خوف، نقل مکانی اور بیماری، 19 سالہ فلسطینی لڑکی نے ایک سال میں کیا دیکھا؟
’مجھے اس دن ایسا لگا کہ جیسے قیامت آ چکی ہے‘، یہ کہنا تھا 19 سالہ دیما النجار کا جو 7 اکتوبر 2023ء کے واقعات کو کچھ اس انداز میں بیان کرتی ہیں۔
دیما النجار نے کہا، ’میں نے ایک گہرا سانس لیا اور مجھے احساس ہوا کہ نہیں یہ تو میزائلز ہیں‘۔ وہ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو عطیات جمع کرنے اور کمیونٹی کی امداد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
غزہ میں ایک سال سے جاری اسرائیلی جارحیت میں اب تک تقریباً 41 ہزار 802 مظلوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ مسلسل جاری اسرائیلی حملوں میں غزہ کے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ ضروریات زندگی کی فراہمی رک جانے کے باعث مقبوضہ علاقے میں بیماریاں پھیل رہی ہیں جس کے باعث غزہ کا انسانی بحران مزید سنگینی اختیار کرگیا ہے۔
دیما النجار نے بتایا کہ گزشتہ سال اس بدقسمت دن دھماکوں کی آواز نے انہیں نیند سے بیدار کیا۔
ان کا بھائی اسکول جانے کی تیاری کررہا تھا تو انہوں نے فوراً اپنے بھائی کو گلے لگا لیا۔ وہ کہتی ہیں، ’میں جانتی تھی کہ وہ ڈرتا ہے۔ چند گھنٹے گزر جانے کے بعد سب کچھ واضح ہوچکا تھا۔ میرے تایا اور ان کے بیٹے کو 7 اکتوبر کو قتل کردیا گیا تھا‘۔
جب اس سے قبل میں نے پہلی بار دیما کا انٹرویو کیا تو غزہ میں جاری سفاکیت کو 6 ماہ ہوچکے تھے جبکہ وہ اور ان کا خاندان غزہ کی پٹی کے سب سے جنوبی حصے میں واقع رفح میں پناہ گزین تھے۔
انہوں نے اپنا گھر اسی لیے چھوڑا کیونکہ وہ محفوظ پناہ گاہ کے متلاشی تھے لیکن بہت سے دیگر فلسطینیوں کی طرح وہ اور ان کے خاندان کو بھی بمباری کا خوف تھا کیونکہ غزہ کے جنوبی حصوں میں اسرائیلی بمباری جاری تھی۔
رواں سال مارچ میں اسرائیل نے رفح میں زمینی کارروائی کی دھمکی دی تھی جس پر جو بائیڈن نے ردعمل دیا کہ یہ ’ریڈ لائن‘ ہے اور اگر اسرائیل نے اسے عبور کرتے ہوئے جنوبی علاقوں میں کارروائی کی تو وہ اسرائیل افواج کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کردیں گے۔
تاہم تل ابیب نے یہ ریڈ لائن انتہائی وحشیانہ انداز میں عبور کی۔ فوٹیجز سامنے آئیں کہ جن میں اسرائیلی فوجی ٹینکوں سے سائن بورڈز اور عمارتوں کو نشانہ بنانے پر خوشی کا اظہار کرتے رہے۔
رفح اور مضافاتی علاقوں میں زمینی حملے کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مضبوط اتحادی کے لیے مالی امداد میں اضافہ کردیا۔ حال ہی میں امریکا کی جانب سے اسرائیل کو مجموعی طور پر 8.7 ارب ڈالرز کی فوجی امداد فراہم کی گئی۔
دیما النجار جو اس وقت خان یونس میں مقیم ہیں، کہتی ہیں، ’ہفتہ وار بنیادوں پر ٹینکوں کا یہاں آنا اور چلے جانا انتہائی عام ہے۔ کچھ لوگ زندہ رہنے کی خواہش میں فوری طور پر یہاں سے چلے جاتے ہیں جبکہ کچھ اپنے گھروں یا خیموں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ لوگ زندہ رہتے ہیں جبکہ زیادہ تر اچانک بمباری اور شیلنگ سے شہید ہوجاتے ہیں‘۔
اس وقت دنیا کی توجہ لبنان پر اسرائیل کے حملے کی جانب مبذول ہوچکی ہے جس میں 2 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب یہ یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر حملوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔
بہت سے فلسطینی جو خود بھی اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں سے نبرد آزما ہیں، انہوں نے لبنان کے حالات پر شدید رنج کا اظہار کیا جبکہ کچھ تو احساسِ جرم میں بھی مبتلا ہیں۔
’یہاں روزانہ کی بنیادوں پر قتل عام ہوتا ہے۔ لبنان پر بمباری کے بعد سے درد کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے‘، دیما النجار نے یہ کہتے ہوئے بتایا کہ میڈیا کی توجہ اب پڑوسی ملک کی صورت حال پر زیادہ مرکوز ہے۔
گزشتہ ایک سال میں اسرائیلی ظلم کے نتیجے میں 19 لاکھ فلسطینی غزہ میں اپنے گھروں سے محروم ہوئے۔ مارچ میں جب میں نے دیما سے بات کی تھی تب وہ پہلے ہی تین بار اپنے نقل مکانی کرچکی تھیں اور اب وہ بتاتی ہیں ہمارے درمیان ہونے والی آخری گفتگو کے بعد بھی وہ اور ان کا خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوا اور اب مجموعی طور پر ایک سال میں وہ 8 بار نقل مکانی کرچکی ہیں۔
اسرائیل کے غزہ پر حملے سے محض ایک ماہ پہلے ہی دیما کی فیملی نئے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی فیملی کی ملکیت میں دو گھر ہیں جن میں سے شکر ہے کہ نیا گھر اسرائیلی بمباری سے محفوظ ہے۔
’ہمارے دو گھر ہیں جن میں سے پہلا گھر جہاں میں نے اپنی پوری زندگی گزاری، مکمل تباہ ہوچکا ہے جس نے میرے دل کو ٹھیس پہنچائی۔ میں اس حوالے سے بہت دکھی تھی لیکن ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا‘۔
فی الوقت ان کی فیملی بے گھر 4 فلسطینی خاندانوں کے ہمراہ اپنے دوسرے گھر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مسلسل ٹھکانے تبدیل کرنے کی دشواری بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ اب دوبارہ نقل مکانی سے بچنے کے لیے جو ہوسکا وہ کریں گے۔
’جب ہم گھر واپس لوٹے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اب ہم نقل مکانی نہیں کریں گے۔ اب ہم دوبارہ اپنے گھر چھوڑنے کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے‘۔
خوراک کی قلت کے درمیان، اسرائیل نے مؤثر طریقے سے تقریباً 20 لاکھ محصور فلسطینیوں تک امداد کی فراہمی کو روک دیا ہے۔ مناسب حفظان صحت تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں جن میں پولیو وائرس بھی شامل ہے جس کے 25 سال بعد غزہ میں دوبارہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ صحت عامہ کی سہولیات کی قلت سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے ہیں جوکہ پہلے ہی غزہ کے سنگین انسانی بحران میں صحت کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
’درحقیقت میں خود بھی بہت سی بیماریوں اور متعدد بار صحت کی خرابی کا شکار ہوئی ہوں۔ یہاں سرف، صابن یا سینیٹری پیڈز دستیاب نہیں ہیں اور جو دستیاب ہیں ان کی مقدار انتہائی کم جبکہ ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں‘۔
شیمپو کی بوتل جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت 27 ڈالر (7 ہزار 495 روپے) ہے، سینیٹری پیڈز کی قیمت 30 ڈالر (8 ہزار 328 روپے ہے، صابن کی قیمت 6 ڈالر (ایک ہزار 665 روپے) ہے جبکہ بچوں کے ڈائپرز 40 ڈالر (11 ہزار 105 روپے) میں فروخت کیے جارہے ہیں۔ آسمان کو چھوتی قیمتیں اور اشیا کی محدود فراہمی کی بنا پر والدین اپنے بچوں کے لیے کپڑے کے ڈائپرز بنانے پر مجبور ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’ہم پہلے باعزت طور پر رہتے تھے جہاں ہمیں تمام ضروریات زندگی دستیاب تھیں لیکن اب ہم قدیم انسانی طریقے اپنانے پر مجبور ہوچکے ہیں‘۔
جب اس سے قبل ہماری دیما النجار سے بات ہوئی تب انہوں نے اپنے معذور دادا کی تصویر شیئر کی تھی جوکہ خیمے کی زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ اب ان کے دادا کی طبیعت کیسی ہے۔
انہوں نے جواب دیا، ’وہ ان حالات میں رہنے کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس جنگ میں وہ اپنے سب سے بڑے بیٹے اور پوتے کو گنوا چکے ہیں، وہ خود فالج کا شکار ہیں جبکہ ان کے لیے ڈائپرز، کپڑے، ادویات اور یورین بیگز کی بھی کمی ہے۔ ان کی صورت حال انتہائی مشکل ہے‘۔
جب ہماری دیما النجار سے بات ہورہی تھی تب ان کے لہجے میں انتہائی گہرے دکھ اور مایوسی محسوس کی جاسکتی تھی جوکہ بجا بھی ہے کیونکہ ان کی زندگی یوں اچانک مکمل طور پر تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے وضاحت دی کہ ایسا شدید تھکاوٹ کی وجہ سے ہے جو وہ ذہنی اور جسمانی طور پر محسوس کررہی ہیں۔ ان کی یہ کیفیت اس لیے ہے کیونکہ ان پر ایک بھاری بوجھ ہے جو مسلسل حالات کی کشیدگی اور غیر یقینی صورت حال کا نتیجہ ہے۔
’میں کوشش کررہی ہوں کہ اپنی زندگی کو معمول پر لا سکوں کیونکہ میری اداسی اور جذبات کو مدنظر رکھ کر یہ جنگ نہیں رکے گی‘۔
ایک نوجوان لڑکی جس نے ابھی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہی تھا، دیما کی زندگی افراتفری کا شکار ہے۔ خون کے پیاسے اسرائیل کے جابرانہ حملوں میں وہ اپنے تایا اور کزن کو کھو چکی ہیں جبکہ تباہی کے باعث بار بار نقل مکانی کے ان پر اور ان جیسے بہت سے فلسطینیوں پر شدید اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
7 اکتوبر کے اس بدقسمت دن کے بعد سے دیما النجار کا اپنے بہت سے دوستوں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے جس نے ان کی شخصیت میں احساسِ تنہائی کو جنم دیا ہے۔
اس حوالے وہ کہتی ہیں، ’میرا کچھ کے ساتھ رابطہ ہوا ہے جبکہ دیگر سے 7 اکتوبر کے بعد سے میرا رابطہ نہیں ہوسکا ہے‘۔
دیما اور دیگر فلسطینی رابطے کے لیے ای سمز پر انحصار کررہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دنیا تک اپنی آواز پہنچانے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔
کبھی کبھی خراب انٹرنیٹ کنکشنز کی وجہ سے وائس نوٹ بھیجنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ دیما کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بہت سے مواقع پر رکاوٹیں آئیں کہ ہم تک ان کی آواز نہیں پہنچ سکی اور جب انہوں نے وائس نوٹ بھیجا تو عقب میں ڈرونز کی آواز واضح سنائی دے رہی تھی جس نے یاد دہانی کروائی کہ وہ کتنی غیریقینی صورت حال میں رہ رہی ہیں۔
میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ دوست جن سے ان کا رابطہ بحال ہوا، وہ اب کیسے ہیں جس کے جواب میں ان کے لہجے میں مایوسی اور غصہ جھلک رہا تھا، ’وہ بھی جنگ کے مصائب کا سامنا کررہے ہیں کیونکہ ہم سب ہی اس ہولناک جنگ کا شکار ہیں‘۔
اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے ان کے کچھ رشتہ داروں اور یونیورسٹی کے دوستوں کی شہادت ہوئی ہے جس نے ان کے دکھ اور کسی کو کھو دینے کے احساس میں لامتناہی اضافہ کیا ہے۔
اپنی تکالیف، میگرین کی شکایت اور دیگر صحت کے مسائل سے لڑنے کے باوجود دیما نے اپنی زیادہ تر قوت اپنے آس پاس کے لوگوں کی مدد پر مرکوز کر رکھی ہے۔ وہ اپنے GoFundMe اکاؤنٹ سے ملنے والے عطیات کو بےگھر خاندانوں کو خوراک اور پانی فراہم کرنے میں استعمال کرتی ہے۔ حال ہی میں انہیں احساس ہوا ہے کہ ان کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اپنا رضاکارانہ کام کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
دیما بتاتی ہیں، ’صبح 7 بجے سے رات 9 بجے تک میرا پورا دن کام کرنے اور بے گھر لوگوں کی مدد میں گزرتا تھا لیکن اب ایک ہفتے سے میں کام پر نہیں گئی کیونکہ میں شدید تھکاوٹ محسوس کررہی ہوں۔ میں آنکھوں کے مسائل اور میگرین کا شکار ہوں‘۔
بہت سے بے گھر خاندانوں میں ضروری امداد تقسیم کرنے میں مدد کرتے ہوئے دیما النجار نے غزہ میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں بچوں کی زندگیوں پر پڑنے والے منفی اثرات کا خود مشاہدہ کیا ہے۔ محفوظ پناہ گاہ سے محرومی، مسلسل صدمے سے گزرنا، اقربا کو کھو دینے کا احساس، خوراک اور صاف پانی کا فقدان اور تعلیم کا پورا ایک سال ضائع ہونے سے بچوں کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔
بچوں سے متعلق وہ کہتی ہیں، ’بہت سے بچے تعلیم کی کمی اور بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان کے چہروں کے خدوخال بدل گئے ہیں۔ ان کی زندگیاں مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہیں۔ وہ وقت سے پہلے بڑے ہوگئے ہیں۔ وہ بچے ہیں، ایک محفوظ ماحول میں کھیلنے اور تعلیم حاصل کرنے کے بجائے وہ ایک تباہ شدہ، غیرمحفوظ اور انتہائی آلودہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘۔
جہاں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے مظالم کو اجاگر کرنا ضروری ہے وہیں انٹرویوز میں فلسطینی ثقافت کی خوبصورتی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ دیما نے بھی حسرت بھری آواز میں غزہ کی یادیں تازہ کیں، انہوں نے غزہ میں اٹھنے والی قہقہوں کی آوازوں کو یاد کیا جو کبھی اس کی تباہ شدہ گلیوں میں گونجتی تھیں۔ انہوں نے اس متحرک زندگی کو یاد کیا جو تنازع سے پہلے غزہ کے باسی گزار رہے تھے۔
’غزہ میں سب بہت خوبصورت تھا، اس کی ہوا، سمندر، سڑکیں جہاں فیملیز اور دوستوں کی محفلیں لگا کرتی تھیں‘۔
کھیتوں اور ساحل سمندر پر گزارے جانے والے لمحات کو سب سے یادگار قرار دیتی ہیں۔
’ہم سبزیوں سے بھرے کھیتوں میں جایا کرتے تھے جہاں ہم گھنٹوں اپنے دوستوں اور فیملیز کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ سمندر ہمارے لیے ایک الگ ہی دنیا تھی کیونکہ یہاں کا سمندر انتہائی خوبصورت تھا‘۔
عید کے دوران، مہمانوں کو پیش کرنے کے لیے اس کی پسندیدہ مٹھائیاں کائیک اور ما آمول تھیں۔ انہوں نے صحیح تلفظ کے لیے ہمیں وائس نوٹ بھیجا۔
’اسے کیک نہیں بلکہ کائیک کہتے ہیں۔ یہ دراصل بہت ذائقے دار ہوتا ہے‘۔
اسے کائیک العید بھی کہا جاتا ہے جوکہ گول کوکیز ہوتے ہیں جوکہ کھجور سے بنتے ہیں۔ دیگر مٹھائیوں میں ما آمول شامل ہے جوکہ مکھن سے بنی کوکیز ہوتی ہیں جس میں خشک میوہ جات بھرے ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کمیونٹی فلسطینی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ خوشی کے لمحات بانٹنا اور غم کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دینا انتہائی ضروری ہے۔ ایسے حالات میں جذبات کو صرف ایک شخص نہیں بلکہ اجتماعی طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔
دیما کہتی ہیں، ’پیار اور خوبصورت محفلیں ہمیشہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں۔ یہاں لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور جب کوئی دکھی ہوتا ہے تو ہم سب کو اس کا درد محسوس ہوتا ہے۔ میں ایک ایسے گاؤں میں رہتی تھی کہ جہاں تمام گاؤں والوں کا ایک دوسرے سے محبت کا رشتہ تھا۔ ہم ہر تہوار ایک ساتھ مناتے تھے‘۔
غزہ کی تباہی کے درمیان دیما کی یادیں محبت اور بھائی چارے کی طاقت کی عکاس ہیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ یہ صرف غزہ کے ایک باسی کی نہیں بلکہ غزہ میں مقیم تمام بنی آدم کی روداد ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔