سینیٹ اجلاس کا وقت تبدیل، شام 7 بجے ہوگا، آئینی ترمیم سے متعلق کوئی آئٹم ایجنڈے میں شامل نہیں
پاکستان کے ایوان بالا کے اجلاس کا وقت ایک بار پھر تبدیل ہوگیا، اجلاس شام 7 بجے شروع ہوگا، تاہم آئینی ترمیم سے متعلق کوئی آئٹم ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اس سے قبل اجلاس سہ پہر 4 بجے شروع ہونا تھا۔
سینیٹ سیکریٹریٹ نے اجلاس کا پانچ نکاتی ایجنڈا جاری کردیا، سینیٹ اجلاس کے ایجنڈے میں دو توجہ دلاؤ نوٹس میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ نائب وزیر اعظم اسحق ڈار کی وقفہ سوالات معطل کرنے سے متعلق ایک تحریک بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
ایوان میں صدارتی خطاب پر صدر آصف علی زرداری کے تشکر سے متعلق تحریک بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ آج سہ پہر 4 بجے قومی اسمبلی کا بھی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے، قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف بھی قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ اور قومی اسمبلی مین اپنے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے ارکان قومی اسمبلی کو مراسلہ جاری کردیا، مراسلے میں اراکین قومی اسمبلی کو آج کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانےکی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری جانب سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے بھی ارکان کو مراسلہ لکھتے ہوئے اراکین کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت دے دی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی اپنے ارکان کو پارلیمنٹ اجلاسوں میں شرکت یقینی بنانےکی ہدایت کردی، سیکریٹری جنرل نیئربخاری نے پارٹی کے تمام سینیٹرز، اراکین قومی اسمبلی کے نام خط لکھ کر انہیں شرکت کرنے کا حکم دے دیا۔
کابینہ اجلاس طلب
آج کابینہ کا اجلاس 3 بجے طلب کیا گیا ہے، وفاقی کابینہ سے آئینی ترمیم کے پیکج کی منظوری لی جائے گی۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس اس سے پہلے 11 بجے شروع ہونا تھا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ مین آئینی ترمیم پیش کرنے سے قبل کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہے۔
آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات
آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کے درمیان جے یو آئی (ف) سربراہ فیصلہ کن کردار بن گئے ہیں، بلاول بھٹو اور محسن نقوی نے رات گئے فضل الرحمن سے طویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی۔
ملاقات کے بعد بلاول بھٹو وکٹری کا نشان بناکر روانہ ہوئے۔
ذرائع کے مطابق بلاول اور محسن نقوی کی جانب سے فضل الرحمن سے آج ہونے والی آئینی ترامیم کے لیے تعاون مانگا گیا جس پر مولانا نے سوچ بچار کا وقت مانگ لیا، جے یو آئی (ف)کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کچھ تجاویز آئی ہیں، تجاویز پر پارٹی کی شوریٰ اور مجلس عاملہ کے ارکان سے بھی مشاورت کی جائے گی، کامران مرتضیٰ کے مطابق آئینی ترمیم آج اسمبلی میں آرہی ہے یا نہیں ہمیں معلوم نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی رہائشچ گاہ پر حکومتی وفد کی ملاقات کے بعد پی ٹی آئی وفد بھی پہنچ گیا، پی ٹی آئی وفد کی قیادت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کی، وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب، شبلی فراز اور صاحبزاہ حامد رضا شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی وفد نے بھی ملاقات میں آئینی ترمیم سے متعلق بات چیت کی، ملاقات کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں نے صحافیوں کو بات چیت کی تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات اچھی رہی، اللہ خیر کرے گا۔
حکومت کو قومی اسمبلی میں مزید 13 ارکان کی حمایت درکار
آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے حکومتی بینچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم پاکستان کے 22 ارکان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کے ساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 8 جب کہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔
سینیٹ میں حکومت کو مزید 9 ارکان کی حمایت درکار
آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔
اعلیٰ ایوان کی اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے، اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔
تاہم حکومتی ذرائع نے آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا ہے تاہم آئنی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے حکومتی رہنماؤں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کی راہداری میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم پیش کریں گے اور ہمارے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے ہوچکے ہیں۔