرز اور ان کی تنخواہوں کا معاملہ زیر بحث آیا۔

رکن کمیٹی حنیف عباسی نے کہا کہ وزارت نے سرکاری ٹیلی ویژن میں اینکرز اور ان کی تنخواہوں کی فہرست فراہم نہیں کی، کمیٹی نے اگلے اجلاس میں پی ٹی وی میں بھرتی کیے گئے اینکرز اور تجزیہ کاروں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

کمیٹی ارکان نے وفاقی وزیر اور سیکریٹری اطلاعات کی عدم شرکت پر بھی تشویش کا اظہار کیا، وزارت اطلاعات کے حکام نے بتایا کہ وفاقی وزیر عطا تارڑ اس وقت وزیراعظم کے ہمراہ بیرون ملک دورے پر ہیں اور وفاقی سیکریٹری لاہور میں موجود ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سیکریٹری اطلاعات کی موجودگی ضروری ہے، آئندہ اجلاس میں سیکریٹری اطلاعات موجود نہ ہوئیں تو اجلاس ملتوی کر دیا جائے گا۔

پیمرا حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی 2002 میں قائم کی گئی تھی، پیمرا ٹی وی چینلز پر معلومات، تعلیم اور انٹرٹینمنٹ کے معیار کو یقینی بناتا ہے، گزشتہ برس سے ٹی وی چینلز کی شفاف ریٹنگز کو یقینی بنانا بھی پیمرا کا دائرہ اختیار ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2023 سے ٹی وی چینلز کے ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانا بھی پیمرا کی ذمہ داری ہے، اس وقت 142 کے لگ بھگ لائسنس ہولڈرز ہیں، جب تک پیمرا کو ریٹنگ کی ذمہ داری نہیں ملی تھی ایک ہی کمپنی ریٹنگ دیتی تھی۔

’میڈیا ملازمین کو بقایاجات کی ادائیگی سے متعلق جلد اچھی خبر ملے گی‘

پیمرا حکام نے بتایا کہ اس وقت 32 شہروں میں ریٹنگ میٹرز کام کر رہے ہیں، چیئرمین پیمرا کی سربراہی میں 4 ایکس آفیشو ممبرز سمیت اتھارٹی 13 ارکان پر مشتمل ہے، اس وقت 7 ارکان کی نشستیں خالی ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پیمرا ٹی وی چینلز کے لائسنس بولی کے ذریعے دیتا ہے، اس وقت 142 لائسنس ہولڈرز میں سے 37 نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کے ہیں، ملک بھر میں 3718 کیبل نیٹ ورک، آئی پی ٹی وی کے 30 لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔

پیمرا حکام نے شرکا کو بتایا کہ اب تک تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر مجموعی طور پر 390 شکایات موصول ہو چکی ہیں جن میں سے 370 بول نیوز سے متعلق ہیں جب کہ پیمرا نے 388 شکایات نمٹا دی ہیں۔

مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا کہ اداروں پر تنقید ہوتی ہے، کیا اسے روکنے کے اقدامات ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی ضابطہ ہونا چاہیے۔

چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ نے بتایا کہ 2020 میں سوشل میڈیا ریگولیشنز بنائے گئے، پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ہمیں سوشل میڈیا ریگولیشنز بنانے سے روک دیا۔

عبدالغفور حیدری نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک میں بھی جرائم ہوتے ہیں، انسانی حقوق کی بات یہاں ہوتی ہے، ہمارے ٹی وی چینلز پر فحاشی، عریانی اور اداروں کی تضحیک عام ہے، ٹی وی چینلز پر قومی سلامتی کے خلاف مواد چلتا ہے۔

چیئرمین پیمرا نے کہا کہ وہ غیر قانونی یا غیر اخلاقی مواد کے خلاف شکایات پر فوری کارروائی کرتے ہیں لیکن زیادہ سختی کریں تو اظہار رائے کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے جب کہ میڈیا چینلز کے ملازمین کو بقایا جات کی ادائیگی کے حوالے سے جلد اچھی خبر ملے گی۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024