لاہور: ایئر کوالٹی انڈیکس میں اضافے کا خدشہ، شہریوں سے کھڑکیاں، دروازے بند رکھنے کی اپیل
محکمہ تحفظ ماحول پنجاب نے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے شہریوں سے اپنے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھنے کی درخواست کی ہے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق محکمہ تحفظ ماحول پنجاب لاہور میں اسموگ میں اضافے کا الرٹ جاری کر دیا۔
سیکرٹری تحفظ ماحول پنجاب راجہ جہانگیر انور کی جانب سے جاری الرٹ کے مطابق پڑوسی ملک بھارت میں کثرت سے فصلوں کی باقیات جلانے سے لاہور کے ایئر کوالٹی انڈیکس میں اضافے کا احتمال ہے۔
الرٹ میں کہا گیا ہے کہ آلودہ مشرقی ہواؤں سے لاہو کے ایئر کوالٹی انڈیکس میں غیرمعمولی اضافہ ہو سکتا ہے، اس وقت ہوا کی رفتار 4 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، جس کا لاہور کی جانب چند گھنٹے مزید چلنے کا امکان ہے۔
سیکریٹری تحفظ ماحول نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کو بند رکھیں۔
واضح رہے کہ ہفتہ کو لاہور میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے بتائی گئی قابل قبول لیول سے 80 گنا زیادہ رہی جب کہ ایک عہدیدار نے شہر کی ریکارڈ بلند سطح قرار دیا۔
ترجمان محکمہ موحولیات نے بتایا تھا کہ لاہور میں فضائی آلودگی انتہائی حد کو بھی عبور کرگئی، ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) ایک ہزار سے بھی بڑھ گیا جب کہ آئندہ 48 گھنٹے اسموگ کی شدت برقرار رہے گی۔
آج صبح 9 بجے تک ایئر کوالٹی انڈیکس (فضا میں ہوا کا معیار) ایک ہزار 67 تک پہنچ گیا تھا جب کہ صبح 11 بجے تک اے کیو آئی 700 تک آگیا تھا اور لاہور فضائی آلودگی میں بدستور دنیا میں سرفہرست رہا۔
ترجمان محکمہ موحولیات کے مطابق بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے سے اٹھنے والا شدید دھواں پاکستان میں داخل ہوچکا ہے اور بھارت سے آنے والی تیز ہواؤں نے لاہور میں فضائی آلودگی انڈیکس ایک ہزار تک پہنچا دیا۔
مہلک آلودگی (پی ایم2.5) کی سطح ایک ہزار 67 تک پہنچ گئی جب کہ صبح میں یہ سطح 300 کے قریب ہوگئی جب کہ ڈبلیو ایچ او کی طرف سے 10 سے اوپر کی سطح کو غیر صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔
باریک ذرات (پی ایم 2.5)، موٹے ذرات (پی ایم 10)، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (این او 2) اور اوزون (او 3) شامل ہیں، 100 سے زیادہ اے کیو آئی کو ’مضر صحت‘ جب کہ 150 سے زیادہ کو ’بہت زیادہ مضر صحت‘ سمجھا جاتا ہے۔
لاہور میں محکمہ ماحولیاتی تحفظ کے ایک اعلیٰ عہدیدار جہانگیر انور نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سے قبل ہم کبھی بھی 1000 کی سطح پر نہیں پہنچے تھے، انہوں نے کہا کہ ایئر کوالٹی انڈیکس آئندہ 3 سے 4 روز تک بلند رہے گا۔
اسموگ کیا ہے؟
اسموگ (Smog) دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے جس سے عموماً زیادہ گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے۔ لفظ اسموگ انگریزی الفاظ اسموک اور فوگ سے مل کر بنا ہے۔
اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلا کاربن مونوآکسائڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔
اسموگ کیسے بنتی ہے؟
جب فضاءآلودہ ہو یا وہ گیسز جو اسموگ کو تشکیل دیتی ہیں، ہوا میں خارج ہوں تو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ان گیسوں اور اجزا کے ساتھ ماحول پر ردعمل کا اظہار اسموگ کی شکل میں کرتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہوائی آلودگی ہی ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ زیادہ ٹریفک، زیادہ درجہ حرارت، سورج کی روشنی اور ٹھہری ہوئی ہوا کا نتیجہ ہوتی ہے، یعنی سرما میں جب ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے تو اس سے دھوئیں اور دھند کو کسی جگہ ٹھہرنے میں مدد ملتی ہے جو اسموگ کو اس وقت تشکیل دے دیتا ہے جب زمین کے قریب آلودگی کا اخراج کی شرح بڑھ جائے۔
وجوہات
اسموگ بننے کی بڑی وجہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے گیسز کا اخراج، صنعتی پلانٹس اور سرگرمیاں، فصلیں جلانا (جیسا محکمہ موسمیات کا کہنا ہے) یا انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حرارت۔
صحت پر اثرات
اسموگ انسانوں، جانوروں، درختوں سمیت فطرت کے لیے نقصان دہ ہے اور جان لیوا امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کردیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔ کسی شہر یا قصبے کو اسموگ گھیر لیں تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں جو آنکھوں میں خارش، کھانسی، گلے یا سینے میں خراش اور جلد کے مسائل سے لے کر نمونیا، نزلہ زکام اور دیگر جان لیوا پھیپھڑوں کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔
اسموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کے لیے دورے کا خطرہ بڑھانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے، اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
بچاﺅ کے لیے کیا کریں؟
اسموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرے ہوئے ہے تو گھر کے اندر رہنے کو ترجیح دیں اور کھڑکیاں بند رکھیں۔
باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور لینسز لگانے کی صورت میں وہ نہ لگائیں بلکہ عینک کو ترجیح دیں۔
اسموگ کے دوران ورزش سے دور رہیں خصوصاً دن کے درمیانی وقت میں، جب زمین پر اوزون کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اگر دمہ کے شکار ہیں تو ہر وقت اپنے پاس ان ہیلر رکھیں، اگر حالت اچانک خراب ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
اگر نظام تنفس کے مختلف مسائل کے شکار ہیں اور اسموگ میں نکلنا ضروری ہے تو گنجان آباد علاقوں میں جانے سے گریز کریں جہاں ٹریفک جام میں پھنسنے کا امکان ہو، سڑک پر پھنسنے کے نتیجے میں زہریلے دھویں سے بچنے کے لیے گاڑی کی کھڑکیاں بند رکھیں۔