شائع November 8, 2024

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میں موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھنڈی صبح کو کلہوڑا دور کے ایک اہم مقام پر پہنچا تھا۔ اس قدیم مقام کی گلیاں، مسجد اور مدرسہ سرد صبح کی ہلکی سی دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔ آپ اگر وہاں کے جنوبی حصے کے ٹیلے پر بنی مسجد کے آنگن میں کھڑے ہوکر شمال کی جانب دیکھیں تو ایک کلومیٹر سے بھی زائد وسعت پر پھیلی وہ بستی آپ کو نظر آئے گی جہاں کبھی لوگوں کے گھروں کے آنگنوں اور ان گلیوں کو روشن رکھنے کے لیے شام کو روشنی کے لیے چراغ جلا کرتے ہوں گے۔

پھر 1756ء سے دریا نے پرانی عادت کے مطابق اپنا راستہ تبدیل کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ دھیرے دھیرے 1758ء تک مکمل ہوا۔ دریا کے بہاؤ سوکھ گئے تو بستیوں سے زندگی نے اس طرح منہ موڑ لیا کہ جیسے گزرے دنوں میں ان کا ان آنگنوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ پھر دھیرے دھیرے جہاں بچوں کی کلکاریاں اور لوگوں کی ہنسی کے پھول کھلتے تھے، وہاں خاموشی نے بسیرا کرلیا۔

   دریائے سندھ کے بہاؤ کی تبدیلی کے بعد ایک ویران بستی—تصویر: لکھاری
دریائے سندھ کے بہاؤ کی تبدیلی کے بعد ایک ویران بستی—تصویر: لکھاری

   بہاؤ تبدیل ہونے سے لوگوں نے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کی—تصویر: لکھاری
بہاؤ تبدیل ہونے سے لوگوں نے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کی—تصویر: لکھاری

قبائل کی لڑائیوں اور ریاستوں کا ذکر کرنے سے قبل بہتر ہوگا کہ ہم اسی زمانے میں دریائے سندھ کے تبدیل ہوتے بہاؤ سے متعلق جان لیں کیونکہ انسانی حیات پانی سے جڑی ہیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے جو اس زمین پر بسنے والی ہر بستی پر لاگو ہوتا ہے۔ دریا کا بہاؤ تبدیل ہوگا تو بہت سی تبدیلیاں آئیں گی۔

علامہ ابوالفضل کی تصنیف ’آئین اکبری‘ کے مطابق، 1600ء میں سندھ میں 21 لاکھ ایکڑ پر فصلیں کاشت ہوتی تھیں جن سے حکومت کو محصول ملتا تھا۔ مغلوں کے بعد کلہوڑا آئے جو موروثی پیر تھے اور ان کے مرید ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، سبی اور کَچھی میں آباد بلوچ تھے۔ کلہوڑے آب پاشی نظام کے متعلق بہت کچھ جانتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نہریں بنانے کے وہ بڑے ماہر تھے۔ اپنی حکومت کے دوران انہوں نے 1701ء سے 1754ء تک 700 کے قریب نہریں کھدوائیں جن کی وجہ سے زراعت نے خوب ترقی کی مگر ماحولیاتی تبدیلی دبے پاؤں آ دھمکی اور موسم گرم ہونے لگا۔

   دریائے سندھ کا بہاؤ اور زراعت—تصویر: لکھاری
دریائے سندھ کا بہاؤ اور زراعت—تصویر: لکھاری

میر مرادیاب خان جب 1754ء میں تخت پر بیٹھا تو دریائے سندھ کے کنارے مرادآباد نامی ایک چھوٹا سا شہر بسایا اور اسے دارالحکومت کا درجہ دیا۔ یہ چھوٹے سا شہر شاید بدقسمت تھا جو وہ صرف تین جاڑے ہی دیکھ سکا۔ 1757ء میں گرم موسم کی وجہ سے دریا میں شدید باڑ آئی اور مرادیاب کے بسائے ہوئے شہر کو بہا لے گئی۔

   اگھم کوٹ کے آثار—تصویر: لکھاری
اگھم کوٹ کے آثار—تصویر: لکھاری

جب موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے دریا نے اپنا راستہ تبدیل کیا تو اس سے پہلے کلہوڑا دور حکومت میں زراعت 21 لاکھ ایکڑ زمین پر ہوتی تھی۔ پانی نے مشرقی بہاؤ کو چھوڑ کر مغرب اور جنوب کی طرف نیا راستہ بنایا تو پرانا راستہ جس پر انتہائی اہم شہر بستے تھے جیسے پرانا ہالہ، اڈیرو لال، نصرپور، اگھم کوٹ، شیخ بھرکیو، فتح باغ، جُون، بدین اور رہمکی بازار ویران ہوگئے۔

ان سے زراعت اور جینے کی سانسیں بہاؤ نے چھین لیں جس کی وجہ سے زراعت جو 21 لاکھ ایکڑ پر تھی وہ کم ہوکر 11 لاکھ ایکڑ تک رہ گئی۔ محترم ایم-ایچ پنوھر صاحب کے مطابق ان دنوں سندھ میں انسانوں کی آبادی 30 لاکھ سے زیادہ نہیں رہی ہوگی۔ یہ مختصر سا منظرنامہ یہاں اس لیے تحریر کے دائرے میں لایا گیا ہے کیونکہ ہم جب سمندری کناروں کی ریاستوں، کوہستانی قبائل اور کلہوڑا حاکموں کی جنگوں کا تذکرہ کررہے ہیں تو یہ بھی لازمی ہوجاتا ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ تصویر بھی ہوکہ ان دنوں زمینی حالات اور معاشیات کے حالات کیا تھے۔

   ویران بستی کا ایک اور منظر—تصویر: لکھاری
ویران بستی کا ایک اور منظر—تصویر: لکھاری

کراچی سے جنوب مشرق میں سمندر کنارے ایک اور انتہائی طاقتور ریاست تھی جو ’ککرالو ریاست‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ میں جب 1989ء میں اس ریاست کے آثار پر گیا تھا تب سمندر آگے ضرور آگیا تھا مگر اس ریاست کی تعمیرات اچھی حالت میں موجود تھیں جن کو دیکھ کر یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا تھا کہ رہائشی کمرے کون سے ہیں، باورچی خانہ، اناج کا گودام اور مہمان خانہ کون سا ہے۔

ککرالو بنیادی طور پر سمہ خاندان کی ریاست تھی جن کے رشتہ دار کچھ گجرات میں بھی بستے تھے۔ اس لیے سمندر کے راستے ان کا وہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق سموں کے سردار جام مہڑ نے سمہ دور میں یہ ریاست قائم کی تھی۔ اس ریاست کی وسعت سندھو دریا کے اوچتو نامی بہاؤ کے جنوب، کیٹی بندر سے مشرق میں سمندر کے کنارے بسا بندر (جاتی شہر سے 12 کلومیٹر جنوب مغرب میں) تک تھی۔

شاہ بندر تحصیل اس ریاست کا مرکز تھی، جاتی کا مغربی حصہ بھی اس میں شامل تھا۔ ان کیہروں کا آبائی قبرستان ابن شاہ جو ٹکر کے شمال میں ابھی تک موجود ہے۔ آپ اگر چوہڑ جمالی شہر سے شاہبندر کی جانب جائیں تو ابن شاہ ٹکر راستہ مشرق میں پڑے گا۔ اپنے زمانے میں یہ قبرستان چوکنڈی طرز کے قبرستان جیسے انتہائی محنت سے تراشے گئے قبرستانوں جیسا تھا۔ مگر اب پیلے پتھر کی سنگ تراشی سے مزین سلیں آپ کو وہاں ڈھیروں کی صورت میں نظر آئیں گی۔ بے قدری کے بے رحم موسم نے سب کچھ اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔

   کیہروں کا آبائی قبرستان، نزد ابن شاہ جا ٹکر—تصویر: لکھاری
کیہروں کا آبائی قبرستان، نزد ابن شاہ جا ٹکر—تصویر: لکھاری

ککرالو ریاست اہم اس لیے تھی کیونکہ معاشی حوالے سے یہ انتہائی مستحکم حالت میں تھی۔ ایک تو پانی کی فراوانی کی وجہ سے دھان کی فصلیں انتہائی شاندار اور وسیع رقبہ پر پھیلی ہوتی تھیں جس کی وجہ سے خوراک کا مسئلہ کبھی درپیش نہیں آیا جبکہ گھاس کی فراوانی سے گائیں، بھیسیں، بکریاں، بھیڑیں، اونٹ جیسے مویشی بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ ساتھ ہی جھیلوں کی وجہ سے مچھلی بھی بڑی تعداد میں پائی جاتی تھیں تو ریاست کو محصول بہت ملتا تھا۔

کلہوڑا سرکار اپنے خزانوں کو بھرنے کے لیے ان ریاستوں پر نظریں گاڑے بیٹھی تھی۔ سمہ دور کے بعد اس ریاست کا حاکم جام جراڑ تھا جس کے بعد جام ڈیسر اور پھر جام ہالو حاکم بنا۔ یہاں کے شاندار معاشی حالات کی وجہ سے مغلوں کے زمانے سے ریاست پر حکومت کی طرف سے حملے ہونے شروع ہوئے۔ ککرالے کے حاکم خاندان کو ’ککرالے کے کیہر‘ کے اعزاز کے ساتھ تاریخ کے اوراق یاد کرتے ہیں اور ان کیہروں نے مغل حاکموں کے حملوں کا بہادری سے جواب دیا۔

   قدیم قبرستان کا ایک منظر—تصویر: لکھاری
قدیم قبرستان کا ایک منظر—تصویر: لکھاری

کلہوڑا دور میں ککرالے کے جاموں کے خلاف سخت کارروائیاں ہوئیں۔ میاں نور محمد کے آخری زمانے میں گھر کے بھیدی، جام ڈیسر کے بیٹے کی مدد سے پیسوں کی لالچ میں میاں مرادیاب نے حملہ کیا مگر جام ڈیسر نے بڑی بہادری سے اس حملے کو پسپا کردیا۔

پھر جب میاں غلام شاہ نے 1760ء میں پہلا حملہ کیا تو وہ بھی کامیاب حملہ ثابت نہیں ہوا مگر دوسرا حملہ جو اس نے 17 ستمبر 1760ء بدھ کے دن کیا جس میں وہ کامیاب رہا۔ کامیاب اس لیے بھی رہا کیونکہ جام ڈیسر کا بیٹا، میاں غلام شاہ کے ساتھ تھا۔ اس طرح جام ڈیسر اپنی ریاست چھوڑ کر کَچھ کی جانب چلا گیا اور ریاست اس کے بیٹے کو ملی جو غلام شاہ کے حکم کے تابع رہا۔ اس طرح ککرالو ریاست کمال سے دھیرے دھیرے اپنے زوال کو پہنچی اور پھر تاریک رات آئی اور جہاں جہاں زوال کی یہ رات آتی ہے، صبح کبھی نہیں ہوتی۔

   وٹیجی کا اسکیچ
وٹیجی کا اسکیچ

جنوبی سندھ کا کوہستانی علاقہ جس کے مغرب کی جانب حب نئے (ندی)، ملیر نئے، جنوب مشرق میں نئے گگھر، وٹیجی، دھابیجی، گھارو، مکلی اور مکلی سے آگے جنوب تک پیر پٹھو اور پیر پٹھو سے مغرب جنوب میں میرپور ساکرو تک برفت، لاشاری، کلمتی، گبول، نگامرا، جاکھرا اور جوکھیہ طاقتور قبائل رہے ہیں۔ گزرے زمانوں میں جس کا ذکر ہم کر آئے ہیں یا ابھی کر رہے ہیں یا ان میں جو لڑائیاں لڑی گئیں، ان میں ان قبائل کا ذکر بار بار آتا ہے۔ مگر حالات کے تحت دوستیاں اور دشمنیاں تبدیل بھی ہوتی رہی ہیں۔ کبھی کچھ قبائل کا آپس میں صلح اور دوستی کا رشتہ تو کبھی مخالفت اور لڑائیوں کا سلسلہ رہا ہے۔ اگر صدیوں پر بکھرے اس پینوراما کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سمہ دور سے مغلوں کے ابتدائی زمانے تک لکی (سیہون) سے لے کر حب ندی کوہستان تک برفت قبیلہ طاقتور رہا۔

حب، ملیر اور ساکرہ کی طرف لاشاری اور کلمتی قبائل طاقتور رہے اور کلہوڑا زمانے میں جوکھیہ قبیلہ طاقت میں نظر آتا ہے۔ دوسرے چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں بھڑچ، جاکھرا، سورا، پالاری، چھچھر اور گائیچا اپنے اپنے مقام پر طاقتور حالت میں نظر آتے ہیں۔

   کوہستانی بستی—تصویر: لکھاری
کوہستانی بستی—تصویر: لکھاری

اب ہم کچھ ان قبائلی لڑائیوں کا ذکر کرتے ہیں جو ان کی مغلوں سے ہوئیں یا آپس میں ہوئیں۔ ہم گزرے کسی پڑاؤ میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ دریا خان جو سلطان جام نظام الدین سمہ کا اہم وزیر اور صلاح کار تھا۔ اس کے صلاح و مشورے سے جنوبی سندھ کی حکومت میں دوسرے قبائل خاص طور پر لاشاریوں کو بڑی تعداد میں شامل کیا گیا اور انہوں نے خاص کر ارغون لشکر سے لڑائیاں لڑیں جس کے انعام کے طور پر سمہ دور میں ان کو جاگیریں بھی ملیں اور لاشاری سردار، سونڈا، حب، ملیر اور پیر پٹھو کے مقامات پر آباد ہوئے۔

   پیر پٹھو کی وادی—تصویر: لکھاری
پیر پٹھو کی وادی—تصویر: لکھاری

ڈاکٹر بلوچ لکھتے ہیں کہ 1520ء میں ٹھٹہ میں دولہا دریا خان کی شہادت کے بعد ان قبائل اور ارغون لشکر کے درمیان سخت جنگیں ہوئیں۔ لاشاریوں کے سردار میر گہرام لاشاری کا بیٹا، ارغون لشکر سے لڑائی میں پیر پٹھو کے قریب مارا گیا جو وہیں پر مدفون ہیں۔ اس کے بعد لاشاریوں نے اس (میر رامین) کے بیٹے ملک اسحٰق کی سپہ سالاری میں سونڈا کے قریب ارغون لشکر کا مقابلہ کیا جس میں ملک اسحٰق اور دیگر اہم افراد مارے گئے۔ ان کی شاہی قبریں جن پر جنگی مناظر کی سنگ تراشی کی گئی ہے، وہ سونڈا کے قبرستان میں موجود ہیں۔

اس جنگ کے بعد حب اور ملیر کے اطراف جو لاشاری آباد تھے، مغل دور میں میر عالی ان کا سردار تھا۔ موجودہ زمانہ میں ان کی اولاد عالیانی لاشاری کہلائی جاتی ہے۔ میر عالی کے وقت میں جب کلمتی جنوبی ملیر میں آئے تو میر عالی نے ان کی مدد کی۔ جب بڑچھوں کی کلمتیوں اور لاشاریوں سے لڑائی ہوئی تب لاشاری ملیر کے شمال کی جانب گڈاپ کے علاقے سونگل میں آباد تھے۔

   سونڈا کا قبرستان—تصویر: لکھاری
سونڈا کا قبرستان—تصویر: لکھاری

بھڑچھ ایک چھوٹا مگر یہاں بسنے والے قدیم قبائل میں شامل تھا۔ سومرا دور (1010ء سے 1351ء) میں ملیر کے جنوب اور مشرق میں گھارو اور اس کے جنوب مغرب میں ’کھیرانی‘ والے علاقے میں آباد تھا۔ ان دنوں دریا کا گھارو سے مغرب، جنوب مغرب کی جانب بہاؤ تھا۔ ماڑی مورڑو اور ’تھنبھن واری مسجد‘ (اس تاریخی اہم مقام کا محل وقوع لاڑی بندر سے پانچ کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے) کی بستیوں کے آثار ان دنوں کے یادگار ہیں۔

بہاؤ تبدیل ہونے سے یہ بستیاں جب ویران ہونے لگیں تو یہاں بسنے والے کچھ خاندان ساکرہ اور گھوڑا باری اور کچھ ملیر کی طرف آکر آباد ہوئے۔ یہاں ان کی مڈبھیڑ لاشاریوں اور کلمتیوں سے ہوئی۔ مغل کے ابتدائی زمانے تک ان کے کچھ خاندان یہاں رہے اور کچھ نقل مکانی کرکے حب کی طرف جا کر بسے۔ ہمیں کلہوڑا دور میں رتوکوٹ والے واقعے میں بڑچھوں کا ذکر ملتا ہے۔

   2020ء میں تھنبھن واری مسجد کے مقام کا منظر—تصویر: محترم گل حسن کلمتی صاحب
2020ء میں تھنبھن واری مسجد کے مقام کا منظر—تصویر: محترم گل حسن کلمتی صاحب

ڈاکٹر بلوچ لکھتے ہیں کہ جب جوکھیہ اپنے سردار بجار کی سربراہی میں حب والے علاقے میں آئے تو بڑچھوں میں اتنی طاقت تھی کہ انہوں نے جوکھیوں کو اپنے علاقے میں آنے سے روکنے کے لیے پتھر اراضی کی زمین میں گاڑ دیے تاکہ اپنی سرحد کی نشاندہی کرسکیں اور جوکھیو اس کو پار نہ کرسکیں۔ سرحد پار کرنے کی صورت میں جنگ ہوتی۔ کہتے ہیں کہ اس وقت بنگی خان نے جوکھیوں کی مدد کی تھی۔

کلمتی جو نویں اور دسویں صدی ہجری میں ہنگلاج اور ہنگول ندی والے راستے سے سندھ آئے تھے۔ ابتدا میں وہ لسبیلو کے ’کھارڑے بھوانی‘ علاقوں میں رہے۔ اس کے بعد حب کی طرف آئے۔ ڈاکٹر بلوچ کی تحقیق کے مطابق، کلمتیوں کے سردار حاجی (بن نوتک بن عالی بن عمر بن بجار بن ہوت بن جلال خان) نے پہلے حب والا علاقہ ’بُرن‘ سے چھینا اور پھر ملیر کا علاقہ بڑچھوں سے چھینا اور مغل سرکار کے کوہستان کے کچھ علاقے گھیر لیے۔ چونکہ نگامروں اور ان کے علاقے ایک دوسرے کے نزدیک تھے تو ان کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔

اورنگزیب (1707ء-1658ء) کے زمانے میں کلمتی میرپور ساکرے کی طرف طاقتور پوزیشن میں تھے۔ ان کے سردار ببر اور بجار جو دونوں رشتہ دار بھی تھے۔ اورنگزیب عالمگیر نے انہیں 2 اپریل 1692ء کو بدھ کے دن انعام اور معاوضے کے طور پر شاہی سند اور ساکرہ والی اراضی دی کیونکہ وہ ساکرہ سے بھوڈیسر (ننگرپارکر) کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کو تحفظ فراہم کریں گے۔

ملیر اور حب والے کلمتیوں کا سردار اس وقت اور اس سے پہلے ملک طوطا (بڑا) تھا۔ ملک طوطا کا شاہی قبرستان جس میں سنگ تراشی کے قبروں کی ایک دنیا بستی ہے وہ تھدھو نئے کے کنارے پر واقع ہے۔

   ننگرپارکر کی ایک گلی—تصویر: لکھاری
ننگرپارکر کی ایک گلی—تصویر: لکھاری

ترخانوں اور ارغونوں کے زمانے میں لاشاریوں کے ساتھ کلمتیوں پر بھی حملے ہوئے۔ 1591ء کے بعد مغلوں کے زمانے میں کلمتی حب، ملیر اور ساکرے کے علاقوں میں طاقتور تھے۔ ان دنوں جب بُرفت قبیلے کی گائیچوں اور چھچھروں سے لڑائی ہوئی تو کلمتیوں نے برفتوں کی مدد کی تھی۔

مغلوں کے زوال کے دنوں میں برفت نومڑیہ نئے باران سے مغرب کوہستان میں طاقتور قبیلے تھے۔ 1703ء میں ان قبائل کے سردار پاہڑ خان نے لسبیلو میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس طرح نومڑیہ محال کوہستان سے حب تک، کلمتیوں سے جنگیں لڑیں۔ کلمتی بھی اپنی جگہ پر طاقتور تھے تو وہ بھی ان سے لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ کلمتیوں کے ’گندبے مندانی‘ نے لسبیلو میں جاکر بڑی تعداد میں برفتوں کے مویشی چرائے۔

وقت گزرا اور مغلوں کے بعد کلہوڑوں کو حکومت ملی تو میاں یار محمد نے 1705ء میں پہلے پاہڑ خان کو شکست دی۔ بعدازاں ان دونوں کی صلح ہوگئی۔

بلوچ صاحب لکھتے ہیں کہ ’جب بُرفت، گبول اور کلمتیوں سے کمزور پڑنے لگے تو پاہڑ خان نے میاں نور محمد کو کلمتیوں کے خلاف لشکر کشی کا مشوہ دیا۔ کلہوڑا حکومت کے لیے بھی جنوبی سندھ پر اپنی طاقت دکھانے کا یہ اچھا موقع تھا‘۔

   سونڈا لاشاری جگجوؤں کا قبرستان—تصویر: لکھاری
سونڈا لاشاری جگجوؤں کا قبرستان—تصویر: لکھاری

جب رانو ارجن کی ریاست حاصل کرنے کی غرض سے کلہوڑوں نے پہلا حملہ کیا تھا تو اس حملے سے بچنے کے لیے رانو ارجن کا کلمتیوں نے بڑا ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ بچ بھی گیا تھا۔ اب رانوں اور کلمتیوں کے بیچ میں دراڑ ڈالنے کے لیے میاں نور محمد کے حکم پر میر محمد عرف الہیار خان کلہوڑو نے پیر کے دن 17 مارچ 1749ء میں ملک مرید بن ملک ابراہیم کو جاگیر کا مالک بنا کر اس کی سند دی۔ اس مالکی کی وجہ سے جب میاں غلام شاہ نے بجار جوکھیو کو رانو ارجن کے قتل کرنے کا کہا تو ملک مرید نے رانو ارجن کی کوئی مدد نہیں کی۔

رانو ارجن کی ریاست کے خاتمے کے بعد میاں غلام شاہ نے کلمتیوں کے خلاف خدا آباد سے لشکر بھیجا۔ کلہوڑوں کے 10 ہزار کے لشکر سے کلمتی اور گبول لڑے اور اس جنگ میں کلمتیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ میاں غلام شاہ نے جوکھیوں کی مدد کی اور اس طرح جوکھیہ قبیلہ سردار بجار کی سرداری میں طاقتور بنا۔ کلمتیوں اور لاشاریوں کو بہت پریشان کیا یہاں تک کہ ساکرے کے طرف بھی کلمتیوں کے لیے جوکھیوں نے زمین تنگ کر رکھی تھی۔

   ملک طوطا کی قبر جس پر بنی چوکنڈی کئی برس پہلے گر چکی ہے، بلوچ ٹومبس، ملیر—تصویر: لکھاری
ملک طوطا کی قبر جس پر بنی چوکنڈی کئی برس پہلے گر چکی ہے، بلوچ ٹومبس، ملیر—تصویر: لکھاری

میرے سامنے ان قبائل کی آپس میں کی ہوئی 60 سے زائد جنگوں کی تفصیل موجود ہے۔ مگر میں یہاں کچھ اہم لڑایوں کے نام آپ کی معلومات کے لیے تحریر کررہا ہوں۔

  • کُرین واری جنگ (کلمتیوں اور جوکھیوں کے درمیان)
  • تھدے واری جنگ (کلمتیوں اور جوکھیوں کے درمیان)
  • مکلی پر پہلی جنگ (کلمتیوں اور جوکھیوں کے درمیان)
  • بجار اور رانو ارجن جنگ
  • اللہ بنے واری جنگ (جوکھیوں اور لاشاریوں کی درمیان)
  • جوکھین برفتن واری جنگ (جوکھیوں اور برفتوں کے درمیان)
  • برفتوں جاکھروں واری جنگ (برفتوں اور جاکھروں کے درمیان)
  • گندبے مندانی واری جنگ (گبول اور نومڑیوں کے درمیان)
  • سیری یا اونگر واری جنگ (جوکھیوں اور برفتوں کے درمیان)
  • بنبھور واری جنگ (جوکھیوں، جاکھروں اور گبولوں کے درمیان)
  • کلہوڑن کلمتین واری جنگ (کلہوڑوں اور کلمتیوں کے درمیان)
  • مکلی پر دوسری جنگ (کلمتیوں اور جوکھیوں کے درمیان)

اس حوالے سے تحقیق کرنے والے محترم کلیم اللہ لاشاری صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ ’اس قسم کی جنگوں نے کلمتیوں کو جام بجار سے بیگانہ کردیا۔ سیری یا اونگر والی جنگ (یہ لڑائی کوٹری اور جھرک کے بیچ والے میدان میں ہوئی) میں گھمنڈ کے ہاتھوں شکست نے برفتوں کو ناراض کردیا اور انہوں نے اپنے علاقے واپس لینے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔

’1768ء میں جام بجار سے آخری لڑائی ہوئی۔ یہ 12 ہزار کے قریب افراد کا لشکر تھا جس نے باران (محال کوہستان) سے شروعات کی اور اپنے علاقوں کو پھر سے اپنے قبضے میں لے لیا۔ جام بجار نے میاں غلام شاہ کو یہ باور کرایا کہ اس طرح کے حالات ننگر ٹھٹہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ میاں نے 8 ہزار سپاہیوں کو یہ یقین دہانی کروا کر روانہ کیا کہ آنے والے وقت میں برفتوں کے لیے جوکھیہ خطرہ نہیں بنیں گے۔ برفتوں کی جو جاگیریں ہیں وہ ان ہی کے پاس رہیں گی اور اس طرح ایک اور جنگ ہونے کے خدشے کو میاں نے ٹال دیا‘۔

ان جنگوں کا سلسلہ تالپور زمانے تک چلا جس کا کچھ ذکر ابھی باقی ہے جو ہم اگلی قسط میں کریں گے۔ اس ذکر کے ختم ہونے کے بعد ہم کلہوڑا دور میں کراچی اور قلات کے حوالے سے ہوئے کچھ تنازعات کو تاریخ کے صفحات کو کنگھال کر کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس کے بعد اگر آنے والی قسط میں وقت بچا تو ہم ان قبیلوں کی لڑائیوں میں مارے جانے والے جنگجوؤں کے قبرستانوں، ان پر کی گئی سنگ تراشی اور ہمارے نزدیکی ممالک کے علاقوں میں ان سے مشابہ قبرستانوں کے تاریخی اور روحانی اسباب پر تفصیلی باتیں کریں۔ ہم کوشش کریں گے کہ ہم اگلی قسط میں اس حوالے سے کام کرنے والے محققین کو اپنے اس سفر میں شامل کرسکیں۔

حوالہ جات

  • ’آئین اکبری‘۔ علامہ ابوالفضل، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’چوکنڈی اور قبائلی قبریں‘۔ کلیم اللہ لاشاری، محکمہ قدیم نوادرات، کراچی
  • ’لُب تاریخ سندھ‘۔ خداداد خان، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
  • ’تحفتۃ الکرام‘۔ میر علی شیر قانع، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
  • ’جنگناما‘۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
  • Six Thousand Years of History of Irrigation in Sindh. By. M.H.Panhwer

نوٹ: تحصیل کوہستان کو محال کوہستان بھی کہتے ہیں۔ یہ تحصیل پہاڑی علاقہ کے شہروں اور علاقہ پر مشتمل ہے جس وجہ سے کوہستان کہا گیا۔ یہ تحصیل پہلے ضلع کراچی پھر ضلع دادو اور اب ضلع جامشورو کی تحصیل ہے۔ اس تحصیل کا ہیڈکوارٹر تھانہ بولا خان شہر ہے۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔