...لہو پکارتا ہے
دنیا کے ماڈل فوجی آمر صدر پنوشے نے ایک دفعہ کہا تھا؛
’’اس دیس میں ایک بھی ایسا پتہ نہیں ہے جومیری مرضی کے بغیر ہلتا ہو‘‘.
جنوبی امریکا کے ارجنٹینیا، بولیویا اور پیرو کے بیچوں بیچ لمبی اور پتلی سی لکیر کی طرح جس خطّے کو چلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لانگ بوٹوں کی پلٹن کی کمانڈ سنبھالے پنوشے اس پتلی لکیر کی مانند چلی کے اقتدار پہ بلکل اسطرح حملہ آور ہوا تھا جس طرح غیر ملکوں کی فوجیں دشمن ملک پر حملہ کرتی ہیں۔
بظاہر چلی کا ہماری اس سرزمینِ پاک سے دور دور کا کوئی رشتہ نہیں، جسے ہم نے آخر کو قلعہِ اسلام میں تبدیل کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ خطِ استوا کے جس نقطے پہ یہ دونوں ملک واقع ہیں، اطمینان رکھیں کہ نہ چلی کی ہوائیں آپ کی سرحدوں کو چھو سکتیں ہیں اور نہ ہی وہ آپ کی فضاؤں اور آسمانوں پہ اڑنے والے بادلوں کی چال کو نظر میں رکھ سکتے ہیں۔
آپ کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ چلی میں چلنے والی ہوا کے جھونکوں سے آپ کےتھکن اور پسینے سے بھرے بدن کو کسی ٹھنڈی لہر کا گماں ہوسکتا ہے.
مگر کیا کیجیئے اس تاریخ کا جو کسی نہ کسی صورت میں چلی سے اک رشتہ جوڑتی چلی گئی ہے کہ اس کے سیاہ بابوں میں کئی ایسے مکروہ اشارے ملتے ہیں جو چلّی کو ہمارے حافظے میں محفوظ بنائے ہوئے ہیں، ہاں البتہ اس دیس سے آنے والی خوشخبریوں کا پودا ہمارے دیس کی سر زمین میں ابھی تک نہیں اگ سکا ہے۔
حافظے کے اس کھیل میں کون کہہ سکتا ہے کہ جب ہمارے دیس کے خاکی؛ مردِ مومن کی کمانڈ پہ ٹرپل ون کی برگیڈ لے کر ملک کے چنے ہوئے وزیرِ اعظم کے گھر کی دیوار پھلانگ رہے تھے تو کیا اس وقت لوگوں کو بے اختیار اس وقت کے چلی کا پنوشے یاد نہ آیا ہوگا۔
ذرا اور زور دیجیئے اپنے دماغ پہ، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ تاریخ کا وہ منظر بھی کہیں پنوشے کی چلی کی تاریخ سےچرایا ہوا ہے جب سپاہِ ریاست کے دستے بندوقیں تھامے اس وزیرِاعظم کے بیڈ روم میں گھسے تھے جسے سلیوٹ کرنا ان کا فرضِ آئینی تھا۔
لوگوں کے ووٹ سے چنے ہوئے وزیرِ اعظم کی کنپٹی پہ بندوق رکھہ کر اسکو حراست میں لے لینا کسی رسول کی نہیں اسی وردی پوش پنوشے سے منسوب سنت تھی جو چھڑی اور ملکی بارود خانے کی طاقت سے اقتدار پہ قبضہ کرنے کی روایت سے جڑی ہوئی ہے۔
بیشک اسکے رنگ جدا مگر کیا یہ سچ نہیں تھا کہ پنوشے کی وردی پہ قتل کے چھینٹے دیکھتے ہوئے، آپکے حافظے میں بے اختیار مردِ مومن کی شاطر آنکھیں چمکتی ہوں جو کال کوٹھڑی میں پڑے ہوئے قیدی کے قتل کی خواہش لیئے اقتدار کے نشے میں چور نظر آتی تھیں۔
سلوادور ائندے کی خوابگاہ میں گھس کر اور اسکی کھوپڑی اور بدن کو گولیوں سے نشانہ بنانے کے بعد بھی پنوشے، آلندے کے اس خواب کو درگور نہ کر سکا جو اس نے اپنی قوم کی آنکھوں میں بویا تھا.
البتہ چلی کی پامالی کا کام بوٹوں سے خوب لیا گیا۔ آلندے کے بعد زندگی چلی میں جرم ٹھری پابلو نرودا اپنی نظموں کے اڑتے پنوں میں مردہ پائے گئے، وکٹر حارا کے گٹار کو اس کے سر پہ پھوڑ کر قبر رسید کردیا گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چلی کے مزاحمتکاروں سے قبرستان بھر گْئے تو پھر یکایک زندہ لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا دور شروع ہوا۔
آرٹسٹوں، لکھاریوں اور گیت کاروں کے برش، قلم اور گیت پھر ایک لمبے عرصے تک چلی کی گلیوں میں پنوشے کی بم بندوق اور گولی سے دست و پا ہوتے رہے۔
شیخ ایاز ہوں یا فیض احمد فیض، دنیا بھر کے شاعر و ادیب، چلی کے پابلو نرودا کی نظموں کی دھڑکن اور آلندے کے خواب ستاروں کو اپنی شاعری میں چن کر اپنے ملکوں کی آمریتوں کو للکارنے کا کام لیتے رہے۔ شیخ ایاز نے لکھا؛
پنوشے،
آلندے کا دل بھی اک پتہ ہے،
جو حرکت میں ہے
تمہاری بندش کے باوجود،
اور تم،
اس پتے کی حرکت کو
گولیوں سے بند نہیں کر سکے ہو
جو اس طوفان کے انتظار میں ہے،
جس میں کروڑہا پتے
تالیاں بجا کر
اس انقلاب کو خوش آمدید کہیں گے
جسکا انتظار وہ آج خاموشی سے کر رہے ہیں۔
جب ائندےکے دیش میں پنوشے کا جبر، جبری گمشدگیوں کی تاریخ رقم کر رہا تھا اس وقت شیخ ایاز کے قلم سے یہ نظم نکل کر امید کی کرن بن کر اسکے اپنے دیش میں پھیلی تھی۔
ان دنوں ایاز کا اپنا دیس بھی ایک وردی والے کے بوٹ تلے دبا ہوا تھا۔ یوں صرف چلی ہی نہیں گویا دور دیشوں کے لیئے بھی آلندے آزادی اور پنوشے جبر کا استعارہ بن چکا تھا۔
ایاز کی نظم کے لفظوں کی مانند ائندے کا دل جس طوفان کا خامشی سے انتظار کر رہا تھا، بالآخر وہ دن بھی آیا جب پنوشے کو پناہ کے لیئے یہ دھرتی تنگ ہونا شروع ہوئی۔
اپنے تمامتر جبر کے بعد جب وہ تاریخ برد ضرور ہوا مگر عوام کے خون پہ پلنے والے آمروں کی نسل بھی تب تک جوان ہو چکی تھی۔
یوں چلی پنوشے کے بعد بھی اس ہی طرح روحانی اور نظریاتی ہیضے کا شکار رہا جیسے پاکستان میں ضیا کے مرنے کے بعد بھی ضیائیت مر نہ سکی۔
نئی خبر یہ ہے کہ کچھ ہی دن پہلے پنوشے کے ہر جرم میں شریک چلی کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے لیئے عوام کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
یعنی آج بلآخر چلی کی عدلیہ وردی اور بارود خانوں کو قانون کی سرپرستی دینے کے ناقابل معافی جرم پر شرمندہ ہو کر اپنے عوام سے انیس سو ستّر سے لے کر انیس سو اسی تک کے تاریخی جبر میں اپنے کردار کی معافی مانگ رہی ہے اور اقرار کر رہی ہے کہ وردی کے جبر میں جب عدلیہ آمریت کو قانون کا تحفظ فراہم کرتی ہے تو عوام مزید عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
چلی سے مماثلت کے تمام اشاروں اور حوالوں کے باوجود اگر آپکو ابھی تک اپنے پاک وطن کی وردی کا دامن میلا نہیں لگتا تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں کہ اس وقت یہاں رہزنوں، قاتلوں اور آٓمروں کا احتساب اور مواخذہ نہیں بلکہ مفاہمت اور ڈائلاگ کی روایت پختہ کی جا رہی ہے۔ رہا عدلیہ کا سوال تو جناب یہاں شریکِ قتل بھی کبھی وعدہ معاف گواہ بنے ہیں؟؟
امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔