• KHI: Fajr 5:28am Sunrise 6:47am
  • LHR: Fajr 5:05am Sunrise 6:29am
  • ISB: Fajr 5:12am Sunrise 6:38am
  • KHI: Fajr 5:28am Sunrise 6:47am
  • LHR: Fajr 5:05am Sunrise 6:29am
  • ISB: Fajr 5:12am Sunrise 6:38am

’ٹرمپ اور ان کے حامیوں کا ہدف اب کیپٹل ہل کو ڈھانا ہوگا‘

’کیا واقعی امریکا نے اس لیے ایک آمر کو اپنا حکمران منتخب کرلیا ہے کیونکہ اسٹور میں ناشتے میں کھائے جانے والے سیریئل کی قیمت 7.99 ڈالر ہوگئی ہے؟‘
شائع November 9, 2024

مقابلہ اتنا سخت نہیں تھا اور یہ متوقع بھی نہیں تھا کہ مقابلہ سخت ہوگا۔

2024ء کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد عالمی قوت امریکا شاید اس فیز میں داخل ہورہی ہے کہ جس میں کبھی سوویت یونین ہوا کرتی تھی جیسے زائد عمر لیڈران، ذہنی و دیگر مسائل سے نبردآزما ملٹری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ورلڈ آرڈر۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ورلڈ آرڈر نافذ ہونے کے باوجود بھی اسے بنانے والی عالمی قوتوں نے کبھی اس کے اصولوں کی پیروی نہیں کی۔

ایک جانب اسے جہاں مغرب کے نیو لبرلزم کا اختتام سمجھا جارہا ہے وہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگرچہ یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور چیلنجز کا سامنا کررہا ہے لیکن ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ یہ اس طرح زوال پذیر ہوجائے گا جس طرح سوویت یونین کے کمیونزم کا سورج غروب ہوا تھا۔

کچھ بھی ہو امریکا طاقتور ترین معیشت ہے اور اس کی ملٹری طاقت ور ہے جبکہ وہ دنیا کے زرمبادلہ کے ذخائر کا بےتاج بادشاہ ہے۔ اس کی ایک سلطنت ہے اور یہ سلطنت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔

ایک بار پھر ٹرمپ

یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ نسبتاً ایک اور دشوار انتخابات کے بعد امریکا مشکلات سے گزر رہا ہے۔ تین دہائیوں قبل ونیٹی فیئر جریدے کے ایک آرٹیکل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تذلیل کی گئی اور انہیں خودسر اور بدتمیز کہا گیا تھا۔ جریدوں کی اشرافیہ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننے والے ٹرمپ اب انہیں لوگوں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔

کسی فلمی ہیرو کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی شہ سرخیوں میں واپسی ہوئی ہے۔ امریکا کے 47ویں صدر بننے کے لیے ٹرمپ نے دو قاتلانہ حملے، کانگریس کی جانب سے الزامات کی بوچھاڑ، حتی کہ فردِ جرم کے آگ کے دریا کو عبور کیا ہے۔ انہوں نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں کہا تھا، ’ہم فاتحین کو پسند کرتے ہیں، فاتحین کامیاب ہوتے ہیں‘۔

اور شکست خوردہ، ناکام لوگ ہوتے ہیں۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے پوچھا کہ کیا دنیا کو ’کاملا ہیرس کی اہلیت، مہارت، شائستگی نظر نہیں آئی، ان میں امریکا کی پہلی خاتون صدر بننے کی صلاحیت نظر نہیں آئی؟‘

اگر دنیا نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ بھی لیا ہو مگر امریکا کے ووٹرز کو کاملا ہیرس میں یہ خوبیاں نظر نہیں آئیں اور دو دہائیوں کی مقبول ترین فتح، دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی کی جھولی میں ڈال دی۔ دوسری جانب شکست کا سامنا کرنے والی حریف جماعت کا جذباتی ردعمل بھی بےتکا، خودپرست اور غیرحقیقی ہیں۔

کیونکہ کاملا ہیرس کی جیت کا امکان تو کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ واضح کرلیں کہ امریکا میں یہ کتنی بار ہوا ہے کہ معاشی بحران کے درمیان ایک غیرمقبول لیڈر کی جیت ہوئی ہو؟ کاملا ہیرس کو خود کو ڈونلڈ ٹرمپ سے مختلف ثابت کرنے کے لیے اتنی محنت نہیں کرنا پڑی جتنا کہ ان کے لیے یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ جو بائیڈن جیسی نہیں، جو انہوں نے نہیں کیا۔

وہ ٹرمپ کی کرپشن پر تنقید نہ کرسکیں کیونکہ بائیڈن بدعنوان تھے۔ وہ ٹرمپ کی جانب سے خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کو اپنے حق میں استعمال نہیں کرپائیں کیونکہ بائیڈن بھی اسی فعل میں ملوث رہ چکے ہیں۔ ان کی عمر پر تنقید نہیں کرسکیں کیونکہ بائیڈن بھی تو زائد عمر ہیں۔ ٹرمپ کی ذہنی حالت پر تبصرہ نہیں کرسکیں کیونکہ بائیڈن بھی بظاہر ذہنی مسائل کا شکار تھے۔

تو کاملا کے پاس پرچار کرنے کے لیے کاملا یعنی ان کی ذات تھی۔ اگرچہ انہیں نینسی پلوسی اور باراک اوباما کی سرپرستی حاصل تھی لیکن ایک سابق پراسیکیوٹر جو 2020ء میں اپنی ریاست میں ڈیموکریٹک پرائمری تک جیت نہیں پائیں، نائب صدر بننے کے بعد بھی جس کے پاس کوئی قابلِ ذکر ایجنڈا نہیں تھا، جن کے بنیادی سیاسی نظریات تک واضح نہیں تھے اور جنہوں نے مسئلہ فلسطین سے لے کر ہر چھوٹے معاملے تک اپنا مؤقف تبدیل کیا ہو، کیا اس کاملا ہیرس کو واقعی انتخابی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے تھا؟

کیونکہ اس انتخاب میں بھی وہی مسئلہ برقرار تھا جس کی جھلک گزشتہ انتخاب میں نظر آئی تھی جوکہ بہت سادا سا تھا۔ اگر بل کلنٹن کی ڈیموکریٹک جماعت کے لوگ ایک بار پھر 1992ء کی طرح ’مسئلہ معیشت ہے، بےوقوف‘ یعنی معیشت کو اپنی انتخابی مہم کا محور بناتے تو کاملا کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ اس بار بھی امریکی عوام کا مسئلہ معیشت ہی ہے لیکن یہ لوگ تو طاقت کے مزے لوٹنے میں اتنے مصروف ہیں کہ وہ کاملا کی اصل مسئلے کی جانب توجہ دلوانے میں ناکام رہے۔

اس کے بجائے ڈیموکریٹک کی شیڈو پارٹی میں سرگرم عطیات دہندگان، آپریٹرز اور آئی وی لیگ کالجز سے تعلیم یافتہ افراد جو بائیڈن کی امریکی معیشت کو بطور معجزہ بیان کرتے رہے کہ جس سے زیادہ ملازمتیں، زیادہ ترقی اور زیادہ مجموعی ریکوری ممکن ہوئی۔ البتہ یہ وہی لوگ ہیں جو ٹرمپ کے ساتھ صدارتی بحث کے دوران گھبراہٹ کا شکار بائیڈن پر تنقید کے نشتر برسا رہے تھے۔

تو کیا ہوا اگر محنت کش طبقہ تنخواہوں کے حوالے سے پریشانی سے دوچار ہے، کیا ہوا اگر انہیں خوراک کی سیکیورٹی حاصل نہیں یا ہیلتھ انشورنس تک ان کی رسائی کم ہورہی ہے، ایسے مسائل کی پروا آخر کسے ہے؟ 2016ء میں سینیٹر چارلس شیمو نے کہا تھا کہ اگرچہ ڈیموکریٹک پارٹی اپنا محنت کش ووٹر کھو دے گی لیکن وہ متوسط طبقے کے دو ری پبلکنز کی حمایت حاصل کرسکتی ہے جن کی مالی حیثیت بھی نسبتاً بہتر ہوگئی۔ یہ ایک گھاٹے کا سودا تھا جو کبھی منافع بخش ثابت نہ ہوتا کیونکہ بڑی تعداد میں محنت کش طبقہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت سے دستبردار ہورہا تھا۔

برنی سانڈرز جو اکثر اوقات سیاسی نظام میں نظرانداز کیے جانے کی شکایت کرتے ہیں، کہا کہ ’یہ بہت بڑا سرپرائز نہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے جن محنت کش طبقے کو ان کے حال پر چھوڑ دیا، انہوں نے اب ڈیموکریٹک پارٹی کو چھوڑ دیا ہے‘۔

معیشت کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ سمجھنے والے 80 فیصد رائے دہندگان نے اپنا ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا۔

مقبول ارب پتی کے ہاتھوں نسل کشی کے حامیوں کو شکست

دوسری جانب کاملا ہیرس گویا ہیلری کلنٹن کی نقل معلوم ہورہی تھیں جو یونینز کے بجائے مشہور شخصیات کو خوش کرنے میں مگن تھیں اور معقول لوگوں کے بجائے لز چینی جیسے جنگ کے بھوکے لوگوں پر زیادہ توجہ دے رہی تھیں۔ جو بائیڈن کی ذہنی حالت کے بارے میں آپ جو بھی سوچتے ہوں، کم از کم وہ یہ سیاسی شعور رکھتے تھے کہ اپنی مقبولیت کے کارڈ کو کب کس وقت استعمال کرنا ہے جیسے انہوں نے ملازمتوں میں اضافے اور انفرااسٹرکچر بہتر بنانے کے دعوے کیے (لیکن یہ الگ بات ہے کہ صدارت سنبھالنے کے بعد وہ اپنے ان وعدوں کو بھلا بیٹھے)۔

کاملا نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ وہ یہی دعوے کرنے تک ہی محدود رہیں کہ جہاں انہوں نے دائیں بازو کی جماعت کی اقتدار میں واپسی سے بہتر اپنے صدر بننے کو قرار دیا۔ اور یہ غلط بھی نہیں، کم از کم وہ کسی نہ کسی کے خلاف کھڑی تو ہو رہی تھیں۔ درحقیقت مسئلہ یہ ہے کہ آخری دفعہ امریکا نے جب فاشزم کے خلاف جنگ لڑی تھی تب معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، روزگار کا بحران پیدا ہوا اور اس جنگ سے 4 فیصد دنیا کی آبادی جاں بحق ہوئی تھی۔

کاملا ہیرس کے پاس صرف کھوکھلے نعرے تھے۔ وہ ’دوبارہ نہیں‘ کا راگ الاپتے نہیں تھکیں اور وہ ہجوم کے سامنے یہ الفاظ بار بار دہراتی رہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020ء کے صدارتی انتخاب میں جتنے ووٹ حاصل کیے تھے، اب بھی انہوں نے اس کے لگ بھگ ہی ووٹ حاصل کیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹوں کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے ووٹ کی صورت اپنی حمایت کھوئی ہے۔

ہاں متوسط طبقے کے نسبتاً دولت مند لوگ فکر مند تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جمہوریت کو نقصان پہنچائیں گے۔ تاہم عوام کی بڑی تعداد کے لیے دیگر مسائل اہم تھے۔ جیسا کہ جیکوبن جریدے نے سوال اٹھایا، ’کیا واقعی امریکا نے اس لیے ایک آمر کو اپنا حکمران منتخب کرلیا ہے کیونکہ اسٹور میں ناشتے میں کھائے جانے والے سیرئل کی قیمت 7.99 ڈالر ہوگئی ہے؟‘

سماجی عدم مساوات کی طرح مہنگائی بھی ایک بورنگ موضوع ہے۔ اس پر بات کرکے احساس ہوتا ہے کہ کیسے مخصوص طرزِ زندگی کو امرا کے لیے مختص کردیا گیا ہے جو عالیشان کالونیوں میں رہتے ہیں جن کے بچے ایک ہی اسکول میں جاتے ہیں، آپس میں وہ گالف کھیلتے ہیں اور وہ اپنے طبقے میں ہی شادی کرتے ہیں۔ تو جو لوگ پہلے ہی خود کو ایک سماج سے الگ محسوس کرتے ہیں تو پھر وہ ٹرمپ کو ووٹ کیوں نہ دیں؟ انہیں لگتا ہے کہ شاید ٹرمپ کو ووٹ دینے سے کسی طرح کی تبدیلی آجائے۔

پوری دنیا کو یہ فسانہ سنایا جارہا ہے کہ دیکھو امریکا نے کیسے متنازع ساکھ رکھنے والے ٹرمپ کو ایک بار پھر صدر بنا دیا ہے اور یہ کہ ان کی جیت تو تعصب، نسل پرستی، صنفی عدم مساوات، فاشزم اور فلاں فلاں کی جیت ہے جبکہ لبرٹی کا مجسمہ جو جمہوریت کی علامت سمجھا جاتا ہے، اسے کمزور کردیا گیا ہے اور ٹرمپ و حامیوں کا اب اگلا ہدف کیپٹل عمارت ڈھانا ہوگا۔ اگر 6 جنوری برا دن تھا تو انہیں ڈر ہے کہ اب کی بار ایسا کچھ ہوتا ہے تو سڑکیں خون سے رنگ جائیں گی۔

یہ مخصوص حلقے تو ایسے گھبرا رہے ہیں جیسے ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ لوگ بھول گئے ہیں روایات (تمام معاملات پر پیسے کو اہمیت دینا اور محنت کش شہریوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اپنانا) ایک دم نہیں بن جاتیں بلکہ یہ کئی نسلوں میں پرورش پاتی ہے جس کا نتیجہ دائیں بازو کے رہنما کی جیت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

یہ ناقابلِ یقین ہے کہ ٹرمپ کے ساتھیوں ’نازیوں‘ نے چند امیدواروں کو ایک بار پھر فتحیاب کیا۔ راشدہ طلیب جنہوں نے کاملا کی حمایت سے انکار کیا، دلچسپ یہ ہے کہ انہیں اسی مشی گن ریاست کے ووٹرز نے کامیاب کیا ہے جنہوں نے 2020ء کی انتخابی دوڑ میں کاملا ہیرس کو مسترد کیا تھا۔ ان انتخابات میں نائب صدر کی ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر وہ بائیڈن سے 20 ہزار ووٹ پیچھے تھیں۔

ریاست مشی گن کے شہر ڈئربورن کے ایک سماجی کارکن نے کہا، ’نسل کشی بری سیاست ہے‘۔ ڈیموکریٹس کے مطابق ہمیں اس بات پر یقین کرنا چاہیے کہ اقلیتیں راتوں رات سفید فام برتری کو ماننے لگی ہیں۔ اس کے بجائے وجہ یہ بھی تو ہوسکتی ہے کہ اقلیتوں نے غزہ کے معاملے میں لبرل طرزِ حکمرانی کو ہچکچاتے دیکھا۔ یا پھر شاید انہیں شعور آگیا ہے کہ بچوں کا قتل عام ایسا امر نہیں جسے ماضی کی طرح عام سمجھ لیا جائے۔ اس بار وہ آنکھیں بند کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔

فی الحال کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے بالخصوص جب ڈیموکریٹس کی جانب سے ان کے سابق صدر بل کلنٹن سامنے آکر اپنے ممکنہ ووٹرز کے لیے یہ بیان دیں کہ ان کے اہل خانہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کے مستحق ہیں۔ ویسے حیرت ہے کہ نسل کشی پر مشتعل مسلم ووٹرز کو اعتماد میں لینے کے لیے انہوں نے جس سابق صدر کا انتخاب کیا، انہوں نے اپنے دور میں بوسنیا میں مسلمانوں کے قتل عام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی جس میں ہینری کیسنجر سے لے کر ڈونلڈ رمزفیلڈ اور جان بولٹن جیسے جنگی کردار شامل ہیں، وہ غزہ میں بچوں کے قتل عام کے حوالے سے ڈیموکریٹس سے بہتر اور محتاط مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر کاملا ہیرس کو ووٹ دینے کے لیے ووٹرز کو نسل کشی کو نظرانداز کرنا تھا تو پھر کیا ووٹرز ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے نسل پرست ہنگاموں کو بھلا نہیں سکتے؟

جہاں تک اندرونی سیاست کی بات ہے تو ڈیموکریٹس نے شاید یہ فیصلہ کیا کہ ٹرمپ و دیگر ری پبلکنز سے شکست جیت سے بدتر ہوتی۔ ڈیموکریٹک پارٹی جس گروپ کو خوش کرنے کی کوشش کررہی تھی، وہ ری پبلکن کا اتحاد تھا۔ حالانکہ ری پبلکن اتحاد بھی پہلے جیسا نہیں رہا جس میں نیو لبرلزم تقریباً ختم ہوچکا ہے، روایتی کاروباری افراد خوفزدہ تھے جبکہ ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے ٹرمپ حامی بڑھ چکے تھے۔

امریکا کی سیاست اب لوگوں کے سماجی حالات کو بہتر بنانا نہیں رہی۔ بلکہ رونالڈ ریگن کے دور سے ہی یہ امریکی ترجیح نہیں۔ اس کے بجائے امریکا ثقافت کی جنگ میں اہداف کا تعین کرتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے اور اس محرک سے بھی ہٹ جائے جس کی نشاندہی ایک بار تنزانیہ کے سابق صدر جولیس نیریر نے کی تھی، ’امریکا درحقیقت یک جماعتی ملک ہے جہاں دو جماعتیں تو موجود ہیں لیکن ان کی پالیسیز زیادہ مختلف نہیں ہوتیں‘۔

تو یوں میڈیا کی جانب سے قرار دیے گئے ’اہم ترین انتخابات‘ میں، ایک مقبول کاروباری ارب پتی کے ہاتھوں نسل کشی کے حامیوں کو شکست ہوئی۔ لیکن اسرائیل کی سرپرستی، چین سے مقابلہ، اسلحہ کے حقوق، تارکینِ وطن کی بےدخلی، تیل کے لیے مزید کھدائی اور ملٹری ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے جیسے شعبہ جات میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز میں اتفاق رائے ہے۔ یعنی بڑے موضوعات پہلے سے طے شدہ ہیں۔

اگر یہ اختلافِ رائے رکھتے ہیں تو چھوٹے معاملات جیسے امرا کے لیے ٹیکس کٹوتی، قانونی تارکین وطن کے خلاف بھی کریک ڈاؤن اور یہ ایلون مسک جیسی شخصیات پر ایک دوسرے سے بحث کرتے ہیں۔

جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ جنگ مخالف پالیسی اپنائیں گے، اگر وہ واقعی ایسا کرتے ہیں تو شاید یہ دنیا بھر میں ظلم کا شکار لوگوں کے حق میں بہتر ثابت ہو۔ یہ وہی فرق ہے جس کی بنا پر جارج بُش کے دور میں ڈک چینی اور البرٹو گونزالز کو ڈیموکریٹس کی جانب سے پذیرائی ملی تھی۔

جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو چند حلقے ٹرمپ کی واپسی کو پاکستان تحریک انصاف کے لیے تازہ ہوا کا جھوکا قرار دے رہے ہیں اور امکان ظاہر کررہے ہیں کہ عمران خان کے لیے حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔ تاہم موجودہ حکومت کے نزدیک پاکستان اتنا اہمیت کا حامل نہیں کہ امریکا ہم پر توجہ دے۔ پہلا خیال کسی حد تک سچ ہوسکتا ہے لیکن دوسرا خیال تو بالکل ہی غلط ہے۔

ٹرمپ کی واپسی پہلے سے زیادہ مشتعل انداز میں ہوئی ہے جبکہ ان کی عمر بھی بڑھ چکی ہے۔ انہوں نے کلنٹن اور بش جیسی سیاست کی میراثوں کو ناکام بنایا اور اب وہ ایک ایسی پارٹی چلا رہے ہیں جو ان کی ذات سے مماثل ہے۔ امریکی سینیٹ میں بھی ری پبلکنز نے غلبہ حاصل کرلیا ہے، کانگریس میں بھی ان کی زیادہ نشستیں ہیں جبکہ وہ سپریم کورٹ کے ایک تہائی ججز کا بھی تقرر کریں گے۔ پاپولسٹ نظریہ پروان چڑھ رہا ہے جو یقینی بنا رہا ہے کہ ٹرمپ ایک بڑا نام بن جائیں۔

ٹرمپ کہتے ہیں، ’یہ حقیقتاً امریکا کا سنہری دور ہوگا‘۔ 2000ء کے بعد، جب سے اشرافیہ کے طاقتور منفی کرداروں نے حکومت کا تخت سنبھالنا شروع کیا ہے، امریکا نے کبھی بھی اچھا دور نہیں دیکھا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اسد رحیم خان

لکھاری بیرسٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔