• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

’موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو 2070 تک بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘

شائع November 4, 2024
— فوٹو: ڈان
— فوٹو: ڈان

ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے زراعت، جنگلات اور ماہی گیری سمیت قدرتی وسائل کے شعبے میں بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے شائع ایشیا پیسفک کلائمیٹ رپورٹ 2024 کے مطابق پاکستان میں ان شعبوں سے مجموعی نقصانات جی ڈی پی کا 12 فیصد تک ہونے کا امکان ہے جو ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں سب سے زیادہ ہے۔

2070 تک موسمیاتی تبدیلی ایشیا اور بحر الکاہل میں مجموعی طور پر جی ڈی پی کے 16.9 فیصد نقصان کا سبب بن سکتی ہے، زیادہ تر خطے کو 20 فیصد سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جن ممالک اور ذیلی خطوں کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں یہ نقصانات بنگلہ دیش، ویتنام، انڈونیشیا، بھارت، باقی جنوب مشرقی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، پاکستان، بحرالکاہل اور فلپائن میں مرکوز ہیں۔

گرمی کی لہروں سے مزدوروں کی پیداواری صلاحیت پر شدید اثرات پڑتے ہیں اور یہاں تک اس میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی شامل ہیں، 2070 تک مزدوروں کی پیداواری صلاحیت میں کمی کی وجہ سے جی ڈی پی کا نقصان خطے کے لیے 4.9 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے جب کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس کا اثر 10.4 فیصد ہوگا، بھارت پر 11.6 فیصد اور ویتنام پر 8 فیصد اثر پڑے گا۔

اگرچہ سمندر کی سطح میں اضافہ 2070 تک معاشی نقصانات کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا، لیکن 2030 میں ، زیادہ تر معاشی نقصانات مزدوروں کی پیداواری صلاحیت اور توانائی کی طلب پر اثرات کی وجہ سے ہوں گے۔

سمندر کی سطح میں اضافے اور طوفانی لہروں سے متعلق نقصانات میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوگا کیونکہ سمندر کی سطح میں اضافے سے ہونے والے اثرات میں بھی تیزی آرہی ہے جب کہ تباہ شدہ سرمائے کی تعمیر نو کے اخراجات وجہ سے معاشی ترقی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے سب سے بڑے معاشی اثرات کم آمدنی والے ممالک جیسے بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، جنوب مشرقی ایشیا، ویتنام اور بحرالکاہل میں ہوں گی جس کی بنیادی وجہ ان ممالک میں ساحلی طغیانی میں اضافہ، مزدوروں کی پیداواری صلاحیت میں کمی اور قدرتی وسائل میں کمی ہوگی۔

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے خبردار کیا ہے کہ ان آفات سے غریب طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی ترقی پذیر ایشیا میں لوگوں کے معیار زندگی کو یکسر تبدیل کر دے گی۔

خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ واضح اثرات گرمی کی لہروں کی مدت اور شدت سے محسوس کیے جائیں گے جس کے بعد بارشوں کے طریقہ کار میں تبدیلی سے سیلاب کے خطرات بڑھ جائیں گے اور خشک سالی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدید طوفانوں اور سمندر کی سطح میں اضافے سے نشیبی ساحلی علاقوں بشمول بڑے شہروں کو خطرہ لاحق ہوگا۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر موسمیاتی بحران میں تیزی آتی رہی تو خطے کے 30 کروڑ افراد ساحلی سیلاب سے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور 2070 تک سالانہ کھربوں ڈالر کے ساحلی اثاثوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

مستقبل میں ایشیا اور بحرالکاہل کے زیادہ تر خطے کے گیلے ہونے کی توقع ہے کیونکہ گرم ہوا زیادہ نمی برقرار رکھ سکتی ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ سمندری بخارات میں اضافہ کرتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں سال 2100 تک بارشوں میں 50 فیصد اضافہ ہوگا جب کہ مشرقی ایشیا میں اس میں 25 فیصد اضافہ ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق خطے میں موافقت کے لیے سالانہ فنانسنگ کی ضروریات کا تخمینہ 102 ارب ڈالر سے 431 ارب ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پالیسی سازوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متعلق پیش گوئیوں پر مسلسل نظر ثانی کرنی چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024