میں نے انصاف کے بجائے آزادی کا انتخاب کیا، جولین اسانج
وسل بلور میڈیا گروپ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے یورپی قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی جاسوسی کے الزامات کے خلاف ان کی جانب سے اعتراف جرم کی درخواست ضروری تھی کیونکہ ان کی آزادی کے تحفظ کے لیے قانونی اور سیاسی کوششیں ناکافی ثابت ہوئیں۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرزکی رپورٹ کے مطابق جیل سے رہائی کے بعد جیولین اسانج نے پہلی بار بات کی، کونسل آف یورپ کی ایک کمیٹی سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے بالآخر انصاف کے بجائے آزادی کا انتخاب کیا۔
53 سالہ جیولین اسانج جون میں اپنے آبائی ملک آسٹریلیا واپس آئے تھے جب ان کی رہائی کے لیے ایک معاہدہ طے پایا، جس کے بعد انہوں نے امریکی جاسوسی کے قانون کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں کئی سال قید کے بعد آج آزاد ہوں کیونکہ میں نے صحافت کا اقبال جرم کرنے کا اعتراف کیا، میں نے ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کا اعتراف کیا اور میں نے عوام کو معلومات فراہم کرنے کا بھی اعتراف کیا۔
وکی لیکس نے 2010 میں افغانستان اور عراق میں واشنگٹن کی جنگوں کے بارے میں متعدد خفیہ امریکی فوجی دستاویزات جاری کی تھیں، جو امریکی فوجی تاریخ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی سیکیورٹی خلاف ورزی تھی۔
جیولین اسانج پر کئی سال بعد جاسوسی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جیولین اسانج ایک سیاسی قیدی تھے، رپورٹ میں برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ آیا ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا یا نہیں۔
جیولین اسانج نے اپنی اہلیہ اسٹیلا اور وکی لیکس کی ایڈیٹر کرسٹین ہرفنسن کے درمیان بیٹھ کر تبصرہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ میں ابھی تک اس بارے میں بات کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہوں کہ میں نے کیا برداشت کیا ہے۔
اس کے بعد سوال و جواب کے سیشن کے دوران آزادانہ طور پر بات کرتے ہوئے جیولین اسانج نے قانون سازوں کو بتایا کہ معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کبھی امریکا کے جاسوسی کے الزامات کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لیے کوئی مقدمہ دائر نہیں کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس پر کبھی بھی سماعت نہیں ہوگی۔
لندن جیل میں شادی کرنے والی ان کی اہلیہ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ طویل قید کے بعد انہیں اپنی صحت کو بحال کرنے کے لیے وقت چاہیے ہوگا۔
اپنے منصوبوں سے متعلق پوچھے جانے پر جیولین اسانج نے کہا کہ اسٹراسبرگ میں ہونے والی سماعت ’پہلا قدم‘ تھا جس کا مقصد وسل بلورز اور مخبروں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کئی سالوں کی قید کے بعد طرز زندگی کو معمول پر لانا مشکل ہوسکتا ہے۔
جیولین اسانج کو پہلی بار 2010 میں یورپی گرفتاری وارنٹ پر برطانیہ میں گرفتار کیا گیا تھا جب سوئیڈش حکام نے کہا تھا کہ وہ جنسی جرائم کے الزامات پر ان سے تفتیش کرنا چاہتے ہیں، جس سے بچنے کے لیے جیولین اسانج ایکواڈور کے سفارت خانے چلے گئے تھے جہاں وہ 7 سال رہے۔
انہیں 2019 میں سفارت خانے سے باہر نکالا گیا تھا اور لندن کی بیلمارش جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔