’پاکستان نے چین، یو اے ای، سعودی عرب سے مزید مالی یقین دہانیاں حاصل کرلیں‘
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ پاکستان کو چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے اہم مالی یقین دہانیاں موصول ہوئی ہیں جو ایک نئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام سے منسلک ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کے مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے جمعرات کو تینوں ممالک کی طرف سے اضافی فنانسنگ رقوم کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا لیکن کہا کہ وہ قرض کے رول اوور میں سب سے اوپر آئیں گے۔
ناتھن پورٹر نے ایک کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، لیکن متحدہ عرب امارات، چین اور مملکت سعودی عرب نے اس پروگرام میں اہم مالیاتی یقین دہانیاں فراہم کیں۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے بدھ کو پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ کے قرضے کے نئے معاہدے کی منظوری دی ہے جس میں پاکستان کو معاشی استحکام کو مضبوط بنانے کے لیے صحیح پالیسیوں اور اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
ناتھن پورٹر نے کہا کہ پاکستان نے 2023 کے وسط سے قابل ذکر معاشی تبدیلی کا آغاز کیا ہے جہاں افراط زر میں کمی، مستحکم شرح مبادلہ اور غیر ملکی ذخائر دگنے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔
ناتھن پورٹر کے مطابق لہذا اب ہم اچھی پالیسیاں بنانے کے فوائد دیکھ رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اب چیلنج مانیٹری، مالیاتی اور شرح مبادلہ کی پالیسی کو مستقل رکھ کر مزید ٹیکسوں میں اضافہ اور عوامی اخراجات کو بہتر بنا کر مضبوط اور پائیدار ترقی کی تعمیر کرنا ہے۔
پچھلے سال پاکستان نے 20 سالوں میں اپنا پہلا بنیادی بجٹ سرپلس حاصل کیا اور پروگرام اس کو خام ملکی پیداوار کے 2 فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ناتھن پورٹر نے کہا کہ یہ ریٹیلرز جیسے کم ٹیکس دینے والے شعبوں سے وصولی کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات پر منحصر ہے۔
ناتھن پورٹر کا کہنا تھا کہ قرض کا اگلا جائزہ ممکنہ طور پر 2025 کے مارچ یا اپریل میں ہوگا، اور یہ 2024 کے آخر میں کارکردگی کے معیار کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات انتہائی نتیجہ خیز، مینیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف
دریں اثنا آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف سے اپنی ملاقات کو ’انتہائی نتیجہ خیز‘ قرار دے دیا۔
انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ہم نے پاکستان کے نئے فنڈ کے تعاون سے چلنے والے پروگرام پر تبادلہ خیال کیا جو جاری ریکوری، ڈس انفلیشن، ٹیکس میں انصاف پسندی میں اضافہ، نئی ملازمتیں پیدا کرنے اور جامع ترقی کے لیے اصلاحات میں مدد فراہم کرتا ہے۔