بلوچستان اور سندھ ارسا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف متحد ہو گئے
بلوچستان اور سندھ کے وزرائے آبپاشی نے مشترکہ مؤقف میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) ایکٹ میں وفاقی حکومت کی مجوزہ ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام 18 ویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے بین الصوبائی پانی کی تقسیم کو کنٹرول کرنے سے متعلق قانون میں ترامیم اب تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی، اس معاملے پر فروری کے عام انتخابات کے بعد سے دوسری بار 2 اہم اتحادیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان دراڑ پیدا ہوئی ہے۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر آبی وسائل مصدق ملک نے پیپلزپارٹی کے قانون سازوں کو یقین دلایا کہ حکومت کوئی بھی ایسی قانون سازی ’آگے نہیں بڑھائے گی، جو کسی صوبے کے لیے بہتر نہ ہو۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت بین الصوبائی اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر آبپاشی میر محمد صادق عمرانی اور ان کے سندھ کے ہم منصب جام خان شورو کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی پہلے ہی ایک متفقہ قرارداد میں ارسا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کو مسترد کر چکی ہے، اسی طرح کی ایک قرارداد بلوچستان اسمبلی میں بھی پیش کی جائے گی۔
میر محمد صادق عمرانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی ارسا ترامیم کے معاملے پر سندھ حکومت کے مؤقف کی مکمل حمایت کرے گی کیونکہ یہ دونوں صوبوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس موقع پر صوبائی وزرا میر ظہور احمد بلیدی، میر عاصم کرد گیلو، ڈاکٹر ربابہ بلیدی اور عبدالمجید بادینی بھی موجود تھے۔
انہوں نے پانی کی تقسیم کے مسئلے کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
میر محمد صادق عمرانی نے کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ اور بلوچستان کے پانی کے مسائل پر غور کیا گیا، ارسا ایکٹ پر دونوں صوبے یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔
جام خان شورو نے کہا کہ وفاقی حکومت 18ویں ترمیم کی خلاف ورزی کر کے نیا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جسے سندھ اور بلوچستان دونوں مسترد کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ارسا ایکٹ پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے قائم کیا گیا، مزید کہنا تھا کہ قانون میں واضح ہے کہ صوبوں کو اپنے آبی وسائل پر مالکانہ حقوق حاصل ہیں لیکن قانون میں مجوزہ تبدیلیاں 18ویں ترمیم کی نفی، صوبائی خودمختاری کو ختم کرتی ہیں اور یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
جام خان شورو نے کہا کہ ارسا ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ چیئرپرسن کی تقرری صوبوں سے باری باری کی جاتی ہے لیکن وفاقی حکومت کی تجویز میں گریڈ 21-22 کے افسر کو بطور چیئرپرسن تجویز کیا گیا ہے، جس سے ارسا معاہدے کو مؤثر طریقے سے ختم کیا جائے گا اور اختیارات بیوروکریٹس کو منتقل کیے جائیں گے۔
دریں اثنا، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے سندھ اور بلوچستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے ساتھ ساتھ زیر التوا واجبات کی ادائیگی سے متعلق پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی۔
کمیٹی میں دونوں صوبوں کے سیکرٹری آبپاشی اور ارسا کے ممبران شامل ہوں گے۔