190 ملین پاؤنڈ ریفرنس: 33ویں پیشی پر بھی تفتیشی افسر پر جرح مکمل نہ ہوسکی
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف تفتیش کرنے والے قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسر میاں عمر ندیم پر 33ویں پیشی پر بھی جرح مکمل نہ ہو سکی۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے ریفرنس پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ بشریٰ بی بی ریفرنس کی سماعت کے لیے پشاور سے آئیں۔
دوران سماعت بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان گل نے کیس کے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم پر 33ویں پیشی پر بھی جرح کی۔
نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان گل کے غیر ضروری سوالات پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بھی غیر ضروری سوالات کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے، غیر ضروری سوالات پوچھ کر عدالت کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ کیس کا تفتیشی افسر کیس کا رسمی گواہ ہوتا ہے نہ کہ چشم دید گواہ، وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ گواہ سے پوچھا جارہا ہے کہ ریفرنس کے 10 والیم میں کتنے صفحات پر لفظ کانفیڈینشل لکھا گیا ہے، جتنے بھی صفحات پر کانفیڈینشل لکھا گیا ہے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں، یہ غیر ضروری سوال ہے، اس کے علاوہ وکلا صفائی جو بھی سوال پوچھنا چاہتے ہیں، گواہ سے پوچھ سکتے ہیں۔
عدالت نے پراسیکیوشن کے اعتراض کو درست قرار دیتے ہوئے وکلا صفائی کو غیر ضروری سوال کرنے سے روک دیا۔
وکلا صفائی نے عدالت کی جانب سے اعتراض درست قرار دینے کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی استدعا کی جس کے بعد عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔