ایک ایسا سیارہ جہاں جانور حکمرانی کرتے ہیں!
سیاسی طنزیہ تحریریں، تبصرے کی ایک اثر انگیز قسم ہے جس میں سیاسی اور سماجی مسائل کا تجزیہ کرنے کے لیے مزاح کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ اور اشکال میں یہ ایک قوم اور معاشرے کے چیلنجز پر منفرد نقطہ نظر فراہم کرتا ہے اور عوام میں بحث اور شعور کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس صنف کی کتابوں میں ایکسو پرستی ناول ایک مثبت اضافہ ہے۔ صحافی اور مصنف زبیر حسن کی جانب سے تحریر کردہ اس ناول کی کہانی پاکستان کے بارے میں نہیں لیکن پھر بھی اس ناول کے ہر صفحے پر پاکستان موجود ہے۔ زبیر حسن گزشتہ 3 دہائیوں سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب انہوں نے کتاب تصنیف کی۔
کہانی کی شروعات ایکسو نامی ایک فرضی سیارے سے ہوتی ہے جہاں جانوروں کا راج ہے۔ ریاست کا ڈھانچہ، حقیقی دنیا کی کئی حکومتوں کی طرح ہے جس میں چار اہم ستون شامل ہیں یعنی عدلیہ، قانون سازی، ایگزیکٹو اور میڈیا۔ تاہم اس انوکھی دنیا میں ہر ایک اہم ستون کی نمائندگی یعنی حکمرانی کے اہم کردار مختلف جانور ادا کرتے ہیں۔
لومڑی عدلیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ ملٹری جو طاقت سمجھی جاتی ہے، اسے گھوڑے سے تشبیہ دیا گیا ہے۔ ایکسو کی زبان میں ملٹری ’ایلگوز‘ ہے جس کا مطلب اسٹیبلشمنٹ ہے۔ یہاں عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
اس سیارے میں زیبرا جج بنتے ہیں،مگر بہت سے گدھوں نے خود پر رنگ کرکے دیگر زیبرا ججز کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے بھیس بدل لیا۔ یہ استعارہ بتاتا ہے کہ نااہل افراد اختیار حاصل کرنے کے لیے اپنی اصلیت چھپاتے ہوئے عدلیہ میں گھس آئے ہیں۔
قانون ساز جوکہ حکومت میں آتے ہیں، ایکسو نامی سیارے میں وہ مستقل نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں اور الگ الگ جانور طاقت میں بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی اقتدار ہاتھی کو ملتا ہے جو طاقت اور تیز یادداشت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کوّا اقتدار میں آتا ہے جو نہ صرف اپنی ذہانت کے لیے جانا جاتا ہے بلکہ یہ مردہ جانداروں سے خوراک حاصل کرتا ہے۔ الّو جو اکثر عقل کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن اسے اندھیرے اور موت سے بھی منسلک کیا جاتا ہے یا گرگٹ کو اقتدار مل جاتا ہے جو موافقت اور دھوکا دہی کی نمائندگی کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ مختلف خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل تمام جانور ایکسو پر حکمرانی کرتے ہیں۔
سوراکی نامی بچھو ایکسو میں سیاست دان ہے۔ وہ اپنے ڈنک کے فوائد کے بارے میں اتنا بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے کہ دیگر جانوروں کو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ ان کا مسیحا ہے۔ اسی طرح میڈیا کے معاملات بھی مختلف عجیب عادات والے جانوروں کے ہاتھوں میں ہے۔ ان میں کوّا، مور، اسنفر (سونگنے والا) کتا اور دیگر جانور موجود ہیں۔
ایکسو میں مذہبی طبقہ انتہائی طاقتور ہے جسے ’باغبی‘ کہا گیا ہے۔ یہاں بڑے بکروں نے معاشرے کے مذہبی علما کی نمائندگی کی ہے۔ یہ اپنے فائدے کے لیے مذہبی احکامات فروخت کرتے ہیں، بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور سائنسی تحقیقات پر پابندیاں لگاتے ہیں۔
ایکسو میں عام لوگوں کی نمائندگی بھیڑوں اور بکریوں نے کی ہے۔ بھیڑوں اور بکریوں کے لیے مشہور ہے کہ انہیں آسانی سے اپنی رہنمائی میں چلایا جاسکتا ہے۔ ایکسو میں انہیں ’بوربیز‘ کہا گیا ہے اور یہ وہ عام لوگ ہیں جن کی معاشرے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ ان کا اپنی زندگی پر زیادہ اختیار نہیں اور وہ بس حکومتی اسکیمز کے خاموش تماشائی ہیں جنہیں بہلا پھسلایا جاتا ہے اور وہ کسی معاملے میں آواز نہیں اٹھاتے۔
کہانی میں ان کے مصائب اور جدوجہد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ظاہر کیا گیا ہے کہ ریاست کا پورا نظام ان کی محنت پر چلتا ہے اور جب ریاست کو ضرورت ہوتی ہے، سب سے پہلے قربانی بھی انہیں بھیڑوں بکریوں کی دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر زیڈ اے خان اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ وہ جانوروں کو خوب پسند کرتے ہیں جبکہ وہ ایک محقق اور عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے والے مایہ ناز صحافی ہیں۔ یہ پوری کہانی انہی کے گرد گھومتی ہے اور وہ اس کہانی کے راوی ہیں جو قارئین کی رہنمائی کرتے ہیں اور ایکسو میں پیش آنے والے واقعات خوبصورتی سے بتاتے ہیں۔
اس بیانیے میں شیلوب نامی ہرن نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ شیلوب کے پاس ٹیلی پورٹیشن کی صلاحیت ہے جس کی بنا پر وہ پلک جھپکتے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اس کہانی میں وہ ایکسو سیارے میں ڈاکٹر زیڈ اے خان کی رہنمائی کرتا ہے۔
ان کی موجودگی کہانی میں ایک صوفیانہ جہت کا اضافہ کرتی ہے جبکہ ایکسو پر معاشرے کے بارے میں گہری سچائیوں کو ظاہر کرنے میں مدد کرتی ہے اور یوں قارئین کے لیے طاقت اور بدعنوانی کے موضوعات کی عکاسی کرتے ہیں۔
جانوروں کو انسانوں کی دنیا میں انہی کی خصوصیات دینے سے ذہن کے پردے پر 19ویں صدی کا ادبی شاہکار آتا ہے جو مغربی یورپ میں لکھے گئے۔ یہ قارئین کو ایچ جی ویلز کے ناول The Island of Dr Moreau (1989ء) کی یاد دلاتا ہے جس میں اسی طرح کی تشبیہات کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں 1945ء کی مشہورِ زمانہ جارج اورویل کے اینیمل فارم کا خیال بھی آتا ہے جس میں مصنف نے روسی انقلاب کے بعد معاشرے کے مختلف طبقات اور مختلف اقسام کے لوگوں کی نمائندگی کے لیے جانوروں کا استعمال کیا تھا۔
ان کرداروں کے پیچھے مصنفین نے یہی کوشش کی کہ دنیا بالخصوص انسانی معاشرے کی عکاسی کی جائے۔ یہ ناول مطلق العنانیت، نظریات کی بدعنوانی اور اقتدار میں رہنے والوں کے انقلابی اہداف سے منحرف ہونے پر تنقید کرتا ہے۔ یہ معاشرتی اور سیاسی نظاموں پر بھی کڑی تنقید کرتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں طاقت، بدعنوانی اور استحصال کی حقیقی دنیا کی حرکیات پر طنز کے لیے ایکسو کے خیالی سیارے پر جانوروں کا سہارا لیا گیا ہے۔
ایکسوپرستی میں زبیر حسن کا طرزِ تحریر دلکش اور عمیق دونوں ہے جس سے ذاتی تجربے کی مضبوط حنس محسوس ہوتی ہے۔ کہانی بتانے کے ان کے طریقے کی وجہ سے قارئین کو یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ کرداروں کے ساتھ ان کی دنیا میں تمام واقعات کو اپنے سامنے ہوتے دیکھ رہے ہوں۔ پڑھنے والے یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کہانی لکھتے وقت مصنف زبیر حسن کے دماغ میں حقیقی کردار گردش کررہے ہوں گے۔
قارئین کو سحر میں مبتلا کردینے والی یہ تکنیک نہ صرف انہیں پوری کہانی میں متوجہ رکھتی ہے بلکہ یہ انہیں کہانی کے ڈراما میں مشغول رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ کہانی میں مکمل طور پر استعاراتی طور پر بیان کرنا، بلاشبہ مصنف کے فن کی واضح علامت ہے۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان نے اینی میشن کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور ’دی گلاس ورکر‘ جیسے منصوبے کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، ایکسوپرستی کو ایک اینی میٹڈ فلم بنایا جاسکتا ہے۔ یہ اینی میٹڈ فلم میں منتقلی کے لیے ایک مضبوط امیدوار ہے۔
ناول کی بھرپور تخیلاتی دنیا اور اس کی پیچیدہ تمثیلی کہانیاں، اینی میٹڈ میں منتقلی کے لیے بہترین ہیں۔ متحرک کردار اور ایکسو کی تفصیلی، علامتی ترتیب ایک اینیمیٹڈ فارمیٹ میں اچھی طرح ڈھل جائے گی جو سنیما میں منفرد اور شاندار بصری تجربہ پیش کرسکتی ہے۔ اس متحرک کہانی میں شامل مافوق الفطرت عناصر اور معاشرے پر پیچیدہ تنقید کو مؤثر طریقے سے اینی میشن کی شکل دے کر ناول کی کہانی کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔
تخلیقی بصری اینی میشن کی مدد سے ایکسوپرستی نہ صرف دیکھنے والوں کو تفریح فراہم کرے گا بلکہ یہ ناول کے قارئین کی طرح فلم دیکھنے والوں کو بھی سوچ میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس طرح کی اینی میشن، کہانی سنانے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو مزید ظاہر کرسکتی ہے جس سے عالمی سطح پر ملک کی ساکھ میں بہتری آئے گی۔
کتاب: ایکسو پرستی
مصنف: زبیر حسن
ناشر: ایٹلانٹس پبلیکیشنز
صفحات: 224
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔