پروین رحمان قتل کیس: سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر
اسلام آباد: پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے گروپ نے ایک معروف سماجی کارکن کے قتل میں انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
پروین رحمان جنہوں نے اپنی زندگی پسماندہ علاقوں کی ترقی میں صرف کی تھی، انہیں رواں سال 13 مارچ کو کراچی میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔
موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے بنارس پیل کے قریب ماری پور روڈ پر ان گاڑی پر اس وقت فائرنگ کی تھی جب وہ دفتر سے اپنے گھر کی جانب جارہی تھیں۔
انہیں ان کے ڈرائیور نے فوری طور پر عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکیں تھیں۔
پروین رحمان اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں بطور ڈائریکٹر خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نامی این جی او جس کا قیام 1980ء میں عمل میں آیا تھا، اورنگی ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات کے معاملات پر نظر رکھتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرا یوسف، عقیلہ اسماعیل، پروین رحمان کی بڑی بہن، عظمیٰ نورانی، عارف حسن، انور رشید، کوثر سید خان، کرامت علی، زبیدہ مصطفیٰ، پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن و ریسرچ اور سائیبان کی جانب سے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی۔
پیٹیشن میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کے علاوہ وزارتِ قانون کے ذریعے وفاقی حکومت کو مدعی بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پہلے اس درخواست پر تکنیکی اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے واپس کردیا تھا، لیکن جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے کل بروز جمعرات کو عدالتی آفس کو حکم دیا کہ وہ اسے سماعت کے لیے منظور کرلے۔
درخواست میں اپیل کی گئی کہ پروین رحمان کے قتل کی تفتیش کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج پر مشتمل عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
یاد رہے کہ پیر آباد پولیس اسٹیشن نے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 302/34 کے تحت پہلے ہی اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کر لی تھی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ قتل کو چار مہینے سے بھی زائد کا عرصے گزر چکا ہے، تفتیش کے عمل میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ اب تک کوئی چالان بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایک سفاکانہ قتل تھا، اور اس اعلیٰ سطح کے کیس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی اور غفلت سامنے آئی ہے۔
پیٹیشن میں پروین رحمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پروین رحمان کو کراچی میں لینڈ مافیا کی سرگرمیوں کا بہت اچھی طرح سے علم تھا، اور بہت سالوں سے خطرات کے باوجود بھی انہوں نے اپنا سوشل ورک بند کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں وہ کراچی میں لینڈ مافیا کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن گئی تھیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ پروین رحمان کا قتل اس بات کی نشانی ہے کہ لیڈ مافیا کراچی کے پسماندہ علاقوں اور گوٹھوں میں پھیل گئے ہیں، جس میں اورنگی ٹاؤن بھی شامل ہے جہاں پر آباد غریب لوگوں کو خراب حالات کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑ رہی ہے۔