قومی اسمبلی، سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہو جائیں گے، عرفان صدیقی
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آج قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو جائیں گے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون مطلوبہ اکثریت مانگتا ہے اگر حاصل نہیں ہے تو کوئی قیامت نہیں آتی، آئینی ترامیم ہو جائیں گی، اس میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئینی مسودہ کبھی سامنے نہیں آتا، مسودہ پہلے ایوان میں پیش ہوتا ہے، اس وقت نمبر گیم کا مسئلہ ہے، مولانا فضل الرحمٰن بہت ساری چیزوں پر مطمئن تھے۔
سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی
اس سے قبل، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس شروع ہوا جس میں 7 ستمبر 1974کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی یادگاری قرارداد پیش کی گئی۔
قرارداد میں 7 ستمبر کو سرکاری سطح پر منانے کا مطالبہ کیا گیا، بعد ازاں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے موقع پر عام تعطیل کی قرارداد منظور کرلی گئی۔
قرارداد منظور ہونے کے بعد سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔
یاد رہے کہ عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم سے متعلق بل حکمران اتحاد کی بھرپور کوششوں کے باوجود اتوار کو بھی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا، کیونکہ حکومت آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
آئینی ترمیم کے معاملے پر گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس کئی گھنٹے التوا کا شکار ہونے کے بعد 12 گھنٹے بعد شروع ہوا اور اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس آج دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز شام 4 بجے ہونا تھا لیکن بعد ازاں یہ تاخیر کا شکار ہو ا اور پھر 4 گھنٹے بعد رات 8 بجے موخر کردیا لیکن 8 بجے بھی اجلاس شروع نہ نہ ہو سکا، رات 11 بجے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا لیکن چند منٹ تک جاری رہا۔
وفاقی کابینہ اجلاس ایک بار پھر مؤخر
اس سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر تین بجے ہونے والا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہو سکا، کابینہ کا اجلاس دن 11 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن پھر اسے 3 بجے تک موخر کردیا گیا تھا اور پھر شام 5 ہونا تھا جو نہ ہوسکا۔
طریقہ کار کے مطابق، آئینی ترمیم کو پہلے وفاقی کابینہ سے منظوری دینی ہوگی، جس کے لیے کہا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس آج شیڈول ہے اور اجلاس میں آئینی پیکج کی منظوری دینے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا تاہم آج بھی اجلاس نہ ہوسکا۔
مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ
ڈان نیوز کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کے مندرجہ جات کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں، مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، آئین کی63،51،175،187، اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافےکی ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھاکر 81 کرنےکی تجویز شامل کی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل63 میں ترمیم کی جائیں گی، منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائےگی۔
اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانےکا امکان ہے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائےگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جاسکےگا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کا تقرر سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس لگائےگی۔
حکومت کو قومی اسمبلی میں مزید 13 ارکان کی حمایت درکار
آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے حکومتی بینچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم پاکستان کے 22 ارکان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کے ساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 8 جب کہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔
سینیٹ میں حکومت کو مزید 9 ارکان کی حمایت درکار
آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔
اعلیٰ ایوان کی اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے، اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔