فیول لاگت میں کمی کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا
ایندھن کی کم قیمتوں کے باوجود نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اعلان کیا ہے کہ سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمتیں زیادہ ہوں گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ستمبر میں استعمال کردہ بجلی کی فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) پر عوامی سماعت کے دوران نیپرا کے ایک افسر نے کہا کہ صارفین کے لیے 15 پیسے فی یونٹ خالص اضافہ ہو گا، بشرطیکہ ریگولیٹر نے نومبر میں ڈسکوز کی طرف سے مانگے گئے ریفنڈ میں 71 پیسے فی یونٹ کی منظوری دے دی ہو۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اکتوبر کے بلوں میں ایف سی اے کی مد میں 86 پیسے فی یونٹ کی کمی نہیں ہوگی اور اس کی جگہ 71 پیسے منفی ایڈجسٹمنٹ ہو گی، اس طرح 15 پیسے فی یونٹ کا خالص اضافہ ہو گا۔
نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار کی زیر صدارت ہونے والی سماعت کے دوران ریگولیٹر کے ٹیکنیکل ممبر رفیق شیخ نے کم ایف سی اے کے اثرات اور آئندہ ماہ ہونے والی سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے) پر کھپت کے پیٹرن میں تبدیلی کے بارے میں استفسار کیا، جس پر کیس افسر نے بتایا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ سے ٹیرف میں 40-45 ارب روپے اضافے کا تخمینہ ہے، لیکن نیوکلیئر پاور جیسے کچھ بقایا کیسز کی کلیئرنس کسی بھی اضافے کو تقریباً منسوخ کر دے گی۔
سماعت میں بتایا گیا کہ زیادہ تر ریفرنس ٹیرف کی اجازت دینے والے زیادہ تر عوامل تخمینوں کے مطابق ہیں۔
ستمبر میں بجلی کی پیداوار 9.9 فیصد گرنے کی اطلاع ہے، جبکہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں بھی بجلی کی پیداوار گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں 8 فیصد کم ہوئی ہے۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے شوگر ملوں کے واجبات کی مد میں 7.5 ارب روپے سے زائد کا دعویٰ کیا ہے، تاہم کچھ شرکا نے اس دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بیگاس پر مبنی پلانٹس کے حوالے سے سمجھوتے پر پہنچ چکی ہے۔
اس لیے یہ دعوے بلا جواز ہیں، نیپرا کے چیئرمین نے وضاحت کی کہ ایسا معاہدہ سرکاری طور پر کاغذ پر نہیں ہے اور صرف حکومت کی جانب سے ٹیرف کے دوبارہ تعین کی باضابطہ درخواست پر غور کیا جا سکتا ہے۔
وسیم مختار نے یہ بھی اصرار کیا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ بند ہونے کا صارفین پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ یہ ’ٹیک اینڈ پے‘ معاہدہ پر ہے اور بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔
تاہم، مبصرین کی طرف سے انہیں یاد دلایا گیا کہ اس کی بندش کا یقینی طور پر صارفین پر منفی مالی اثر پڑا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ایل این جی یا کوئلے پر مہنگے پلانٹس کا استعمال شروع ہوا، اور درآمدی کوئلے پر مبنی ماضی کے بیگاس کیلکولیشن کے اضافی اثرات نے بھی نقصان دہ اثر ڈالا، اس کے علاوہ صارفین نیلم جہلم سرچارج تقریباً ایک دہائی سے ادا کر رہے ہیں۔
سی پی پی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ ایندھن کی ریفرنس فی یونٹ لاگت 9 روپے 80 پیسے پر برقرار رہے گی، تاہم ستمبر کے لیے حقیقی اوسط فیول لاگت 9 روپے 10 پیسے رہی، جو گزشتہ برس کے اسی مہینے میں 7 روپے 62 پیسے ریکارڈ کی گئی تھی، یہ تقریباً 20 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ ستمبر میں تقریباً 12 ہزار 487 گیگا واٹ بجلی تقریباً 104 ارب روپے (8.34 روپے فی یونٹ) کی فیول کاسٹ پر پیدا کی گئی، جس میں سے 12 ہزار 118 گیگا واٹ بجلی ڈسکوز کو 110 ارب روپے (9.09 رپے فی یونٹ) کی لاگت پر دی گئی۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی کی کھپت میں بڑی کمی کی بظاہر وجہ زائد نرخ اور صارفین کی قوت خرید کا سکڑنا ہے، ستمبر 2024 میں بجلی کی کھپت گزشتہ سال کے اسی مہینے کے (12 ہزار 920 گیگاواٹ) مقابلے میں 20 فیصد کم رہی۔